Hikayat e Saadi (R.A) , Maut ka Waqt

I

intelligent086

Guest
حکایتِ سعدیؒ ...... موت کا وقت

maut-jpg.jpg

ایک شخص جو ننگے سر اور ننگے پاؤں تھا اور جس کے پاس سواری کا کوئی جانور بھی نہ تھا، حجاز جانے والے ایک قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ اپنی دھن میں کہتا جاتا تھا کہ نہ میں اونٹ پر سوار ہوں اور نہ اونٹ کی طرح بوجھ میری پشت پر لدا ہوا ہے۔ نہ کسی ملک کا بادشاہ ہوں اور نہ کسی بادشاہ کا غلام، نہ مجھے کوئی غم ستاتا ہے نہ فکر۔ آرام اور آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوں۔
ایک شتر سوار نے اسے دیکھا تو کہا، اے شخص تو اس حالت میں ہمارے ساتھ کہاں جا رہا ہے؟ تیرے بھلے کی کہتا ہوں لوٹ جا راستے کی سختیاں تجھے ہلاک کر دیں گی۔ اس شخص نے شتر سوار کی بات پر کچھ توجہ نہ دی اور برابر سفر کرتا رہا۔ جب قافلہ ایک مقام پر پہنچا تو اچانک اس شتر سوار کو معمولی سی تکلیف ہوئی اور وہ مرگیا۔ اس کی موت کی خبر مشہور ہوئی تو وہی بے نوا مسافر اس کی میت کے سرہانے آیا اور کہا، ہم تو اس سختی میں زندہ ہیں لیکن تو ہر طرح کی آسائش میں رہتے ہوئے مرگیا۔
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ جن لوگوں کو سختیاں برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ خوش و خرم رہتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں لاڈ کے پلے ہوئے فکروں اور غموں میں گھرے رہتے ہیں۔
اس حکایت میں یہ سبق بھی ہے کہ دنیاوی اسباب کی بنا پر کوئی رائے قائم کر لینا مناسب بات نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حفاظت کا معقول سامان رکھنے والا تباہ ہو جاتا ہے اور بے نوا محفوظ رہتا ہے۔
اس حکایت سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے اور اس کے آنے کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ بعض اوقات حالات و واقعات سے اس امر کا عندیہ نہیں ملتا کہ موت قریب ہے، پھر یکایک کچھ ایسا ہوتا ہے کہ زندگی کا سفر اختتام کو جا پہنچتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر وقت موت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

 
Top