I
intelligent086
Guest
حکایتِ سعدیؒ ۔۔۔۔۔ نیک آدمی اور ایک درخت
ایک عابد عرصہ دراز سے عبادت الٰہی میں مشغول تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ یہاں ایک قوم ہے، جو ایک درخت کی پرستش کرتی ہے۔ عابد سن کر غضب میں آیا اور اس درخت کے کاٹنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس کو شیطان ایک شیخ کی صور ت میں ملا اور پوچھا کہ کہاں جاتا ہے۔ عابد نے کہا کہ میں اس درخت کے کاٹنے کو جاتا ہوں ،جس کی لوگ پرستش کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگا تو فقیر آدمی ہے، تمہیں ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی کہ تم نے اپنی عبادت اور ذکر کو چھوڑا اور اس کام میں لگ پڑا۔ عابد بولا یہ بھی میری عبادت ہے۔ شیطان نے کہا میں تجھے ہرگز درخت نہ کاٹنے دو ں گا۔ اس پر دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ عابد نے شیطان کو نیچے ڈال دیا اور سینہ پر بیٹھ گیا۔ شیطان نے کہا کہ مجھے چھوڑ دے، میں تیرے ساتھ ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ہٹ گیا تو شیطان نے کہا، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس درخت کا کاٹنا فرض نہیں کیا اور تو خود اس کی پوجا نہیں کرتا۔ پھر تجھے کیا ضرورت ہے کہ اس میں دخل دیتا ہے۔ درخت کا کاٹنا منظور ہے ،تو اپنے کسی بزرگ کو حکم بھیج کر کٹوا دے گا۔ عابد نے کہا میں ضرور کاٹوں گا۔ پھر ان دونوں میں جنگ شروع ہو گئی۔ عابد اس پر غالب آگیا۔ اس کو گراکر اس کے سینہ پر بیٹھ گیا۔ شیطان عاجز آ گیا۔
اس نے ایک اور تدبیر سوچی اور کہا کہ میں ایک ایسی بات سناتا ہوں جو میرے اور تیرے درمیان فیصلہ کرنے والی ہو اور وہ تیرے لیے بہت بہتر اور نافع ہے۔ عابد نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا مجھے چھوڑ دے تو میں تجھے بتائوں۔ اس نے چھوڑ دیا، تو شیطان نے کہا کہ تو ایک فقیر آدمی ہے، تیرے پاس کوئی شے نہیں، لوگ نان نفقہ کا خیال رکھتے ہیں ۔ کیا تو نہیں چاہتا کہ تیرے پاس مال ہو اور اس سے اپنے خویش و اقارب کی خبر رکھے اورخود بھی لوگوں سے بے پرواہ ہو کر زندگی بسر کرے۔ اس نے کہا ہاں یہ بات تو دل چاہتا ہے۔ شیطان نے کہا کہ اس درخت کو کاٹنے کے ارادے سے باز آجا۔ میں ہر رات کو تیرے سر کے پاس دو دینار رکھ دیا کروں گا، سویرے اٹھ کے لے لیا کر۔ اپنے اہل و عیال و دیگر اقارب وہمسایہ پر خرچ کیا کر۔ تیرے لیے یہ کام بہت مفیداور مسلمانوں کے لیے بہت نافع ہو گا۔ اگر یہ درخت تو کاٹے گا ،تو اس کی جگہ وہ ایک اور درخت لگائیں گے۔ تو ا س میں کیا فائدہ ہو گا۔
عابد نے تھوڑا فکر کیا اور کہا کہ شیخ نے سچ کہا۔ میں کوئی بزرگ نہیں ہوں کہ اس کا کاٹنا مجھ پر لازم ہو اور مجھے اس کے کاٹنے کا کام امر فرمایا ہے کہ میں نہ کاٹنے سے گناہ گار ہوں گا اور جس بات کا اس شیخ نے ذکر کیا ہے، وہ بے شک مفید ہے۔ یہ سوچ کر عابد نے منظور کر لیا اور پورا عہد کر کے واپس آگیا۔ رات کوسویا صبح اٹھا تو دینار اپنے سرہانے پا کر بہت خوش ہوا۔ اسی طرح دوسرے دن بھی دو دینار مل گئے اور پھر تیسرے دن کچھ نہ ملا تو عابد کو غصہ آیا اور پھر درخت کاٹنے کے ارادے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر شیطان اسی صورت میں سامنے آگیا۔ اور کہنے لگا کہ اب کہاں کا ارادہ ہے۔ عابد نے کہا کہ درخت کو کاٹوں گا۔ اس نے کہا کہ میں ہرگز نہیں جانے دوں گا۔ اسی تکرار میں ان دونوں میں کشتی ہوئی۔ شیطان نے عابد کو گرا لیا اور سینہ پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اگر اس ارادے سے باز آ جائے، تو بہتر ورنہ تجھے ذبح کر ڈالوں گا۔ عابد نے معلوم کیا کہ مجھے اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں! کہنے لگا کہ اس کی وجہ بتائو کہ کل تو میں نے تم کو پچھاڑ دیا تھا آج تو غالب آ گیا ہے۔ کیا وجہ ہے۔ شیطان بولا کہ کل تو خالص خدا کے لیے درخت کاٹنے نکلا تھا۔ تیری نیت میں اخلاص تھا،لیکن آج دو دیناروں کے نہ ملنے کا غصہ ہے۔ آج تیرا ارادہ محض خدا کے لیے نہیں۔ اس لیے میں آج تجھ پر غالب آ گیا۔
ایک عابد عرصہ دراز سے عبادت الٰہی میں مشغول تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ یہاں ایک قوم ہے، جو ایک درخت کی پرستش کرتی ہے۔ عابد سن کر غضب میں آیا اور اس درخت کے کاٹنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس کو شیطان ایک شیخ کی صور ت میں ملا اور پوچھا کہ کہاں جاتا ہے۔ عابد نے کہا کہ میں اس درخت کے کاٹنے کو جاتا ہوں ،جس کی لوگ پرستش کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگا تو فقیر آدمی ہے، تمہیں ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی کہ تم نے اپنی عبادت اور ذکر کو چھوڑا اور اس کام میں لگ پڑا۔ عابد بولا یہ بھی میری عبادت ہے۔ شیطان نے کہا میں تجھے ہرگز درخت نہ کاٹنے دو ں گا۔ اس پر دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ عابد نے شیطان کو نیچے ڈال دیا اور سینہ پر بیٹھ گیا۔ شیطان نے کہا کہ مجھے چھوڑ دے، میں تیرے ساتھ ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ہٹ گیا تو شیطان نے کہا، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس درخت کا کاٹنا فرض نہیں کیا اور تو خود اس کی پوجا نہیں کرتا۔ پھر تجھے کیا ضرورت ہے کہ اس میں دخل دیتا ہے۔ درخت کا کاٹنا منظور ہے ،تو اپنے کسی بزرگ کو حکم بھیج کر کٹوا دے گا۔ عابد نے کہا میں ضرور کاٹوں گا۔ پھر ان دونوں میں جنگ شروع ہو گئی۔ عابد اس پر غالب آگیا۔ اس کو گراکر اس کے سینہ پر بیٹھ گیا۔ شیطان عاجز آ گیا۔
اس نے ایک اور تدبیر سوچی اور کہا کہ میں ایک ایسی بات سناتا ہوں جو میرے اور تیرے درمیان فیصلہ کرنے والی ہو اور وہ تیرے لیے بہت بہتر اور نافع ہے۔ عابد نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا مجھے چھوڑ دے تو میں تجھے بتائوں۔ اس نے چھوڑ دیا، تو شیطان نے کہا کہ تو ایک فقیر آدمی ہے، تیرے پاس کوئی شے نہیں، لوگ نان نفقہ کا خیال رکھتے ہیں ۔ کیا تو نہیں چاہتا کہ تیرے پاس مال ہو اور اس سے اپنے خویش و اقارب کی خبر رکھے اورخود بھی لوگوں سے بے پرواہ ہو کر زندگی بسر کرے۔ اس نے کہا ہاں یہ بات تو دل چاہتا ہے۔ شیطان نے کہا کہ اس درخت کو کاٹنے کے ارادے سے باز آجا۔ میں ہر رات کو تیرے سر کے پاس دو دینار رکھ دیا کروں گا، سویرے اٹھ کے لے لیا کر۔ اپنے اہل و عیال و دیگر اقارب وہمسایہ پر خرچ کیا کر۔ تیرے لیے یہ کام بہت مفیداور مسلمانوں کے لیے بہت نافع ہو گا۔ اگر یہ درخت تو کاٹے گا ،تو اس کی جگہ وہ ایک اور درخت لگائیں گے۔ تو ا س میں کیا فائدہ ہو گا۔
عابد نے تھوڑا فکر کیا اور کہا کہ شیخ نے سچ کہا۔ میں کوئی بزرگ نہیں ہوں کہ اس کا کاٹنا مجھ پر لازم ہو اور مجھے اس کے کاٹنے کا کام امر فرمایا ہے کہ میں نہ کاٹنے سے گناہ گار ہوں گا اور جس بات کا اس شیخ نے ذکر کیا ہے، وہ بے شک مفید ہے۔ یہ سوچ کر عابد نے منظور کر لیا اور پورا عہد کر کے واپس آگیا۔ رات کوسویا صبح اٹھا تو دینار اپنے سرہانے پا کر بہت خوش ہوا۔ اسی طرح دوسرے دن بھی دو دینار مل گئے اور پھر تیسرے دن کچھ نہ ملا تو عابد کو غصہ آیا اور پھر درخت کاٹنے کے ارادے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر شیطان اسی صورت میں سامنے آگیا۔ اور کہنے لگا کہ اب کہاں کا ارادہ ہے۔ عابد نے کہا کہ درخت کو کاٹوں گا۔ اس نے کہا کہ میں ہرگز نہیں جانے دوں گا۔ اسی تکرار میں ان دونوں میں کشتی ہوئی۔ شیطان نے عابد کو گرا لیا اور سینہ پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اگر اس ارادے سے باز آ جائے، تو بہتر ورنہ تجھے ذبح کر ڈالوں گا۔ عابد نے معلوم کیا کہ مجھے اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں! کہنے لگا کہ اس کی وجہ بتائو کہ کل تو میں نے تم کو پچھاڑ دیا تھا آج تو غالب آ گیا ہے۔ کیا وجہ ہے۔ شیطان بولا کہ کل تو خالص خدا کے لیے درخت کاٹنے نکلا تھا۔ تیری نیت میں اخلاص تھا،لیکن آج دو دیناروں کے نہ ملنے کا غصہ ہے۔ آج تیرا ارادہ محض خدا کے لیے نہیں۔ اس لیے میں آج تجھ پر غالب آ گیا۔