I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔ پھل
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار میں کشتی کے ذریعے دریا میں سفر کر رہا تھا۔ ہماری کشتی کے پیچھے ایک چھوٹی کشتی آ رہی تھی جس میں کچھ مسافر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ چھوٹی کشتی بھنور میں پھنس کر الٹ گئی اور اس میں جو مسافر سوار تھے وہ غوطے کھانے لگے۔ میں نے دیکھا کہ اس کشتی کے مسافروں میں دو حقیقی بھائی بھی تھے۔ میں ان کی حالت پر افسوس کر رہا تھا کہ ایک امیر آدمی نے اس کشتی کے ملاح سے جس میں ہم سوار تھے کہا، اگر تو ڈوبتے مسافروں کو بچا لے تو میں تجھے بھاری انعام دوں گا۔
یہ بات سن کر ملاح فوراًدریا میں کود گیا اور دونوں بھائیوں میں سے ایک کو بچا لایا۔ دوسرا دریا میں ڈوب گیا۔ میں نے ملاح سے کہا کہ تو نے اپنی طرف سے ان دونوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ ڈوبنے والے کی زندگی ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس وجہ سے تیری کوشش کامیاب نہ ہوئی۔
ملاح میری یہ بات سن کر مسکرایا اور پھریوں بولا ''بے شک یہ بات بھی ٹھیک ہے لیکن اس مسافر کے ڈوبنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایک بار مجھے کوڑے سے پیٹا تھا۔ میں اس سے بدلہ نہ لے سکا تھا لیکن وہ بات میرے دل میں کھٹکتی رہتی تھی۔ آج مجھے وہی بات یاد آ گئی اور میں نے اسے بچانے کے لیے ویسی کوشش نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ رہا اس مسافر کا معاملہ جسے میں بچا کر لایا ہوں تو اس نے ایک بار مصیبت کے وقت میری امداد کی تھی۔ میں صحرا میں پیدل سفر کر رہا تھا اور بری طرح تھک چکا تھا۔ یہ ادھر سے گزرا تو اس نے مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا۔ بس اس کی وہ بات مجھے اس وقت یاد آ گئی اور میں نے اپنی جان کی پروانہ کرتے ہوئے اسے بچا لیا۔
ملاح کی یہ بات سن کر میں نے دل میں کہا، سچ ہے، انسان جو عمل بھی کرتا ہے، اسی کے مطابق اسے پھل ملتا ہے۔
جہاں تک ہو سکے حاجت روائی کر غریبوں کی
دل آزاری سے بچ، زخمی دلوں کی آہ پیکاں ہے
سنبھل کر چل بہت کانٹے ہیں راہ زند گانی میں
نہ جانے کل ترا کیا حال ہو تو بھی تو انساں ہے
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بتایا ہے کہ روز جزا تو ہر انسا ن اپنے اچھے یا برے اعمال کا نتیجہ دیکھے گا ہی، اس دنیا میں بھی اسے اس کے اچھے کام کا اجر اور برے فعل کی سزا ملتی ہے۔
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار میں کشتی کے ذریعے دریا میں سفر کر رہا تھا۔ ہماری کشتی کے پیچھے ایک چھوٹی کشتی آ رہی تھی جس میں کچھ مسافر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ چھوٹی کشتی بھنور میں پھنس کر الٹ گئی اور اس میں جو مسافر سوار تھے وہ غوطے کھانے لگے۔ میں نے دیکھا کہ اس کشتی کے مسافروں میں دو حقیقی بھائی بھی تھے۔ میں ان کی حالت پر افسوس کر رہا تھا کہ ایک امیر آدمی نے اس کشتی کے ملاح سے جس میں ہم سوار تھے کہا، اگر تو ڈوبتے مسافروں کو بچا لے تو میں تجھے بھاری انعام دوں گا۔
یہ بات سن کر ملاح فوراًدریا میں کود گیا اور دونوں بھائیوں میں سے ایک کو بچا لایا۔ دوسرا دریا میں ڈوب گیا۔ میں نے ملاح سے کہا کہ تو نے اپنی طرف سے ان دونوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ ڈوبنے والے کی زندگی ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس وجہ سے تیری کوشش کامیاب نہ ہوئی۔
ملاح میری یہ بات سن کر مسکرایا اور پھریوں بولا ''بے شک یہ بات بھی ٹھیک ہے لیکن اس مسافر کے ڈوبنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایک بار مجھے کوڑے سے پیٹا تھا۔ میں اس سے بدلہ نہ لے سکا تھا لیکن وہ بات میرے دل میں کھٹکتی رہتی تھی۔ آج مجھے وہی بات یاد آ گئی اور میں نے اسے بچانے کے لیے ویسی کوشش نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ رہا اس مسافر کا معاملہ جسے میں بچا کر لایا ہوں تو اس نے ایک بار مصیبت کے وقت میری امداد کی تھی۔ میں صحرا میں پیدل سفر کر رہا تھا اور بری طرح تھک چکا تھا۔ یہ ادھر سے گزرا تو اس نے مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا۔ بس اس کی وہ بات مجھے اس وقت یاد آ گئی اور میں نے اپنی جان کی پروانہ کرتے ہوئے اسے بچا لیا۔
ملاح کی یہ بات سن کر میں نے دل میں کہا، سچ ہے، انسان جو عمل بھی کرتا ہے، اسی کے مطابق اسے پھل ملتا ہے۔
جہاں تک ہو سکے حاجت روائی کر غریبوں کی
دل آزاری سے بچ، زخمی دلوں کی آہ پیکاں ہے
سنبھل کر چل بہت کانٹے ہیں راہ زند گانی میں
نہ جانے کل ترا کیا حال ہو تو بھی تو انساں ہے
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بتایا ہے کہ روز جزا تو ہر انسا ن اپنے اچھے یا برے اعمال کا نتیجہ دیکھے گا ہی، اس دنیا میں بھی اسے اس کے اچھے کام کا اجر اور برے فعل کی سزا ملتی ہے۔