I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔ پوشیدہ حکمتیں
خود کو عقل و دانش کا گہوارہ سمجھنے والا خود پسند خوشامد پسند عقل کل کا مالک ایک بادشاہ تھا۔جبکہ اس کا وزیر باتدبیرپڑھا لکھا، تربیت یافتہ ، تحمل مزاج اور سمجھدار تھا۔ ایک دن چھری کانٹے کے ساتھ پھل کھاتے ہوئے بادشاہ سلامت کی انگلی زخمی ہو گئی۔ دلیر بادشاہ سلامت اپنا خون بہتا دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ وزیر نے کہا، ـ ’’ظل ِالہٰی، کوئی بات نہیں اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی۔‘‘
نازک مزاج بادشاہ چیخ اُٹھا، ’’ میری انگلی کٹ گئی ہے اور اسے دیکھو، اسے حکمت نظرآ رہی ہے ......’’دروغہ،دروغہ....‘‘ بادشاہ چلایا۔ ’’اسے ابھی جیل میں ڈال دو۔ ابھی اسی وقت‘‘۔ بادشاہ کے حکم پر وزیر کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ کچھ ہی دنوں میں بادشاہ کی انگلی ٹھیک ہو گئی لیکن وزیر ابھی جیل میں ہی تھا۔
بادشاہ سلامت ایک دن شکار کی تلاش میں اکیلے ہی جنگل کی طرف نکل گئے۔واپسی پر راستہ بھٹک گئے، اور کسی دوسری سلطنت میں پہنچ گئے۔ وہاں کے لوگ وحشی اور غیر تربیت یافتہ تھے۔علم کی روشنی ان کے قریب سے بھی نہ گزری ہو گی۔ وہاں کے سردار نے حکم دیا ’’ اسے کمرے میں قید کر دو۔ہفتے کے دن اس کو قتل کیا جائے گا‘‘۔
مقررہ دن بادشاہ سلامت کو قتل گاہ میں لے جایا گیا۔ ابھی وہ سب گاتے بجاتے ، ڈھول پیٹتے اسے چبوترے کی جانب لے جا رہے تھے کہ ان کے مذہب پروہت کی نگاہ اس کی انگلی پر پڑی۔ جہاں سے انگلی کٹنے کا نشان صاف نظر آ ریا تھا۔ پروہت نے جنگلیوں کے سردار کو مخاطب کیا، ’’اے سردار اس کی قربانی نہیں ہو سکتی۔ یہ داغی ہے‘‘۔ سردار نے پروہت کا حکم سنتے ہی بادشاہ کی انگلی کی جانب نگاہ دوڑائی او رساتھ ہی اسے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔پروہت نے حکم دیا کہ ’’یہ داغی شخص ہماری سلطنت میں کہیں نظر نہ آئے‘‘۔ یہ بات سنتے ہی سردار کے آدمی بادشاہ کو صحیح سلامت ملک کے باہر چھوڑ گئے۔ بادشاہ اپنے ملک میں واپس آگیا۔ بادشاہ جب اپنے محل میں پہنچا تو گرفتار کرنے والے وزیر کو فوراََ ہی رہا کرنے کاحکم دیا وہ ا س قدر شرمندہ تھا کہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کی معافی کس طرح مانگے، لیکن پھر بھی وزیر کے سامنے آتے ہی کہنے لگا:’’ اے وزیر با تدبیر، تم ٹھیک کہتے تھے کہ انگلی کے کٹنے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہو گی، میں نا سمجھ تھا ،ویسے بھی انسان اللہ تعالیٰ کی حکمت کو سمجھنے کے قابل ہی کہاں ہے۔ کیونکہ اس زخم کی وجہ سے میری جان بچ گئی،اور یوں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی حکمت میری زندگی میں ہی سمجھا دی‘‘۔
یہ سنتے ہی وزیر نے دوبارہ کہا:’’ بے شک اللہ تعالیٰ کی باتوں میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے، کبھی کبھی یہ ہماری زندگی میں ہی پتہ چل جاتی ہے اور کبھی اس کا ادراک ہم نہیں کر پاتے‘‘۔
خود کو عقل و دانش کا گہوارہ سمجھنے والا خود پسند خوشامد پسند عقل کل کا مالک ایک بادشاہ تھا۔جبکہ اس کا وزیر باتدبیرپڑھا لکھا، تربیت یافتہ ، تحمل مزاج اور سمجھدار تھا۔ ایک دن چھری کانٹے کے ساتھ پھل کھاتے ہوئے بادشاہ سلامت کی انگلی زخمی ہو گئی۔ دلیر بادشاہ سلامت اپنا خون بہتا دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ وزیر نے کہا، ـ ’’ظل ِالہٰی، کوئی بات نہیں اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی۔‘‘
نازک مزاج بادشاہ چیخ اُٹھا، ’’ میری انگلی کٹ گئی ہے اور اسے دیکھو، اسے حکمت نظرآ رہی ہے ......’’دروغہ،دروغہ....‘‘ بادشاہ چلایا۔ ’’اسے ابھی جیل میں ڈال دو۔ ابھی اسی وقت‘‘۔ بادشاہ کے حکم پر وزیر کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ کچھ ہی دنوں میں بادشاہ کی انگلی ٹھیک ہو گئی لیکن وزیر ابھی جیل میں ہی تھا۔
بادشاہ سلامت ایک دن شکار کی تلاش میں اکیلے ہی جنگل کی طرف نکل گئے۔واپسی پر راستہ بھٹک گئے، اور کسی دوسری سلطنت میں پہنچ گئے۔ وہاں کے لوگ وحشی اور غیر تربیت یافتہ تھے۔علم کی روشنی ان کے قریب سے بھی نہ گزری ہو گی۔ وہاں کے سردار نے حکم دیا ’’ اسے کمرے میں قید کر دو۔ہفتے کے دن اس کو قتل کیا جائے گا‘‘۔
مقررہ دن بادشاہ سلامت کو قتل گاہ میں لے جایا گیا۔ ابھی وہ سب گاتے بجاتے ، ڈھول پیٹتے اسے چبوترے کی جانب لے جا رہے تھے کہ ان کے مذہب پروہت کی نگاہ اس کی انگلی پر پڑی۔ جہاں سے انگلی کٹنے کا نشان صاف نظر آ ریا تھا۔ پروہت نے جنگلیوں کے سردار کو مخاطب کیا، ’’اے سردار اس کی قربانی نہیں ہو سکتی۔ یہ داغی ہے‘‘۔ سردار نے پروہت کا حکم سنتے ہی بادشاہ کی انگلی کی جانب نگاہ دوڑائی او رساتھ ہی اسے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔پروہت نے حکم دیا کہ ’’یہ داغی شخص ہماری سلطنت میں کہیں نظر نہ آئے‘‘۔ یہ بات سنتے ہی سردار کے آدمی بادشاہ کو صحیح سلامت ملک کے باہر چھوڑ گئے۔ بادشاہ اپنے ملک میں واپس آگیا۔ بادشاہ جب اپنے محل میں پہنچا تو گرفتار کرنے والے وزیر کو فوراََ ہی رہا کرنے کاحکم دیا وہ ا س قدر شرمندہ تھا کہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کی معافی کس طرح مانگے، لیکن پھر بھی وزیر کے سامنے آتے ہی کہنے لگا:’’ اے وزیر با تدبیر، تم ٹھیک کہتے تھے کہ انگلی کے کٹنے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہو گی، میں نا سمجھ تھا ،ویسے بھی انسان اللہ تعالیٰ کی حکمت کو سمجھنے کے قابل ہی کہاں ہے۔ کیونکہ اس زخم کی وجہ سے میری جان بچ گئی،اور یوں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی حکمت میری زندگی میں ہی سمجھا دی‘‘۔
یہ سنتے ہی وزیر نے دوبارہ کہا:’’ بے شک اللہ تعالیٰ کی باتوں میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے، کبھی کبھی یہ ہماری زندگی میں ہی پتہ چل جاتی ہے اور کبھی اس کا ادراک ہم نہیں کر پاتے‘‘۔