I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔ سپاہیوں کی بددلی
کہتے ہیں، پچھلے زمانے میں ایک بادشاہ اپنے ملک کے انتظام کی طرف توجہ دیتا تھا نہ لشکریوں کی دلجوئی اور خبر گیری کرتا تھا۔ چنانچہ نتیجہ اس کا یہ تھا کہ رعایا بد دل اور سپاہی خستہ حال تھے۔ ظاہر ہے ایسی باتیں دشمنوں سے چھپی نہیں رہتیں۔ بادشاہ کے ایک حریف نے ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہا اور اس کے ملک پر حملہ کر دیا۔ یہ بادشاہ اپنی فوج آراستہ کر کے مقابلے پر آیا۔ پہلی ہی جھڑپ میں سپاہیوں کی بہت بڑی تعداد اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ کتنے ہی سپاہی اور افسر دشمن سے جا ملے۔
سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے غداری اور بے وفائی کی تھی ان میں سے ایک شخص میرا واقف تھا۔ وہ مجھے ملا تو میں نے ملامت کی کہ اے شخص، یہ بات تو شرافت اور مردانگی کے خلاف ہے کہ تو اس بادشاہ کو چھوڑ کر جس کا تو نے نمک کھایا ہے اور جس کے سائے میں اتنا عرصہ اطمینان اور امن کی زندگی بسر کی ہے، اس کے دشمن سے جا ملا ہے۔
اس شخص نے میری بات سن کر کہا، بے شک یہ فعل پسندیدہ نہیں لیکن انصاف شرط ہے۔ میں نے ایسی حالت میں بادشاہ کا ساتھ چھوڑا ہے کہ میرا گھوڑا بھوکا اور زین کا نمدہ گروی رکھا ہوا تھا۔ تم ہی بتاؤ ایسی حالت میں میں کیا کرتا ہے۔
سعدیؒ نے اس حکایت میں جہاندانی کا یہ زرّین اصول بتا یا ہے کہ ملک میں امن و امان کی فضا پیدا کرنے اور آزادی کی حفاظت کرنے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ اپنے لشکریوں کی مالی حالات اچھی رکھی جائے اور حکمران اپنے سپاہیوں کو روپے سے زیادہ عزیز رکھے۔ تنگ دستی اور غربت ایسی بری چیز ہے کہ انتہائی نیک نیت اور وفا دار لوگوں کو بھی مختلف انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
کہتے ہیں، پچھلے زمانے میں ایک بادشاہ اپنے ملک کے انتظام کی طرف توجہ دیتا تھا نہ لشکریوں کی دلجوئی اور خبر گیری کرتا تھا۔ چنانچہ نتیجہ اس کا یہ تھا کہ رعایا بد دل اور سپاہی خستہ حال تھے۔ ظاہر ہے ایسی باتیں دشمنوں سے چھپی نہیں رہتیں۔ بادشاہ کے ایک حریف نے ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہا اور اس کے ملک پر حملہ کر دیا۔ یہ بادشاہ اپنی فوج آراستہ کر کے مقابلے پر آیا۔ پہلی ہی جھڑپ میں سپاہیوں کی بہت بڑی تعداد اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ کتنے ہی سپاہی اور افسر دشمن سے جا ملے۔
سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے غداری اور بے وفائی کی تھی ان میں سے ایک شخص میرا واقف تھا۔ وہ مجھے ملا تو میں نے ملامت کی کہ اے شخص، یہ بات تو شرافت اور مردانگی کے خلاف ہے کہ تو اس بادشاہ کو چھوڑ کر جس کا تو نے نمک کھایا ہے اور جس کے سائے میں اتنا عرصہ اطمینان اور امن کی زندگی بسر کی ہے، اس کے دشمن سے جا ملا ہے۔
اس شخص نے میری بات سن کر کہا، بے شک یہ فعل پسندیدہ نہیں لیکن انصاف شرط ہے۔ میں نے ایسی حالت میں بادشاہ کا ساتھ چھوڑا ہے کہ میرا گھوڑا بھوکا اور زین کا نمدہ گروی رکھا ہوا تھا۔ تم ہی بتاؤ ایسی حالت میں میں کیا کرتا ہے۔
سعدیؒ نے اس حکایت میں جہاندانی کا یہ زرّین اصول بتا یا ہے کہ ملک میں امن و امان کی فضا پیدا کرنے اور آزادی کی حفاظت کرنے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ اپنے لشکریوں کی مالی حالات اچھی رکھی جائے اور حکمران اپنے سپاہیوں کو روپے سے زیادہ عزیز رکھے۔ تنگ دستی اور غربت ایسی بری چیز ہے کہ انتہائی نیک نیت اور وفا دار لوگوں کو بھی مختلف انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔