I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔ طاقت اور بزدلی
حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں، ایک دفعہ میں بلخ سے چند شامیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوا۔ اس دنوں قزاق اکثر قافلوں کو لوٹ لیتے تھے اور ہمیں بھی راستے میں ہر لحظہ قزاقوں کے حملہ کا ڈر تھا۔ ہماری رہبری اور نگہبانی ایک قوی الجثہ نوجوان کر رہا تھا۔ وہ سر تا پا ہتھیار سجائے اوپچی بنا ہوا تھا۔ جوانی کے زور میں جو دیوار سامنے آتی اسے گرا دیتا اور بڑے بڑے تن آور درختوں کو اپنے قوت بازو سے اکھاڑ دیتا تھا۔ اس نوجوان کا جسم تو فی الواقع بہت بھاری تھا
اور شہ زوری میں اس کا کوئی کلام نہ تھا لیکن اس نے اپنے گھر کے اندر نازونعمت سے پرورش پائی تھی اور زمانے کی سختی نہیں دیکھی تھی۔ اس سے پہلے اس نے نہ کبھی سفر کیا تھا، نہ اس کی آنکھوں نے شہ سواروں کی تلواروں کی چمک دیکھی تھی اور نہ اس کے کان دلاوروں کے نعروں اور جنگی نقاروں کی آواز سے آشنا ہوئے تھے۔
اثنائے سفر میں یکایک ایک چٹان کے پیچھے سے دو قزاق نمودار ہوئے۔ ایک کے ہاتھ میں لکڑی اور دوسرے کے ہاتھ میں موگری تھی۔
انہوں نے ہم سے لڑنے کا قصد کیا تو میں نے اس نوجوان سے کہا ’’دیکھتا کیا ہے آگے بڑھ کر ان کا کچومر نکال دے‘‘ لیکن
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ نوجوان کے ہاتھ سے کمان گر پڑی اور اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ ناچار ہم نے اپنا مال و اسباب اور ہتھیار قزاقوں کے حوالے کیے اور اپنی جان بچائی۔ اس سے سبق ملتا ہے
کہ وہ شہ زور تو تھا لیکن تجربہ کار اور بہادر نہ تھا۔ وہ طاقت کس کام کی جو استعمال ہی نہ ہو پائے۔
حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں، ایک دفعہ میں بلخ سے چند شامیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوا۔ اس دنوں قزاق اکثر قافلوں کو لوٹ لیتے تھے اور ہمیں بھی راستے میں ہر لحظہ قزاقوں کے حملہ کا ڈر تھا۔ ہماری رہبری اور نگہبانی ایک قوی الجثہ نوجوان کر رہا تھا۔ وہ سر تا پا ہتھیار سجائے اوپچی بنا ہوا تھا۔ جوانی کے زور میں جو دیوار سامنے آتی اسے گرا دیتا اور بڑے بڑے تن آور درختوں کو اپنے قوت بازو سے اکھاڑ دیتا تھا۔ اس نوجوان کا جسم تو فی الواقع بہت بھاری تھا
اور شہ زوری میں اس کا کوئی کلام نہ تھا لیکن اس نے اپنے گھر کے اندر نازونعمت سے پرورش پائی تھی اور زمانے کی سختی نہیں دیکھی تھی۔ اس سے پہلے اس نے نہ کبھی سفر کیا تھا، نہ اس کی آنکھوں نے شہ سواروں کی تلواروں کی چمک دیکھی تھی اور نہ اس کے کان دلاوروں کے نعروں اور جنگی نقاروں کی آواز سے آشنا ہوئے تھے۔
اثنائے سفر میں یکایک ایک چٹان کے پیچھے سے دو قزاق نمودار ہوئے۔ ایک کے ہاتھ میں لکڑی اور دوسرے کے ہاتھ میں موگری تھی۔
انہوں نے ہم سے لڑنے کا قصد کیا تو میں نے اس نوجوان سے کہا ’’دیکھتا کیا ہے آگے بڑھ کر ان کا کچومر نکال دے‘‘ لیکن
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ نوجوان کے ہاتھ سے کمان گر پڑی اور اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ ناچار ہم نے اپنا مال و اسباب اور ہتھیار قزاقوں کے حوالے کیے اور اپنی جان بچائی۔ اس سے سبق ملتا ہے
کہ وہ شہ زور تو تھا لیکن تجربہ کار اور بہادر نہ تھا۔ وہ طاقت کس کام کی جو استعمال ہی نہ ہو پائے۔