Hikayat e Saadi (R.A) Ustad aur Shagrid

I

intelligent086

Guest
حکایت سعدیؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ استاد اور شاگرد

ustad-jpg.jpg

ایک پہلوان کو کشتی لڑنے کے فن میں کمال حاصل تھا۔ وہ 360 عجیب وغریب دائو جانتا تھا اور ہر روز اک نئے دائو سے پنجہ لڑاتا تھا۔ شاگردوں میں سے ایک پٹھے کے جوہر پر اس کی خاص نظر عنایت تھی، یہاں تک کہ اسے 359 دائو سکھا دیئے، صرف ایک پیچ باقی رہ گیا تھا جس کے سکھانے میں وہ ہمیشہ ٹال مٹول کرتا رہا۔ قصہ مختصر، وہ نوجوان پہلوانی کے فن میں یہاں تک طاق ہو گیا کہ کسی کو اس کے ساتھ زور آزمائی کی جرأت نہ رہی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن بادشاہ وقت سے کہنے لگا، جہاں پناہ استاد کو مجھ پر ایک تو عمر میں بڑا ہونے کی فضیلت ہے دوسرے حقِ استادی کی، ورنہ میں قوت میں اس سے کم نہیں ہوں اور فنِ پہلوانی میں اس کا جوڑ ہوں۔ یہ بڑا بول بادشاہ کو ناگوار گزرا۔ حکم دیا کہ دونوں کا دنگل کرایا جائے۔ کشتی کے لیے ایک وسیع میدان کا انتظام کیا گیا۔ جہاں امرا اور وزیروں کے علاوہ دور و نزدیک سے تمام پہلوان بھی جمع ہوئے۔ نوجوان پہلوان اکھاڑے میں مست ہاتھی کی طرح اس دھماکے سے داخل ہوا جیسے راہ میں آنے والے آہنی پہاڑ کو اکھاڑ پھینکے گا۔ استاد خوب سمجھتا تھا کہ جوان قوت میں اس سے زیادہ ہے اس لیے اس سے اسی نادر دائو کے ساتھ جو اس سے چھپا رکھا تھا ،گتھ گیا۔ جوان اس کا توڑ نہیں جانتا تھا اس لیے گھبرا گیا۔ استاد نے اسے دونوں ہاتھوں سے سر کے اُوپر اٹھا کر دھڑام سے زمین پر دے پٹخا۔ اکھاڑے میں وہ مارا کا شور برپا ہوا۔
بادشاہ نے استاد کو خلعت وانعام دیا اور شاگرد کو ڈانٹ ڈپٹ پلاتے ہوئے کہا، تو اپنے مربی کے مقابلے پر آگیا اور پھر کھائی منہ کی۔ جوان نے عرض کی، استاد نے مجھ پر زور و قوت کے بل بوتے پر فتح نہیں پائی بلکہ میرے پہلوانی کے فن میں فقط اک دائو کی کسر باقی رہ گئی تھی جس کے سکھانے سے وہ ہمیشہ کنی کتراتا رہا اور آج اسی دائو کی بدولت مجھے دے پٹخا۔ استاد نے کہا، ہاں، میں نے وہ دائو اسی دن کے لیے بچا رکھا تھا کیونکہ دانائوں کا قول ہے کہ دوست کو اتنی قوت نہ دو کہ جب دشمنی کرنا چاہے تو کر سکے۔​
 
Top Bottom