I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔ وزیر کا انجام
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کا وزیر بہت لالچی اور سنگ دل تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر بادشاہ کو خوش رکھا جائے تو ہر طرح کے نقصان سے بچار ہوں گا چنانچہ اپنے اس خیال کی بنا پر وہ رعایا کو حق ناحق ستاتا اور لوٹتا تھا اور سونا چاندی اکٹھا کر کے بادشاہ کا خزانہ بھرتا رہتا تھا۔
بزرگوں نے کہا ہے کہ جو شخص سچے خدا کو چھوڑ کر کسی اور کو (نعوذباللہ) خدا بنا لے، خدا اسے اسکے ہاتھوں سزا دلواتا ہے۔ اس وزیر بے تدبیر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ اتفاق سے بادشاہ کو اسکی کسی غلطی بارے پتا چل گیا اور وہ اس سے اس قدر ناراض ہوا کہ اسے شکنجے میں کسوا کر ہلاک کروا دیا۔
اگر وہ یہ بات سمجھ لیتا تو اس انجام کو نہ پہنچتا کہ بادشاہ کو خوش کرنے کی سب سے اچھی تدبیر یہ ہے کہ غریب رعایا کو خوش کیا جائے اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ خدا اس سے راضی ہو جائے تو اسے چاہیے کہ خلق خدا کو خو ش کرے۔
جس وقت ظالم وزیر کو سزادی جا رہی تھی، ایک شخص اس طرف سے گزرا جسے اس نے ستایا تھا اس نے اسے اس حال میں دیکھا تو کہا۔
جو ستاتا ہے غریبوں کو برا کرتا ہے
ظلم کی شاخ کو بدبخت ہراکرتا ہے
کوئی چاہے تو نگل سکتا ہے ہڈی لیکن
معدہ اس فعل سے انساں کا پھٹا کرتا ہے
حضرت سعدیؒنے اس حکایت میں مشرک کے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مخلوق میں سے کسی کو خدا ئی صفات کا حامل سمجھ لیا جائے تو ظلم عظیم ہے۔ ایسا شخص دائمی جہنم کا مستحق بن جاتا ہے اور دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوتا ہے، جیسا کہ ظالم وزیر اس بادشاہ کے ہاتھوں تباہ ہوا جسے خوش کرنے کے لیے وہ غریبوں کو ستاتا اور لوٹتا تھا۔
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کا وزیر بہت لالچی اور سنگ دل تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر بادشاہ کو خوش رکھا جائے تو ہر طرح کے نقصان سے بچار ہوں گا چنانچہ اپنے اس خیال کی بنا پر وہ رعایا کو حق ناحق ستاتا اور لوٹتا تھا اور سونا چاندی اکٹھا کر کے بادشاہ کا خزانہ بھرتا رہتا تھا۔
بزرگوں نے کہا ہے کہ جو شخص سچے خدا کو چھوڑ کر کسی اور کو (نعوذباللہ) خدا بنا لے، خدا اسے اسکے ہاتھوں سزا دلواتا ہے۔ اس وزیر بے تدبیر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ اتفاق سے بادشاہ کو اسکی کسی غلطی بارے پتا چل گیا اور وہ اس سے اس قدر ناراض ہوا کہ اسے شکنجے میں کسوا کر ہلاک کروا دیا۔
اگر وہ یہ بات سمجھ لیتا تو اس انجام کو نہ پہنچتا کہ بادشاہ کو خوش کرنے کی سب سے اچھی تدبیر یہ ہے کہ غریب رعایا کو خوش کیا جائے اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ خدا اس سے راضی ہو جائے تو اسے چاہیے کہ خلق خدا کو خو ش کرے۔
جس وقت ظالم وزیر کو سزادی جا رہی تھی، ایک شخص اس طرف سے گزرا جسے اس نے ستایا تھا اس نے اسے اس حال میں دیکھا تو کہا۔
جو ستاتا ہے غریبوں کو برا کرتا ہے
ظلم کی شاخ کو بدبخت ہراکرتا ہے
کوئی چاہے تو نگل سکتا ہے ہڈی لیکن
معدہ اس فعل سے انساں کا پھٹا کرتا ہے
حضرت سعدیؒنے اس حکایت میں مشرک کے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مخلوق میں سے کسی کو خدا ئی صفات کا حامل سمجھ لیا جائے تو ظلم عظیم ہے۔ ایسا شخص دائمی جہنم کا مستحق بن جاتا ہے اور دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوتا ہے، جیسا کہ ظالم وزیر اس بادشاہ کے ہاتھوں تباہ ہوا جسے خوش کرنے کے لیے وہ غریبوں کو ستاتا اور لوٹتا تھا۔