Hikayat e Saadi (RA) , Buzdil Ghulam

I

intelligent086

Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔ بزدل غلام
saadiii-jpg.jpg

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا اس لیے وہ بہت خوفزدہ تھا اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزر رہا تھا لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ کا بالکل اثر نہ ہوتا تھا۔
کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے فوراً اجازت دے دی اور دانشمند شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اس شخص کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔
غلاموں نے حکم کی تعمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا کے اندر پھینک دیا۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکلا کر کشتی میں سوار کر لو چنانچہ غلاموں نے اس کے سر کے بال پکڑ کر کشتی میں گھسیٹ لیا۔ وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بڑی طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پُرسکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔
بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش ہو گیا ہے؟
دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی اور خاموش ہو گیا۔
جس نے دیکھی نہ ہو کوئی تکلیف قدر آرام کی وہ کیا جانے
نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ جَو کی روٹی کو کب غذا مانے
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسان کی یہ نفسیاتی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس کی قدر و قیمت سے آگاہ نہیں ہوتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایسا شخص جسارت اور قوت برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ پُرمسرت اور کامیاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جو رنج و راحت دونوں سے بخوبی آگاہ ہو۔
 
Top