I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔۔ حساب برابر
کہتے ہیں ایک ظالم اور بے رحم سپاہی نے ایک درویش کے سر پر پتھر مارا۔ درویش نے اس کی طرف دیکھا اور اسے صاحب اختیار اور طاقت ور پایا تو خاموش ہو رہا۔ لیکن وہ پتھر سنبھال لیا جو سپاہی نے اس کے سر پر مارا تھا۔بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ عرصے بعد اس ظالم سپاہی پر خدا کا قہر نازل ہوا۔بادشاہ کسی بات پر اس سے ناراض ہو گیا اور اس نے اسے ایک کنویں میں قید کر دیا۔ اتفاق سے ایک دن وہی درویش اس کنویں کے قریب سے گزرا جس میں سپاہی کو قید کیا گیا تھا۔ درویش نے اپنے دشمن کو اس حالت میں دیکھا تو وہی پتھر اپنی جھولی سے نکالا اور سپاہی کے سر پردے مارا۔ سپاہی دردسے بلبلا اٹھا اور اوپر منہ اٹھا کر درویش سے کہا۔ بندہ خدا تو نے ناحق مجھے کیوں مارا؟ درویش نے جواب دیا، میں نے تجھے ناحق ہر گز نہیں مارا۔ مجھے پہچان میں وہی ہوں جس کے سر پر تو نے بے وجہ پتھر مارا تھا۔ اور یہ پتھر بھی وہی ہے جو میرے سر پر لگا تھا۔ اس وقت تو صاحب اختیار تھا اور میں مجبور تھا۔ اب خدا نے تجھے اس حالت کو پہنچایا تو مجھے بدلہ اتارنے کا موقع ملا۔حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں حساب برابر کرنے کی اہمیت ظاہر کی ہے۔ اگرچہ درگزر اور معاف کر دینے کی برکتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ازروئے اخلاق بھی یہ بات ضروری ہے کہ برا کام کرنے والے کو انجام تک پہنچایا جائے کیونکہ ا نصاف کرنے سے ظالم کی حوصلہ شکنی اور دیکھنے والوں کو عبرت حاصل ہوتی ہے۔ ہاں، اس سلسلے میں یہ بات ضروری ہے کہ طاقت حاصل کیے بغیر دشمن کو نہیں للکارنا چاہیے۔