I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔ سکون اور خوشی
ایک بادشاہ کی جب عمر ختم ہونے پر آئی تو اس وقت اس کا کوئی قائم مقام یا جانشین موجود نہیں تھا۔ اس لیے اس بادشاہ نے وصیت کی کہ صبح کو شہر میں جو شخص پہلے داخل ہو اسی کے سر پر شاہی تاج رکھ کر اسے بادشاہ بنا لینا۔ اتفاقاً اس صبح سب سے پہلے ایک فقیر گداگر شہر میں وارد ہوا۔ اس نے تو عمر بھر ایک لقمہ بھی جمع نہیں کیا تھا اور وہ اپنے لباس میں پیوند پر پیوند لگاتا جاتا تھا۔ بہرصورت امرا اور حکومت کے اہلکاروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق عمل کیا اور خزانوں کی کنجیاں فقیر کے سپرد کر دیں۔ اس فقیر نے کچھ عرصہ بادشاہت کی لیکن امرا نے اس فقیر بادشاہ کی اطاعت سے منہ پھیر لیا تھا۔ یہی نہیں ہر طرف کئی سلاطین اور حکمران لڑنے جھگڑنے لگے تھے۔ اس کے علاوہ فوج اور رعیت بغاوت پر اتر آئے تھے اور چند شہروں کے کچھ حصے بادشاہ کے قبضے سے نکل گئے تھے۔ اس ساری صورت حال میں وہ فقیر بادشاہ بڑا متفکر تھا اور حالت تشویش میں بھی تھا کہ اس کا ایک پرانا دوست اس سے آ کر ملا۔ وہ کبھی فقیری کے دور میں اس کے ساتھ تھا۔ اس نے اب جو اپنے دوست کا یہ مرتبہ دیکھا تو کہا کہ خدائے عزوجل نے تجھے یہ درجہ عطا کیا ہے اور تیرا نصیب بلند کیا ہے کہ تیرا پھول کانٹے سے نکل چکا ہے اور تیرا کانٹا تیرے پاؤں سے نکل چکا ہے۔ اس پر اس فقیر بادشاہ نے دوست سے کہا اے عزیز! یہ مبارک باد دینے کا وقت اور موقع نہیں بلکہ میرے ساتھ مقام تعزیت ہے کہ جب تو نے مجھے پہلے دیکھا تھا اس وقت مجھے صرف روٹی کی فکر تھی، آج پورے جہان کی فکر ہے۔ اس حکایت کا مقصود یہ ہے کہ مال و دولت حقیقی سکون اور خوشی کا موجب نہیں ہو سکتے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ اگر اختیار، جاگیر یا سرمایہ قبضے میں آ جائے تو زندگی آسان ہو جائے گی۔ لیکن ان چیزوں کے ساتھ بہت سی مشکلات بھی سر پر آن پڑتی ہیں۔ بظاہر بادشاہوں کا کہا حرف آخر ہوتا ہے لیکن تاریخ سے سبق ملتا ہے کہ حاکموں کی بہت بڑی تعداد کو بغاوتوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ یہی نہیں ان کے اپنے خاندان سے تعلق رکھنے والوں یا قابل بھروسہ افراد نے انہیں قتل کیا۔ کیونکہ اختیارات اور دولت کے حصول کے لیے ہونے والی مسابقت نے انسانی قدروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔