I
intelligent086
Guest
علم ۔۔۔۔۔
مرشد نے کہا ، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نے اس بندے سے صرف ایک چیز مانگنی ہے اور وہ ہے ،علم‘‘
لاڈلے مرید نے فرمائش کی :’’ حضور ! مجھے فیض چاہیے ۔‘‘مرشد نے کہا: ’’مجھے نہیں معلوم کہ فیض کیا ہوتا ہے لیکن ہاں!مجاہدہ اور ریاضت ایک ایسی چیز ہے جو انسان کوکمال پر پہنچادیتی ہے۔تم جنگل میں چلے جائواور اللہ کے نام کا وِرد شروع کردو ۔ساتھ میں کھانے کا سامان لے جانا ،وہاں تمہیں کئی طرح کے چیلنجز اور لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔پہلا چیلنج موسم کا ہے،بیابان میں تمہیں ٹھنڈ بھی زیادہ لگے گی اور گرمی بھی ۔دوسری لڑائی خوف کے ساتھ ہے ۔ سانپ ، بچھو اور درندے کے خوف سے تمہیں نیند بھی نہیں آئے گی۔تیسری لڑائی تنہائی کی ہے ۔ وہاں تم اکیلے ہوگے تو تنہائی کی اذیت بھی جھیلنی پڑے گی اور اس کے ساتھ چوتھی لڑائی جو تمہیں لڑنی ہے وہ پیٹ کی ہے۔تمہیں بھوک لگے گی اور بھوک ایسی چیز ہے جو انسان کو اس قدربے بس کردیتی ہے کہ پھر وہ مجرم بننے کوبھی تیار ہوجاتا ہے ۔‘‘ مرشد کی نصیحت سن کر مرید جنگل چلا گیا اوراپنا مجاہدہ شروع کردیا۔وقت کے ساتھ ساتھ مرشد کی باتیں حقیقت کا رُوپ دھارنے لگیں۔سب سے پہلے موسم حملہ آور ہوا ۔پھر خوف نے اُسے اپنے چنگل میں لیا ، اس کا چین و سکون اڑگیا ۔تنہائی نے بھی ڈسنا شرو ع کردیااور یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی اذیت ناک قید’’قید تنہائی‘‘ ہے ۔ کال کوٹھڑی میں انسان کی اپنی تنہائی اُس کو پاگل بنادیتی ہے۔جب تینوں چیزوں نے اس کو بے بس کردیا تو اس کے ساتھ چوتھی چیز بھی آگئی ۔اس کے پاس کھانا ختم ہوگیا اور وہ بھوک کی شدت سے تڑپنے لگا۔مرشد نے بتایا تھا کہ جب مقررہ دِنوں تک وظیفہ مکمل کرنے کے بعدتم جنگل سے نکلو گے توایک پگڈنڈی گائوں کی طرف جارہی ہوگی ،وہاں پر تمہیں فرشتے کی شکل میں اللہ کاایک نیک بندہ ملے گاجو تم سے تمہاری خواہش پوچھے گا۔اُس وقت تم اِ ن چاروں مسائل سے دوچار ہوگے اور عین ممکن ہے کہ انہی کے بارے میں اپنی خواہش کا اظہار کردولیکن میں تمہیں یہ وصیت اور نصیحت کرتا ہوں کہ تم نے اس وقت صرف ایک چیز مانگنی ہے اور وہ ہے:علم
ریاضت مکمل کرلینے کے بعد مرید جنگل سے نکلا۔بھوک نے اس کے جسم کو نڈھال کردیا تھا ۔اس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہورہا تھا ۔قیدِتنہائی کی وجہ سے وہ اپنوں کے چہرے بھی بھول گیا ۔سامنے پگڈنڈی پر اس کو ایک شخص ملا اور پوچھا :’’حکم فرمائیے !میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں ؟‘‘ اس وقت اس کو کھانے ،لباس اور پرسکون جگہ کی ضرورت تھی لیکن پھر مرشد کی نصیحت یاد آگئی اور اس نے کہا :’’مجھے علم چاہیے۔‘‘
ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ وہ قریبی قصبے میں پہنچا۔ایک دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ساتھ ہی اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ وہیں گرگیا۔گھر والے نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک مفلوک الحال شخص کو دیکھا ۔میزبان نے اُسے اٹھایا ، منہ پر چھینٹے مارے تومرید کو ہوش آئی اور وہ بولا:’’ مجھے شدید بھوک اور سردی لگی ہے۔‘‘میزبان نے انگیٹھی کے پاس اس کے لیے نرم بستر بچھایا اور اس کے لیے کھانے کا بندو بست کرنے لگا۔اجنبی مہمان کی آمد کا سن کر کچھ ہی دیر میں گائوں کے لوگ جمع ہوگئے ۔ یوں کچھ ہی دیر میں اُس کو خوراک ، گرم بستر ،سکون اور لوگ مل گئے۔کچھ دیر بعد میزبان نے اسے آرام کرنے کا کہاوہ جیسے ہی سونے کے لیے لیٹاتواس نے کچھ آوازیں سنیں جیسے کوئی تڑپ کررورہا ہو ۔اس نے میزبان سے پوچھا :یہ آوازیں کیسی ہیں؟ میزبان نے بتایا :’’یہ ہمارے سردار ہیں ۔ ان کا بیٹا ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہے اور مرنے کے قریب ہے۔یہاں کا رواج یہ ہے کہ شدید بیمارکے لیے گھر گھر دُعا کی اپیل کی جاتی ہے ۔‘‘مرید نے یہ بات سنی ، فوراً ہی اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوااور ایک پودے کی تصویر سامنے آگئی۔اس نے میزبان سے کہا:’’ فلاں پودا جو کہ گائوں کے باہر موجود ہے ،لے آئو اور اس کا عر ق مریض کے منہ میں نچوڑ دو۔‘‘ لوگ دوڑے اور پودا لا کر اس کا عرق مریض کے منہ میں ٹپکایا تو وہ صحت یاب ہوگیا۔
کچھ دِنوں بعد اس گائوں پر دشمن نے حملہ کیا۔مرید دُور کھڑاتماشا دیکھتا رہا اورپھر سردار کے پاس جاکر ایک مخصوص چال چلنے کو کہا۔سردارنے اس کے کہنے پر وہ چال چلی اور ایک ہی لمحے میں جنگ کی کایا پلٹ گئی ۔گائوں والے جنگ جیت گئے ۔جنگ کے بعد گائوں کا جرگہ اکھٹاہوا او ر سردار نے یہ کہہ کر اپنی پگڑی مرید کو پہنادی کہ’’ یہ مجھ سے زیادہ علم والا ہے، کیونکہ اس کو چال کا بھی پتا ہے اور علاج کا بھی لہٰذا سرداری کا اہل بھی یہی ہے ۔ــ‘‘مرید مسکرانے لگا ۔درحقیقت اُسے کسی چیز کا پتا نہیں تھا، اس کے پاس صرف علم تھااور علم نے اسے سردار بنادیا۔
مرشد نے کہا ، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نے اس بندے سے صرف ایک چیز مانگنی ہے اور وہ ہے ،علم‘‘
لاڈلے مرید نے فرمائش کی :’’ حضور ! مجھے فیض چاہیے ۔‘‘مرشد نے کہا: ’’مجھے نہیں معلوم کہ فیض کیا ہوتا ہے لیکن ہاں!مجاہدہ اور ریاضت ایک ایسی چیز ہے جو انسان کوکمال پر پہنچادیتی ہے۔تم جنگل میں چلے جائواور اللہ کے نام کا وِرد شروع کردو ۔ساتھ میں کھانے کا سامان لے جانا ،وہاں تمہیں کئی طرح کے چیلنجز اور لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔پہلا چیلنج موسم کا ہے،بیابان میں تمہیں ٹھنڈ بھی زیادہ لگے گی اور گرمی بھی ۔دوسری لڑائی خوف کے ساتھ ہے ۔ سانپ ، بچھو اور درندے کے خوف سے تمہیں نیند بھی نہیں آئے گی۔تیسری لڑائی تنہائی کی ہے ۔ وہاں تم اکیلے ہوگے تو تنہائی کی اذیت بھی جھیلنی پڑے گی اور اس کے ساتھ چوتھی لڑائی جو تمہیں لڑنی ہے وہ پیٹ کی ہے۔تمہیں بھوک لگے گی اور بھوک ایسی چیز ہے جو انسان کو اس قدربے بس کردیتی ہے کہ پھر وہ مجرم بننے کوبھی تیار ہوجاتا ہے ۔‘‘ مرشد کی نصیحت سن کر مرید جنگل چلا گیا اوراپنا مجاہدہ شروع کردیا۔وقت کے ساتھ ساتھ مرشد کی باتیں حقیقت کا رُوپ دھارنے لگیں۔سب سے پہلے موسم حملہ آور ہوا ۔پھر خوف نے اُسے اپنے چنگل میں لیا ، اس کا چین و سکون اڑگیا ۔تنہائی نے بھی ڈسنا شرو ع کردیااور یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی اذیت ناک قید’’قید تنہائی‘‘ ہے ۔ کال کوٹھڑی میں انسان کی اپنی تنہائی اُس کو پاگل بنادیتی ہے۔جب تینوں چیزوں نے اس کو بے بس کردیا تو اس کے ساتھ چوتھی چیز بھی آگئی ۔اس کے پاس کھانا ختم ہوگیا اور وہ بھوک کی شدت سے تڑپنے لگا۔مرشد نے بتایا تھا کہ جب مقررہ دِنوں تک وظیفہ مکمل کرنے کے بعدتم جنگل سے نکلو گے توایک پگڈنڈی گائوں کی طرف جارہی ہوگی ،وہاں پر تمہیں فرشتے کی شکل میں اللہ کاایک نیک بندہ ملے گاجو تم سے تمہاری خواہش پوچھے گا۔اُس وقت تم اِ ن چاروں مسائل سے دوچار ہوگے اور عین ممکن ہے کہ انہی کے بارے میں اپنی خواہش کا اظہار کردولیکن میں تمہیں یہ وصیت اور نصیحت کرتا ہوں کہ تم نے اس وقت صرف ایک چیز مانگنی ہے اور وہ ہے:علم
ریاضت مکمل کرلینے کے بعد مرید جنگل سے نکلا۔بھوک نے اس کے جسم کو نڈھال کردیا تھا ۔اس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہورہا تھا ۔قیدِتنہائی کی وجہ سے وہ اپنوں کے چہرے بھی بھول گیا ۔سامنے پگڈنڈی پر اس کو ایک شخص ملا اور پوچھا :’’حکم فرمائیے !میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں ؟‘‘ اس وقت اس کو کھانے ،لباس اور پرسکون جگہ کی ضرورت تھی لیکن پھر مرشد کی نصیحت یاد آگئی اور اس نے کہا :’’مجھے علم چاہیے۔‘‘
ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ وہ قریبی قصبے میں پہنچا۔ایک دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ساتھ ہی اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ وہیں گرگیا۔گھر والے نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک مفلوک الحال شخص کو دیکھا ۔میزبان نے اُسے اٹھایا ، منہ پر چھینٹے مارے تومرید کو ہوش آئی اور وہ بولا:’’ مجھے شدید بھوک اور سردی لگی ہے۔‘‘میزبان نے انگیٹھی کے پاس اس کے لیے نرم بستر بچھایا اور اس کے لیے کھانے کا بندو بست کرنے لگا۔اجنبی مہمان کی آمد کا سن کر کچھ ہی دیر میں گائوں کے لوگ جمع ہوگئے ۔ یوں کچھ ہی دیر میں اُس کو خوراک ، گرم بستر ،سکون اور لوگ مل گئے۔کچھ دیر بعد میزبان نے اسے آرام کرنے کا کہاوہ جیسے ہی سونے کے لیے لیٹاتواس نے کچھ آوازیں سنیں جیسے کوئی تڑپ کررورہا ہو ۔اس نے میزبان سے پوچھا :یہ آوازیں کیسی ہیں؟ میزبان نے بتایا :’’یہ ہمارے سردار ہیں ۔ ان کا بیٹا ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہے اور مرنے کے قریب ہے۔یہاں کا رواج یہ ہے کہ شدید بیمارکے لیے گھر گھر دُعا کی اپیل کی جاتی ہے ۔‘‘مرید نے یہ بات سنی ، فوراً ہی اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوااور ایک پودے کی تصویر سامنے آگئی۔اس نے میزبان سے کہا:’’ فلاں پودا جو کہ گائوں کے باہر موجود ہے ،لے آئو اور اس کا عر ق مریض کے منہ میں نچوڑ دو۔‘‘ لوگ دوڑے اور پودا لا کر اس کا عرق مریض کے منہ میں ٹپکایا تو وہ صحت یاب ہوگیا۔
کچھ دِنوں بعد اس گائوں پر دشمن نے حملہ کیا۔مرید دُور کھڑاتماشا دیکھتا رہا اورپھر سردار کے پاس جاکر ایک مخصوص چال چلنے کو کہا۔سردارنے اس کے کہنے پر وہ چال چلی اور ایک ہی لمحے میں جنگ کی کایا پلٹ گئی ۔گائوں والے جنگ جیت گئے ۔جنگ کے بعد گائوں کا جرگہ اکھٹاہوا او ر سردار نے یہ کہہ کر اپنی پگڑی مرید کو پہنادی کہ’’ یہ مجھ سے زیادہ علم والا ہے، کیونکہ اس کو چال کا بھی پتا ہے اور علاج کا بھی لہٰذا سرداری کا اہل بھی یہی ہے ۔ــ‘‘مرید مسکرانے لگا ۔درحقیقت اُسے کسی چیز کا پتا نہیں تھا، اس کے پاس صرف علم تھااور علم نے اسے سردار بنادیا۔