I
intelligent086
Guest
جادو کی گھنٹی ۔۔۔۔ نعمان خان
امیر نامی لڑکا اپنی ماں اور بہن کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔اس کا معمول تھا کہ وہ صبح سویرے بھیڑ ، بکریاں چرانے کے لیے جنگل کی جانب نکلتا اور شام کو گھر لوٹ آتا۔یہ لوگ روکھی،سوکھی کھا کر اپنا گزارا کر رہے تھے لیکن اس میں بھی مطمئن تھے۔
امیر کی بہن چھوٹی تھی گھر میں جو بھی پکتا وہ چپ چاپ کھا لیتی لیکن جب کبھی گھر سے باہر نکلتی تو اس کا دل مزے کے پکوان کھانے کو مچلنے لگتا۔وہ چھوٹی ہونے کے باوجود جانتی تھی کہ اس کی ماں اور بھائی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اس کی خواہشات پوری کر سکیں،اسلئے خاموش ہو رہتی۔
امیر کو جنگل میں ایک گھنا درخت بے حد پسند تھا۔وہ بکریوں کو چرانے لے جاتا تو انہیں آزاد چھوڑ کر خود اسی درخت کے سائے میں آرام کرتا۔اسے گھنے درخت کی چھائوں ماں کی گود جیسی پُر سکون معلوم ہوتی تھی۔وقت کیساتھ،ساتھ اسے درخت سے بے حد لگائو ہو گیا تھا۔معمول کے مطابق ایک روز امیر جنگل میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لکڑ ہارا تیز آری سے درخت کی شاخیں کاٹ رہا ہے۔یہ دیکھ کر امیر کو بے حد تکلیف ہوئی ۔وہ سوچنے لگا کہ درخت اس کی ملکیت نہیں ہے ایسے میں لکڑ ہارے کو درخت کاٹنے سے کیسے روکا جائے،پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اور وہ تیزی سے لکڑہارے کی جانب بڑھا۔قریب پہنچ کر اسے سلام کیا اور چہرے پر فکر مندی کے آثار سجائے کہنے لگا’’جناب!آپ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں‘‘۔لکڑہارا نہ سمجھنے والے انداز میں امیر کو دیکھنے لگا تو وہ بولا ’’میں برسوں سے اس جنگل میں آ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں کے سامنے میں نے کئی لوگوں کو یہ درخت کاٹنے کی کوشش کرتے دیکھا ہے،لیکن اس پر کسی خوفناک چڑیل کا بسیر ا ہے جو درخت کو کاٹنے کی کوشش کرنے والوں کو شدید نقصان پہنچاتی ہے‘‘۔امیر کی بات سن کر لکڑہارا خوفزدہ ہو گیا اور اپنا سامان سمیٹ کر وہاں سے چل دیا۔اس کے بعد امیر نے دل ہی دل میں اپنے جھوٹ پر ر ب سے معافی مانگی لیکن اس کا مقصد صرف درخت کو بچانا تھا۔
اس کے بعد وہ آرام سے درخت کے سائے میں بیٹھا تو اچانک درخت سے تیز روشنی نمودار ہوئی۔امیر پہلے ڈر گیا،پھر حیران ہو کر دیکھنے لگا تو درخت سے ایک سنہری گھنٹی نیچے آ کر گری اورآواز آئی’’دوست!میری جان بچانے کا شکریہ۔بدلے میں تمہارے لیے انعام ہے جو دن میں ایک بار تمہارے کام آیا کرے گا‘‘۔امیر نے گھنٹی اٹھائی اور شام کو خوشی خوشی واپس لوٹا۔گھر جا کر اس نے ساری بات ماں اور بہن کو بتائی۔رات کو وہ اکٹھے بیٹھے تو امیر نے گھنٹی کو ہلکا سا بجایا ،یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا کمال ہوتا ہے۔جونہی گھنٹی بجی ان کے سامنے سات قسم کے پکوان ظاہر ہو گئے۔یہ دیکھ کر امیر کی بہن بے حد خوش ہوئی ان سب نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔امیر سمجھ گیا تھا کہ گھنٹی بجا کر وہ دن میںایک بار لذیذ کھانا حاصل کر سکتا ہے۔
اس کے لیے انہوں نے رات کا وقت منتخب کیا جس وقت سب مل کر کھانا کھا سکیں۔ایک روز امیر کو گھر لوٹنے میں دیر ہو گئی تو اس کی بہن اور امی نے جلدی کھانا کھا لیا اور بچا ہوا امیر کے لیے رکھ دیا۔ امیر کو یہ دیکھ کر غصہ آیا۔وہ تھکا ہوا تھا اور تازہ کھاناچاہتا تھا اگلے روز غصے میں وہ گھنٹی اپنے ساتھ لے گیا اور جان بوجھ کر دیر سے گھر لوٹ کے آیا۔واپس آنے پر کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بہن اور امی بھوک سے نڈھال ہیں اور اسی کی راہ تک رہی ہیں۔انہوں نے امیر کو کھانا منگوانے کے لیے کہا تو وہ خفا نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولا کہ کل وہ بھی انہی کی طرح بھوکا تھا اور کھانے کا انتظار کر رہا تھا۔جس پر دونوں ماں،بیٹی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ جو انعام انہیں ملا ہے اس کا فائدہ سب اکٹھے اٹھائیں گے اور ایک دوسرے کا پورا خیال رکھیں گے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ زندگی کا لُطف مل ،بانٹ کر کھانے اور ساتھ رہنے میں ہی ہے۔
امیر نامی لڑکا اپنی ماں اور بہن کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔اس کا معمول تھا کہ وہ صبح سویرے بھیڑ ، بکریاں چرانے کے لیے جنگل کی جانب نکلتا اور شام کو گھر لوٹ آتا۔یہ لوگ روکھی،سوکھی کھا کر اپنا گزارا کر رہے تھے لیکن اس میں بھی مطمئن تھے۔
امیر کی بہن چھوٹی تھی گھر میں جو بھی پکتا وہ چپ چاپ کھا لیتی لیکن جب کبھی گھر سے باہر نکلتی تو اس کا دل مزے کے پکوان کھانے کو مچلنے لگتا۔وہ چھوٹی ہونے کے باوجود جانتی تھی کہ اس کی ماں اور بھائی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اس کی خواہشات پوری کر سکیں،اسلئے خاموش ہو رہتی۔
امیر کو جنگل میں ایک گھنا درخت بے حد پسند تھا۔وہ بکریوں کو چرانے لے جاتا تو انہیں آزاد چھوڑ کر خود اسی درخت کے سائے میں آرام کرتا۔اسے گھنے درخت کی چھائوں ماں کی گود جیسی پُر سکون معلوم ہوتی تھی۔وقت کیساتھ،ساتھ اسے درخت سے بے حد لگائو ہو گیا تھا۔معمول کے مطابق ایک روز امیر جنگل میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لکڑ ہارا تیز آری سے درخت کی شاخیں کاٹ رہا ہے۔یہ دیکھ کر امیر کو بے حد تکلیف ہوئی ۔وہ سوچنے لگا کہ درخت اس کی ملکیت نہیں ہے ایسے میں لکڑ ہارے کو درخت کاٹنے سے کیسے روکا جائے،پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اور وہ تیزی سے لکڑہارے کی جانب بڑھا۔قریب پہنچ کر اسے سلام کیا اور چہرے پر فکر مندی کے آثار سجائے کہنے لگا’’جناب!آپ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں‘‘۔لکڑہارا نہ سمجھنے والے انداز میں امیر کو دیکھنے لگا تو وہ بولا ’’میں برسوں سے اس جنگل میں آ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں کے سامنے میں نے کئی لوگوں کو یہ درخت کاٹنے کی کوشش کرتے دیکھا ہے،لیکن اس پر کسی خوفناک چڑیل کا بسیر ا ہے جو درخت کو کاٹنے کی کوشش کرنے والوں کو شدید نقصان پہنچاتی ہے‘‘۔امیر کی بات سن کر لکڑہارا خوفزدہ ہو گیا اور اپنا سامان سمیٹ کر وہاں سے چل دیا۔اس کے بعد امیر نے دل ہی دل میں اپنے جھوٹ پر ر ب سے معافی مانگی لیکن اس کا مقصد صرف درخت کو بچانا تھا۔
اس کے بعد وہ آرام سے درخت کے سائے میں بیٹھا تو اچانک درخت سے تیز روشنی نمودار ہوئی۔امیر پہلے ڈر گیا،پھر حیران ہو کر دیکھنے لگا تو درخت سے ایک سنہری گھنٹی نیچے آ کر گری اورآواز آئی’’دوست!میری جان بچانے کا شکریہ۔بدلے میں تمہارے لیے انعام ہے جو دن میں ایک بار تمہارے کام آیا کرے گا‘‘۔امیر نے گھنٹی اٹھائی اور شام کو خوشی خوشی واپس لوٹا۔گھر جا کر اس نے ساری بات ماں اور بہن کو بتائی۔رات کو وہ اکٹھے بیٹھے تو امیر نے گھنٹی کو ہلکا سا بجایا ،یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا کمال ہوتا ہے۔جونہی گھنٹی بجی ان کے سامنے سات قسم کے پکوان ظاہر ہو گئے۔یہ دیکھ کر امیر کی بہن بے حد خوش ہوئی ان سب نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔امیر سمجھ گیا تھا کہ گھنٹی بجا کر وہ دن میںایک بار لذیذ کھانا حاصل کر سکتا ہے۔
اس کے لیے انہوں نے رات کا وقت منتخب کیا جس وقت سب مل کر کھانا کھا سکیں۔ایک روز امیر کو گھر لوٹنے میں دیر ہو گئی تو اس کی بہن اور امی نے جلدی کھانا کھا لیا اور بچا ہوا امیر کے لیے رکھ دیا۔ امیر کو یہ دیکھ کر غصہ آیا۔وہ تھکا ہوا تھا اور تازہ کھاناچاہتا تھا اگلے روز غصے میں وہ گھنٹی اپنے ساتھ لے گیا اور جان بوجھ کر دیر سے گھر لوٹ کے آیا۔واپس آنے پر کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بہن اور امی بھوک سے نڈھال ہیں اور اسی کی راہ تک رہی ہیں۔انہوں نے امیر کو کھانا منگوانے کے لیے کہا تو وہ خفا نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولا کہ کل وہ بھی انہی کی طرح بھوکا تھا اور کھانے کا انتظار کر رہا تھا۔جس پر دونوں ماں،بیٹی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ جو انعام انہیں ملا ہے اس کا فائدہ سب اکٹھے اٹھائیں گے اور ایک دوسرے کا پورا خیال رکھیں گے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ زندگی کا لُطف مل ،بانٹ کر کھانے اور ساتھ رہنے میں ہی ہے۔
Jadu Ki Ghanti By Nauman Khan