I
intelligent086
Guest
جادوئی تصویریں ۔۔۔۔۔ ثوبیہ اسلم
پیارے بچو!پُرانے وقتوں کی بات ہے کسی چھوٹے سے گائوں میں کمال نامی لڑکا رہتا تھا۔اس کا صرف نام ہی کمال نہیں تھا بلکہ اس کے ہاتھوں میں کمال کا ہنر بھی تھا۔
یہ انسانوں اور مختلف نظاروں کو ایک نظر دیکھ کر ہی ایسی عمدہ تصویریں بناتا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔یہی کمال کی کمائی کا ذریعہ بھی تھا۔لوگ اس کے پاس اپنی من پسند تصویریں بنوانے آتے۔جنہیں پنسل سے تیار کرنے کے بعد کمال جب ان میں رنگ بھرتا تو یوں گمان ہونے لگتا جیسے تصویر ابھی بولنے لگے گی۔کمال کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔وہ اپنے گھر میں اکیلا ہی رہتا تھا۔یوں تو آس پڑوس والوں سے اس کی کافی دوستی تھی،لیکن جب کبھی وہ زیادہ تنہائی محسوس کرنے لگتا تو جنگل کی جانب چلا جاتا۔یہاں موجود ایک درخت اسے بے حد پسند تھا۔وہ کئی بار نہ صرف اس درخت کی تصویر بنا چکا تھا،بلکہ تنہا ئی میں بیٹھ کر اس سے اپنے دل کی باتیں بھی کیا کرتا ۔کمال کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ درخت جواب نہیں دے پاتا لیکن اس کی ہر بات سنتا ضرورہے،دراصل وہ اس بات سے ناواقف تھا کہ اس درخت پر صدیوں سے ایک پری موجود ہے جسے نہ صرف کمال کی بنائی ہر تصویر بے حد پسند ہے بلکہ وہ اسے بطور انسان بھی پسند کرتی ہے۔
ایک روز کمال درخت کے نیچے قدرے پریشان بیٹھا تھا اور بول رہا تھا’’دوست لگتا ہے اب اس جگہ پر میرا رزق ختم ہو چکا ہے۔گائوں کے تقریباً سبھی لوگ مجھ سے اپنی تصویریں بنوا چکے ہیں اور زیادہ کام نہ ہونے کے سبب دوسرے شہروں کے لوگوں کا بھی یہاں سے کم ہی گزر ہوتا ہے۔ایسے میں اب مجھے زیادہ کا م نہیں ملتا جس کے ذریعے میں کمائی کر کے اپنے اخراجات پورے کر سکوں۔مجھے اس جگہ سے لگائو ہے اس لیے میں یہاں سے جانا تو نہیں چاہتا ،لیکن اگر زیادہ عرصہ کام نہ ملا تو شاید مجھے جانا پڑ جائے‘‘۔
کمال کی باتیں درخت پر موجود پری سن رہی تھی۔وہ سوچنے لگی کہ اسے ضرور اس نیک دل انسان کی مدد کرنی چاہیے تا کہ اسے دوسرے شہر نہ جانا پڑے۔اگلے دن پری نے کمال کے آنے سے پہلے ایک خوبصورت چمکتی ہوئی سنہری پنسل درخت کے نیچے رکھ دی۔کمال جب وقت گزارنے درخت کے پاس پہنچا تو چمکدار پنسل دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بھی چمک اتر آئی۔اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر پنسل اٹھائی اور سوچا کہ اس سے کوئی نئی تصویر بنائے،لیکن تبھی اسے خیال آیا کہ خدا جانے یہ کسی کی امانت ہو ،اور وہ یہاں بھول گیا ہو۔اسے پنسل واپس اپنی جگہ پر رکھ دینی چاہیے تا کہ اس کا مالک یاد آنے پر جب کبھی واپس آئے،اسے پنسل اپنی جگہ پڑی ملے۔یہ سوچ کر کمال نے پنسل واپس درخت کے نیچے رکھ دی،لیکن جتنی دیر وہاں بیٹھا رہا اسی پر نظریں ٹکی رہیں۔اس دوران پری کمال کو دیکھ کر مسکراتی رہی۔وہ آج اس کی ایمانداری کی بھی مداح ہو گئی تھی۔
شام کو کمال گھر لوٹ گیا اور اگلے روز واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ پنسل آج بھی اسی جگہ موجود ہے۔یہ دیکھ کر کمال حیران ہوا کہ بھلا اتنی خوبصورت پنسل کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔بہر حال اس نے کچھ سوچا اور پنسل اٹھا کر اس سے درخت پر اُگتے تازہ رسیلے آم کی تصویر بنانے لگا۔جونہی تصویر مکمل ہوئی کمال کیا دیکھتا ہے کہ کاغذ پر تصویر کی جگہ اصلی آم موجود ہے۔یہ دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔وہ حیرت زدہ تھا کہ تصویر ،اصلی پھل میں کیسے بدل گئی۔اس نے خود کو یقین دلانے کے لیے اب کی با ر سیب بنایا اور چند لمحوں بعد وہ بھی اصل سیب کی شکل اختیار کر گیا۔کمال حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی تھا۔وہ سمجھ چکا تھا کہ ضرور یہ پنسل جادوئی ہے جس سے جو بھی بنایا جائے،وہ تصویر سے اصلی شکل میں بدل جاتا ہے۔کمال بے حد خوش تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اب اسے کمائی کے لیے دوسرے شہر جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ یہیں رہ کر اپنا کام جا ری رکھ سکتا ہے اور اپنی ضروریات جادوئی پنسل کے ذریعے پوری کر سکتا ہے۔
ایک روز شام ڈھلے کمال کے پاس اس کا قریبی دوست آیا ،او ر اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے بولا کہ اس کے پاس ٹریکٹر خریدنے کے لیے پیسے موجود نہیں ہیں اور جلد ہی اگر اس نے زمین پر کام نہ کیا تو اس کی ساری فصل تباہ ہو جائے گی۔دوست کی بات سن کر کمال نے اسے اگلے روز آنے کا کہا اور شام میں جادوئی پنسل سے ٹریکٹر کی تصویر تیار کر لی۔اگلے روز کمال نے جب دوست کو ٹریکٹر دیا اور ساتھ جادوئی پنسل کی کہانی سنائی تو وہ بے حد حیران ہوا۔آہستہ آہستہ یہ خبر پورے گائوں میں پھیل گئی اور یوں جادوئی پنسل کمال کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے لوگوں کی ضرورت بھی پوری کرنے لگی۔
پیارے بچو!ہنر ہو یا پیسہ ،اسی صورت پاک ہوتا ہے جب یہ نہ صرف آ پ کے بلکہ دوسروں کے بھی کام آئے۔
پیارے بچو!پُرانے وقتوں کی بات ہے کسی چھوٹے سے گائوں میں کمال نامی لڑکا رہتا تھا۔اس کا صرف نام ہی کمال نہیں تھا بلکہ اس کے ہاتھوں میں کمال کا ہنر بھی تھا۔
یہ انسانوں اور مختلف نظاروں کو ایک نظر دیکھ کر ہی ایسی عمدہ تصویریں بناتا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔یہی کمال کی کمائی کا ذریعہ بھی تھا۔لوگ اس کے پاس اپنی من پسند تصویریں بنوانے آتے۔جنہیں پنسل سے تیار کرنے کے بعد کمال جب ان میں رنگ بھرتا تو یوں گمان ہونے لگتا جیسے تصویر ابھی بولنے لگے گی۔کمال کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔وہ اپنے گھر میں اکیلا ہی رہتا تھا۔یوں تو آس پڑوس والوں سے اس کی کافی دوستی تھی،لیکن جب کبھی وہ زیادہ تنہائی محسوس کرنے لگتا تو جنگل کی جانب چلا جاتا۔یہاں موجود ایک درخت اسے بے حد پسند تھا۔وہ کئی بار نہ صرف اس درخت کی تصویر بنا چکا تھا،بلکہ تنہا ئی میں بیٹھ کر اس سے اپنے دل کی باتیں بھی کیا کرتا ۔کمال کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ درخت جواب نہیں دے پاتا لیکن اس کی ہر بات سنتا ضرورہے،دراصل وہ اس بات سے ناواقف تھا کہ اس درخت پر صدیوں سے ایک پری موجود ہے جسے نہ صرف کمال کی بنائی ہر تصویر بے حد پسند ہے بلکہ وہ اسے بطور انسان بھی پسند کرتی ہے۔
ایک روز کمال درخت کے نیچے قدرے پریشان بیٹھا تھا اور بول رہا تھا’’دوست لگتا ہے اب اس جگہ پر میرا رزق ختم ہو چکا ہے۔گائوں کے تقریباً سبھی لوگ مجھ سے اپنی تصویریں بنوا چکے ہیں اور زیادہ کام نہ ہونے کے سبب دوسرے شہروں کے لوگوں کا بھی یہاں سے کم ہی گزر ہوتا ہے۔ایسے میں اب مجھے زیادہ کا م نہیں ملتا جس کے ذریعے میں کمائی کر کے اپنے اخراجات پورے کر سکوں۔مجھے اس جگہ سے لگائو ہے اس لیے میں یہاں سے جانا تو نہیں چاہتا ،لیکن اگر زیادہ عرصہ کام نہ ملا تو شاید مجھے جانا پڑ جائے‘‘۔
کمال کی باتیں درخت پر موجود پری سن رہی تھی۔وہ سوچنے لگی کہ اسے ضرور اس نیک دل انسان کی مدد کرنی چاہیے تا کہ اسے دوسرے شہر نہ جانا پڑے۔اگلے دن پری نے کمال کے آنے سے پہلے ایک خوبصورت چمکتی ہوئی سنہری پنسل درخت کے نیچے رکھ دی۔کمال جب وقت گزارنے درخت کے پاس پہنچا تو چمکدار پنسل دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بھی چمک اتر آئی۔اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر پنسل اٹھائی اور سوچا کہ اس سے کوئی نئی تصویر بنائے،لیکن تبھی اسے خیال آیا کہ خدا جانے یہ کسی کی امانت ہو ،اور وہ یہاں بھول گیا ہو۔اسے پنسل واپس اپنی جگہ پر رکھ دینی چاہیے تا کہ اس کا مالک یاد آنے پر جب کبھی واپس آئے،اسے پنسل اپنی جگہ پڑی ملے۔یہ سوچ کر کمال نے پنسل واپس درخت کے نیچے رکھ دی،لیکن جتنی دیر وہاں بیٹھا رہا اسی پر نظریں ٹکی رہیں۔اس دوران پری کمال کو دیکھ کر مسکراتی رہی۔وہ آج اس کی ایمانداری کی بھی مداح ہو گئی تھی۔
شام کو کمال گھر لوٹ گیا اور اگلے روز واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ پنسل آج بھی اسی جگہ موجود ہے۔یہ دیکھ کر کمال حیران ہوا کہ بھلا اتنی خوبصورت پنسل کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔بہر حال اس نے کچھ سوچا اور پنسل اٹھا کر اس سے درخت پر اُگتے تازہ رسیلے آم کی تصویر بنانے لگا۔جونہی تصویر مکمل ہوئی کمال کیا دیکھتا ہے کہ کاغذ پر تصویر کی جگہ اصلی آم موجود ہے۔یہ دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔وہ حیرت زدہ تھا کہ تصویر ،اصلی پھل میں کیسے بدل گئی۔اس نے خود کو یقین دلانے کے لیے اب کی با ر سیب بنایا اور چند لمحوں بعد وہ بھی اصل سیب کی شکل اختیار کر گیا۔کمال حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی تھا۔وہ سمجھ چکا تھا کہ ضرور یہ پنسل جادوئی ہے جس سے جو بھی بنایا جائے،وہ تصویر سے اصلی شکل میں بدل جاتا ہے۔کمال بے حد خوش تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اب اسے کمائی کے لیے دوسرے شہر جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ یہیں رہ کر اپنا کام جا ری رکھ سکتا ہے اور اپنی ضروریات جادوئی پنسل کے ذریعے پوری کر سکتا ہے۔
ایک روز شام ڈھلے کمال کے پاس اس کا قریبی دوست آیا ،او ر اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے بولا کہ اس کے پاس ٹریکٹر خریدنے کے لیے پیسے موجود نہیں ہیں اور جلد ہی اگر اس نے زمین پر کام نہ کیا تو اس کی ساری فصل تباہ ہو جائے گی۔دوست کی بات سن کر کمال نے اسے اگلے روز آنے کا کہا اور شام میں جادوئی پنسل سے ٹریکٹر کی تصویر تیار کر لی۔اگلے روز کمال نے جب دوست کو ٹریکٹر دیا اور ساتھ جادوئی پنسل کی کہانی سنائی تو وہ بے حد حیران ہوا۔آہستہ آہستہ یہ خبر پورے گائوں میں پھیل گئی اور یوں جادوئی پنسل کمال کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے لوگوں کی ضرورت بھی پوری کرنے لگی۔
پیارے بچو!ہنر ہو یا پیسہ ،اسی صورت پاک ہوتا ہے جب یہ نہ صرف آ پ کے بلکہ دوسروں کے بھی کام آئے۔
Jadui Tasweeren By Sobia Aslam