Jaduii Jotay By Nauman Khan

I

intelligent086

Guest
جادوئی جوتے ۔۔۔۔ نعمان خان

jadu-jpg.jpg

صبح سویرے سونو کی آنکھ اپنی امی کی آواز سے کھُلی۔وہ اسے سکول جانے کے لیے جگا رہی تھیں۔آنکھیں ملتے ہوئے سونو بستر سے اٹھا اور سکول جانے کی تیاری کرنے لگا۔کپڑے تبدیل کر کے وہ ناشتہ کرنے بیٹھا تو اس کی امی نے محسوس کیا کہ آج سونو اُداس اور خاموش سا لگ رہا ہے۔
وہ پیار سے سونو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں’’بیٹا!کیا بات ہے ،کوئی پریشانی ہے کیا‘‘؟جواب میں پہلے تو سونو کچھ نہ بولا اور محض نفی میں سر ہلا دیا،لیکن امی کے بار بار اصرار کرنے پر سونو اُداس لہجے میں بولا ’’امی!چند روز بعد سکول میں دوڑ کا مقابلہ ہونے والا ہے،اور جو لوگ مقابلے میں حصہ لیں گے ان کا انتخاب کل کیا جائے گا اور آپ تو جانتی ہیں کہ میں ہمیشہ دوڑ میں نہ صرف حصہ لیتا ہوں بلکہ انعام بھی حاصل کرتا ہوں‘‘۔
سونو خاموش ہوا تو اس کی امی بولیں’’ تو بیٹا! اس میں بھلا پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔مجھے یقین ہے اس سال بھی تم ہی دوڑ میں اول آئو گے‘‘۔
امی کی بات سن کر سونو غمگین لہجے میں بولا’’امی!اس بار شاید مجھے مقابلے کے لیے منتخب ہی نہیں کیا جائے گا،کیونکہ میرے جوتے بالکل پھٹ چکے ہیں اورابو کے پاس مجھے نئے جوتے خرید کر دینے کے پیسے نہیں ہیں‘‘۔سونو کی بات نے اس کی امی کو بھی بے حد اُداس کر دیا۔سونو ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کے والدین اپنے بیٹے کی ہر خواہش اور ضرورت پوری کرنا چاہتے تھے،لیکن حالات اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ ا س کے لیے نئے جوتے اور کپڑوں کا انتظام کر سکیں۔سونو کی امی خود پر ضبط کر کے چہرے پر ہنسی سجا کر بولیں’’میرا بیٹا! بالکل بے فکر ہو جائے ۔میرا دل کہتا ہے کہ آپ اس بار بھی مقابلے میں حصہ لو گے اور ہمیشہ کی طرح اول آئو گے‘‘۔

امی کی بات سن کر سونو کو کچھ تسلی ہوئی اور وہ ناشتہ ختم کر کے سکول کے لیے روانہ ہو گیا۔ابھی گھر سے کچھ ہی دور گیا تھا کہ اسے یاد آیا وہ اپنی پانی کی بوتل گھر ہی بھو ل آیا ہے۔تیزی سے بھاگتا ہوا وہ گھر کے درواز ے پر پہنچا تو اندر سے آتی امی کی آواز سن کر رُک گیا۔وہ روتے ہوئے دُعا مانگ رہی تھیں کہ’’اے اللہ!میری مدد کر تا کہ میں اپنے بیٹے کی ضرورت پوری کرنے کے قابل بن سکوں‘‘۔سونو خاموشی سے بوتل اُٹھا کر واپس سکو ل کی جانب چل پڑا۔تیزی سے بھاگنے کی وجہ سے اس کے پُرانے جوتے مزید پھٹ گئے تھے۔سکول پہنچا تو دیر سے آنے کے باعث اسے کلاس میں جانے کی بھی اجازت نہ ملی۔سونو کا دل مزید اُداس ہو گیا تھا۔اس کا آج کا دن بالکل اچھا نہیں رہا تھا۔

وہ اکیلا پیدل ہی سکول جایا کرتا تھا او ر اس کے راستے میں ایک گھنے درختوں کا باغ بھی آتا تھا۔سُستی سے قدم اٹھاتا سونو گھر کی جانب جا رہا تھا جب باغ کے قریب پہنچنے پر اچانک اس کی نظر ایک زخمی چوزے پر پڑی۔چوزہ شاید کسی چیز سے ٹکرا کر یا بڑے پرندے کے حملے سے زخمی ہو گیا تھا۔چوزے کو تکلیف میں دیکھ کر سونو جلدی سے آگے بڑھا اور اسے گرمی سے بچانے کے لیے اپنا پھٹا ہوا جوتا اُتار کر اس میں بٹھا دیا تا کہ چوزے پر دھوپ نہ پڑے۔اس کے بعد سونو نے اپنی پانی کی بوتل سے چوزے کو پانی پلایا تو وہ معصوم نظروں سے سونو کی جانب دیکھنے لگا۔سونو سوچ رہا تھا کہ اس کے جوتے تو پھٹ ہی چکے ہیں یہ اس کے کام کے تو رہے نہیں ایسے میں اس معصوم چوزے کی جان بچانے کا سبب بن جائیں تو اس سے اچھا بھلا اور کیا ہو گا۔چوزے کی حالت بہتر ہوئی تو مطمئن ہو کر سونو واپس گھر کی جانب پلٹنے لگا۔جونہی پیچھے مُڑا توایک خوبصورت جوتوں کا جوڑا اپنے سامنے پایا۔سونو حیران ہو کر دیکھنے لگا کہ یہ جوتے بھلا کس کے ہو سکتے ہیں اور یہاں کیسے آئے؟آگے بڑھ کر سونو نے پائوں جوتوں میں ڈالا تو وہ بالکل اسے پورے تھے۔اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو جوتے میں سے چوزہ بھی غائب تھا۔سونو پہلے تو حیران ہوا اور پھر سمجھ گیا کہ یہ ضرور کسی پری کا کام ہے جسے اس کا امتحان لینے کے لیے بھیجا گیا تھا اور چوزے کی مدد کرنے پر اس کی ضرورت پوری کر دی گئی ہے۔اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور نئے جوتے پہن کر خوشی خوشی گھر کی جانب بڑھنے لگا ۔سونو کو یقین ہو گیا تھا کہ کل کے مقابلے میں بھی جیت اسی کی ہو گی۔

 
Top Bottom