intelligent086
New Baby
جادوئی صندوق
تحریر : آمنہ الیاس
پُرا نے وقتوں کی بات ہے کسی ملک کے قریب موجود چھوٹے سے گائوں میں''شیرو‘‘'نامی کسان رہتا تھا۔وہ زمیندار کے دیئے ہوئے زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر کھیتی باڑی کر کے چند روپے کما لیتا تھا۔اس کم آمدن میں ہی اس کا اور اس کے بیوی بچوں کا گزارہ ہو رہا تھا۔شیرو چاہتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائے لیکن اس کی محدود آمدنی یہ خواہش پوری کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔زمیندار کو شیرو کی محنت سے جس قدر بھی منافع ہوتا وہ اس میں سے شیر و کی ماہانہ تنخواہ ہی اسے دیتا اور کبھی محنت کے مطابق منافع کی رقم میں سے حصہ ادا نہ کرتا۔شیرو مجبور اور غریب تھا اس لیے خاموش ہو رہتا،لیکن جوں جوں اس کے بچے بڑے ہو رہے تھے،اس کی پریشانی میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔
ایک رات انہی سوچوں میں گم شیرو بستر پر لیٹا آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا،اور اپنی مالی مشکلات کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اسی وقت اس کے دل سے دعا نکلی کہ ''اے پوری کائنات کے رب!میرے مدد فرما،مجھے اس قابل بنا دے کہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا سکوں''۔
اگلے دن شیرو حسبِ معمول کام پر گیا اور وہ کھیتی باڑی کر رہا تھا کہ اچانک اسے زمین کے اندر کسی سخت چیز کے موجود ہونے کا احساس ہوا۔اس نے نکال کر دیکھا تو یہ ایک صندوق تھا،پہلے تو شیرو اسے اُلٹ پلٹ کر دیکھتا رہا پھر اس نے صندوق کو کھول کر دیکھا تو یہ اندر سے خالی تھا۔کوئی خاص بات معلوم نہ ہونے پر شیرو نے صندوق کو کپڑے سے صاف کیا اور ساتھ لایا ہوا کھانا اس میں رکھ دیا۔دوپہر میں کام ختم کر کے وہ کھانا کھانے بیٹھا اور جونہی اس نے صندوق کا ڈھکن اٹھایا ،یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں کہ صندوق میں رکھا ہوا کھانا چار گنا زیادہ ہو چکا تھا۔شیرو سمجھ گیا کہ ضرور یہ جادوئی صندوق ہے جس میں کچھ بھی رکھو تو وہ چار گنا بڑھ جاتا ہے۔
خوشی خوشی شیرو نے صندوق اٹھایا اور گھر روانہ ہو گیا۔اب مہینے کے آخر پر اسے جو رقم ملتی شیرو اسے صندوق میں رکھتا اور اگلی صبح چار گنا زیادہ رقم حاصل کر لیتا۔شیرو نے چند مہینوں میں ہی اتنے پیسے جمع کر لیے کہ اب وہ اپنے بچوں کو با آسانی پڑھا سکتا تھا۔اس کے بعد شیر و نے مزید پیسے بڑھانے کا ارادہ ترک کر دیا،کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ پیسے حاصل کر کے لالچ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
جادوئی صندوق کی خبر کسی طرح اُڑتے اُڑتے زمیندار تک بھی پہنچی اور اس نے شیر و سے اس بات کی تصدیق کی تو اس نے سب سچ سچ بتا دیا۔یہ سن کر زمیندار نے شیرو کوحکم دیا کہ فوراً وہ صندوق اس تک پہنچا دیا جائے کیونکہ یہ اس کی زمین سے نکلا ہے اس لیے صندوق کا اصل حقدار وہی ہے۔شیرو نے بغیر کوئی بحث کیے خاموشی سے صندوق زمیندار کے حوالے کر دیا۔اب زمیندار کا دن رات ایک ہی کام تھا کہ وہ رات کو صندوق میں پیسے رکھتا اور اگلی صبح چار گنا نکال لیتا۔لالچ نے زمیندار کو پاگل کر دیا تھا،اور ایک دن وہ سوچنے لگا کہ کیوں نہ میں ایک دن خود صندوق میں بیٹھ جائوں اس طرح میرے جیسے اور کئی لوگ باہر نکل آئیں گے جن سے میں اپنی زمینوں پر کام لیا کروں گا اور خود دن بھر صندوق سے پیسے بنایا کروں گا۔
یہ سوچ کر زمیندار رات کو صندوق میں بیٹھ گیا اور اگلی صبح اس جیسے چار مزید لوگ صندو ق سے باہر نکل آئے،لیکن باہر آتے ہی یہ آپس میں جھگڑنے لگے اور انہوں نے اصلی زمیندار کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔وہ کھیتوں میں جا کر کام کرنے کو تیار نہیں تھے۔غصے میں آ کر زمیندار نے انہیں گھر سے نکل جانے کو کہا تو وہ سب آپس میں کلہاڑیاں لے کر لڑنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کو جان سے مار دیا۔زمیندار کا کوئی وارث موجود نہیں تھا اس لیے گائوں کے لوگوں نے صندوق اور زمین بھی شیرو کو دینے کا فیصلہ کیا اور یوں شیرو کو اپنی محنت اور صبر کا خوب انعام اللہ سے مل گیا۔
بچو!دیکھا آپ نے لالچ کا انجام کس قدر بُرا ہوتا ہے۔زمیندار نے سب کچھ موجود ہوتے ہوئے بھی لالچ کیا اور اس کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا،جبکہ شیرو نے اپنی ضرورت پوری کر کے پیسہ بنانا بند کر دیا تو اللہ نے اسے کس قدر بڑا انعام دیا۔اسی لیے کہتے ہیں کبھی بھی لالچ دل میں نہیں لانا چاہیے ورنہ انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔
تحریر : آمنہ الیاس
پُرا نے وقتوں کی بات ہے کسی ملک کے قریب موجود چھوٹے سے گائوں میں''شیرو‘‘'نامی کسان رہتا تھا۔وہ زمیندار کے دیئے ہوئے زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر کھیتی باڑی کر کے چند روپے کما لیتا تھا۔اس کم آمدن میں ہی اس کا اور اس کے بیوی بچوں کا گزارہ ہو رہا تھا۔شیرو چاہتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائے لیکن اس کی محدود آمدنی یہ خواہش پوری کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔زمیندار کو شیرو کی محنت سے جس قدر بھی منافع ہوتا وہ اس میں سے شیر و کی ماہانہ تنخواہ ہی اسے دیتا اور کبھی محنت کے مطابق منافع کی رقم میں سے حصہ ادا نہ کرتا۔شیرو مجبور اور غریب تھا اس لیے خاموش ہو رہتا،لیکن جوں جوں اس کے بچے بڑے ہو رہے تھے،اس کی پریشانی میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔
ایک رات انہی سوچوں میں گم شیرو بستر پر لیٹا آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا،اور اپنی مالی مشکلات کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اسی وقت اس کے دل سے دعا نکلی کہ ''اے پوری کائنات کے رب!میرے مدد فرما،مجھے اس قابل بنا دے کہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا سکوں''۔
اگلے دن شیرو حسبِ معمول کام پر گیا اور وہ کھیتی باڑی کر رہا تھا کہ اچانک اسے زمین کے اندر کسی سخت چیز کے موجود ہونے کا احساس ہوا۔اس نے نکال کر دیکھا تو یہ ایک صندوق تھا،پہلے تو شیرو اسے اُلٹ پلٹ کر دیکھتا رہا پھر اس نے صندوق کو کھول کر دیکھا تو یہ اندر سے خالی تھا۔کوئی خاص بات معلوم نہ ہونے پر شیرو نے صندوق کو کپڑے سے صاف کیا اور ساتھ لایا ہوا کھانا اس میں رکھ دیا۔دوپہر میں کام ختم کر کے وہ کھانا کھانے بیٹھا اور جونہی اس نے صندوق کا ڈھکن اٹھایا ،یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں کہ صندوق میں رکھا ہوا کھانا چار گنا زیادہ ہو چکا تھا۔شیرو سمجھ گیا کہ ضرور یہ جادوئی صندوق ہے جس میں کچھ بھی رکھو تو وہ چار گنا بڑھ جاتا ہے۔
خوشی خوشی شیرو نے صندوق اٹھایا اور گھر روانہ ہو گیا۔اب مہینے کے آخر پر اسے جو رقم ملتی شیرو اسے صندوق میں رکھتا اور اگلی صبح چار گنا زیادہ رقم حاصل کر لیتا۔شیرو نے چند مہینوں میں ہی اتنے پیسے جمع کر لیے کہ اب وہ اپنے بچوں کو با آسانی پڑھا سکتا تھا۔اس کے بعد شیر و نے مزید پیسے بڑھانے کا ارادہ ترک کر دیا،کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ پیسے حاصل کر کے لالچ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
جادوئی صندوق کی خبر کسی طرح اُڑتے اُڑتے زمیندار تک بھی پہنچی اور اس نے شیر و سے اس بات کی تصدیق کی تو اس نے سب سچ سچ بتا دیا۔یہ سن کر زمیندار نے شیرو کوحکم دیا کہ فوراً وہ صندوق اس تک پہنچا دیا جائے کیونکہ یہ اس کی زمین سے نکلا ہے اس لیے صندوق کا اصل حقدار وہی ہے۔شیرو نے بغیر کوئی بحث کیے خاموشی سے صندوق زمیندار کے حوالے کر دیا۔اب زمیندار کا دن رات ایک ہی کام تھا کہ وہ رات کو صندوق میں پیسے رکھتا اور اگلی صبح چار گنا نکال لیتا۔لالچ نے زمیندار کو پاگل کر دیا تھا،اور ایک دن وہ سوچنے لگا کہ کیوں نہ میں ایک دن خود صندوق میں بیٹھ جائوں اس طرح میرے جیسے اور کئی لوگ باہر نکل آئیں گے جن سے میں اپنی زمینوں پر کام لیا کروں گا اور خود دن بھر صندوق سے پیسے بنایا کروں گا۔
یہ سوچ کر زمیندار رات کو صندوق میں بیٹھ گیا اور اگلی صبح اس جیسے چار مزید لوگ صندو ق سے باہر نکل آئے،لیکن باہر آتے ہی یہ آپس میں جھگڑنے لگے اور انہوں نے اصلی زمیندار کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔وہ کھیتوں میں جا کر کام کرنے کو تیار نہیں تھے۔غصے میں آ کر زمیندار نے انہیں گھر سے نکل جانے کو کہا تو وہ سب آپس میں کلہاڑیاں لے کر لڑنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کو جان سے مار دیا۔زمیندار کا کوئی وارث موجود نہیں تھا اس لیے گائوں کے لوگوں نے صندوق اور زمین بھی شیرو کو دینے کا فیصلہ کیا اور یوں شیرو کو اپنی محنت اور صبر کا خوب انعام اللہ سے مل گیا۔
بچو!دیکھا آپ نے لالچ کا انجام کس قدر بُرا ہوتا ہے۔زمیندار نے سب کچھ موجود ہوتے ہوئے بھی لالچ کیا اور اس کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا،جبکہ شیرو نے اپنی ضرورت پوری کر کے پیسہ بنانا بند کر دیا تو اللہ نے اسے کس قدر بڑا انعام دیا۔اسی لیے کہتے ہیں کبھی بھی لالچ دل میں نہیں لانا چاہیے ورنہ انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔