I
intelligent086
Guest
جانور کی محبت ۔۔۔۔۔۔ ماریہ کامل
پیارے بچو!پُرانے وقتوں کی بات ہے جنگل کے قریب موجود چھوٹے سے گائوں میں ایک کاشتکار اپنی بیوی اور2ماہ کے بچے کے ساتھ رہتا تھا۔
یہ اپنی زمین پر کھیتی باڑی بھی کرتا اور اس نے کچھ بھیڑیں بھی پال رکھی تھیں۔گھر اور بھیڑوں کی حفاظت کے لیے کاشتکار نے ایک ٹومی نامی کتا پال رکھا تھا جو پچھلے کئی برسوں سے اسی کے پاس موجود تھا۔یہ گھر کی اچھی نگرانی کرتا تھا اور اس کے خوف سے آج تک کسی چورکی ان کے گھر تک آنے یا بھیڑیں چرانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹومی اب بوڑھا ہونے لگا تھا۔ایک ،ایک کر کے اس کے سارے دانت بھی گر چکے تھے اور وہ دن میں زیادہ وقت پڑا اب اونگھتا رہتا ۔
ایک روز کاشتکا ر اپنی بیوی سے کہنے لگا ’’میرے خیال میں اب ٹومی ہمارے کسی کام کا نہیں رہا۔اس کے سارے دانت بھی گر چکے ہیں اور یہ پہلے کی طرح چست بھی نہیں ہے۔اب شاید یہ ہمارے گھر اور بھیڑوں کی اچھی دیکھ بھال نہیں کر سکتا،میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کسی دن لے جا کر جنگل میں چھوڑ آئوں اور حفاظت کے لیے کوئی جوان کتا خرید لوں‘‘۔کاشتکار کی بیوی کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی ،وہ کہنے لگی’’جس جانور نے ساری زندگی آپ کی نگرانی کی ہے آج اس کے آخری وقت میں آپ اسی سے جان چھڑوانے کی بات کر رہے ہیں۔جہاں تک دوسرا جانور خریدنے کی بات ہے تو وہ ہم اسے پاس رکھ کر بھی خرید سکتے ہیں‘‘۔
کاشتکار بیوی کی بات سے متفق نہ ہوتے ہوئے بولا’’تم بھی عجیب باتیں کرتی ہو۔اب ہمارا ایک بچہ بھی ہے جس کے اخراجات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھیں گے۔ایسے میں بھلا ہم 2جانوروں کی خوراک کا خرچ کیسے برداشت کر سکتے ہیں‘‘۔کاشتکار کی بیوی بولی’’وہ سب میں نہیں جانتی،جو ذات رزق دینے والی ہے وہ خود ہی بندو بست کر دیتی ہے لیکن جس نے عمر بھر آپ کا ساتھ دیا ہو ،اس کا آخری وقت میں ساتھ چھوڑ دینا اچھی بات نہیں‘‘۔کاشتکار اور اس کی بیوی کی تما م باتیں بوڑھا ٹومی سن رہا تھا۔وہ سخت پریشان ہوا کہ اگر مالک نے اسے جنگل میں چھوڑ دیا تو وہ جلد ہی کسی خونخوار جانور کی خوراک بن جائے گا۔یوں بھی اسے اپنے مالک سے محبت تھی اور وہ چاہتا تھا کہ جب تک زندہ ہے یہیں وقت گزارے۔مالک سے نظر بچا کر وہ اپنے دوست بھیڑئیے کے پاس گیا تا کہ اسے اپنی پریشانی کے متعلق بتا سکے۔ٹومی کی ساری بات سن کر بھیڑئیے نے کہا’’کل جب تمہارا مالک اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ کھیتوں میں جائے گا تب تم بچے کی نگرانی کے لیے اس کے پاس بیٹھے رہنا،کچھ دیر بعد میں وہاں آئوں گا اور آگے جو ہو گا وہ تم خود ہی دیکھ لینا‘‘۔ٹومی کو اپنے دوست پر بھروسہ تھا کہ وہ اس کی پریشانی کا ضرور کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا اس لیے مطمئن ہو کر واپس لوٹ آیا۔
اگلے روز معمول کے مطابق کاشتکار اپنی بیوی ،بچے اور ٹومی کو لے کر کھیتوں میں پہنچا۔اس نے ایک مناسب جگہ دیکھ کر درخت کی چھائوں کے نیچے بچے کی ٹوکری رکھ دی جس میں وہ سو رہا تھا۔ٹومی پاس بیٹھ کر اونگھنے لگا۔وہ دونوں میاں،بیوی جب کام میں مصروف ہو گئے تو تاک لگائے بیٹھا بھیڑیا اچانک بچے کی ٹوکری کے پاس آیا۔بھیڑئیے کی بو پاتے ہی ٹومی نے آنکھیں کھول دیں اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا بھیڑیا بچے کی ٹوکری اٹھا کر جنگل کی طرف بھاگنے لگا۔یہ صورتحال دیکھ کر ٹومی بھیڑئیے کے پیچھے بھاگتے ہوئے زور،زور سے بھونکنے لگا۔کاشتکار اور اس کی بیوی نے یہ دیکھا تو و ہ بھی دیوانہ وار اپنے بچے کو بچانے کے لیے بھاگے،لیکن ان کی رفتار بھیڑئیے اور ٹومی سے کم تھی۔جنگل میں کافی دور جا کر بھیڑیا ایک جگہ رُک گیا،پیچھے سے آتا ٹومی بھی اب بُری طرح ہانپ رہا تھا۔وہ جلدی سے بولا’’دیکھو دوست!میرا مالک چاہے مجھے چھوڑ دے لیکن اس معصوم بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچانا ،میں اس پر کسی قسم کی آنچ برداشت نہیں کروں گا‘‘۔بھیڑئیے نے ٹوکری ٹومی کے پاس رکھی اور بولا’’میرا مقصد صرف تمہاری مدد کرنا تھا۔اب بچے کو ساتھ لو اور واپس اپنے مالک کے پاس جائو‘‘۔ٹومی بھیڑئیے کی عقلمندی پر حیران ہوا اور جلدی سے منہ میں ٹوکری دبا کر اپنے مالک کی آتی آوازوں کی جانب بھاگنے لگا۔کاشتکار اور اس کی بیوی روتے ہوئے اپنے بچے کو ڈھونڈ رہے تھے۔جب انہوں نے ٹومی کو ٹوکری منہ میں دبائے اپنی جانب آتے دیکھا تو جلدی سے اس کی جانب بڑھے۔کاشتکار کی بیوی نے جلد ی سے بُری طرح روتے ہوئے بچے کو گلے لگا لیا اور کاشتکار ٹومی کو اپنی گود میں بٹھا کر سہلانے لگا۔اسے یقین ہو گیا تھا کہ جانور چاہے کتنا ہی بوڑھا کیوں نہ ہو جائے اپنے مالک سے بے حد محبت کرتا ہے،اب اس نے ارادہ کیا کہ جب تک ٹومی زندہ ہے ان کے پاس ہی رہے گا۔
پیارے بچو!پُرانے وقتوں کی بات ہے جنگل کے قریب موجود چھوٹے سے گائوں میں ایک کاشتکار اپنی بیوی اور2ماہ کے بچے کے ساتھ رہتا تھا۔
یہ اپنی زمین پر کھیتی باڑی بھی کرتا اور اس نے کچھ بھیڑیں بھی پال رکھی تھیں۔گھر اور بھیڑوں کی حفاظت کے لیے کاشتکار نے ایک ٹومی نامی کتا پال رکھا تھا جو پچھلے کئی برسوں سے اسی کے پاس موجود تھا۔یہ گھر کی اچھی نگرانی کرتا تھا اور اس کے خوف سے آج تک کسی چورکی ان کے گھر تک آنے یا بھیڑیں چرانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹومی اب بوڑھا ہونے لگا تھا۔ایک ،ایک کر کے اس کے سارے دانت بھی گر چکے تھے اور وہ دن میں زیادہ وقت پڑا اب اونگھتا رہتا ۔
ایک روز کاشتکا ر اپنی بیوی سے کہنے لگا ’’میرے خیال میں اب ٹومی ہمارے کسی کام کا نہیں رہا۔اس کے سارے دانت بھی گر چکے ہیں اور یہ پہلے کی طرح چست بھی نہیں ہے۔اب شاید یہ ہمارے گھر اور بھیڑوں کی اچھی دیکھ بھال نہیں کر سکتا،میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کسی دن لے جا کر جنگل میں چھوڑ آئوں اور حفاظت کے لیے کوئی جوان کتا خرید لوں‘‘۔کاشتکار کی بیوی کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی ،وہ کہنے لگی’’جس جانور نے ساری زندگی آپ کی نگرانی کی ہے آج اس کے آخری وقت میں آپ اسی سے جان چھڑوانے کی بات کر رہے ہیں۔جہاں تک دوسرا جانور خریدنے کی بات ہے تو وہ ہم اسے پاس رکھ کر بھی خرید سکتے ہیں‘‘۔
کاشتکار بیوی کی بات سے متفق نہ ہوتے ہوئے بولا’’تم بھی عجیب باتیں کرتی ہو۔اب ہمارا ایک بچہ بھی ہے جس کے اخراجات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھیں گے۔ایسے میں بھلا ہم 2جانوروں کی خوراک کا خرچ کیسے برداشت کر سکتے ہیں‘‘۔کاشتکار کی بیوی بولی’’وہ سب میں نہیں جانتی،جو ذات رزق دینے والی ہے وہ خود ہی بندو بست کر دیتی ہے لیکن جس نے عمر بھر آپ کا ساتھ دیا ہو ،اس کا آخری وقت میں ساتھ چھوڑ دینا اچھی بات نہیں‘‘۔کاشتکار اور اس کی بیوی کی تما م باتیں بوڑھا ٹومی سن رہا تھا۔وہ سخت پریشان ہوا کہ اگر مالک نے اسے جنگل میں چھوڑ دیا تو وہ جلد ہی کسی خونخوار جانور کی خوراک بن جائے گا۔یوں بھی اسے اپنے مالک سے محبت تھی اور وہ چاہتا تھا کہ جب تک زندہ ہے یہیں وقت گزارے۔مالک سے نظر بچا کر وہ اپنے دوست بھیڑئیے کے پاس گیا تا کہ اسے اپنی پریشانی کے متعلق بتا سکے۔ٹومی کی ساری بات سن کر بھیڑئیے نے کہا’’کل جب تمہارا مالک اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ کھیتوں میں جائے گا تب تم بچے کی نگرانی کے لیے اس کے پاس بیٹھے رہنا،کچھ دیر بعد میں وہاں آئوں گا اور آگے جو ہو گا وہ تم خود ہی دیکھ لینا‘‘۔ٹومی کو اپنے دوست پر بھروسہ تھا کہ وہ اس کی پریشانی کا ضرور کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا اس لیے مطمئن ہو کر واپس لوٹ آیا۔
اگلے روز معمول کے مطابق کاشتکار اپنی بیوی ،بچے اور ٹومی کو لے کر کھیتوں میں پہنچا۔اس نے ایک مناسب جگہ دیکھ کر درخت کی چھائوں کے نیچے بچے کی ٹوکری رکھ دی جس میں وہ سو رہا تھا۔ٹومی پاس بیٹھ کر اونگھنے لگا۔وہ دونوں میاں،بیوی جب کام میں مصروف ہو گئے تو تاک لگائے بیٹھا بھیڑیا اچانک بچے کی ٹوکری کے پاس آیا۔بھیڑئیے کی بو پاتے ہی ٹومی نے آنکھیں کھول دیں اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا بھیڑیا بچے کی ٹوکری اٹھا کر جنگل کی طرف بھاگنے لگا۔یہ صورتحال دیکھ کر ٹومی بھیڑئیے کے پیچھے بھاگتے ہوئے زور،زور سے بھونکنے لگا۔کاشتکار اور اس کی بیوی نے یہ دیکھا تو و ہ بھی دیوانہ وار اپنے بچے کو بچانے کے لیے بھاگے،لیکن ان کی رفتار بھیڑئیے اور ٹومی سے کم تھی۔جنگل میں کافی دور جا کر بھیڑیا ایک جگہ رُک گیا،پیچھے سے آتا ٹومی بھی اب بُری طرح ہانپ رہا تھا۔وہ جلدی سے بولا’’دیکھو دوست!میرا مالک چاہے مجھے چھوڑ دے لیکن اس معصوم بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچانا ،میں اس پر کسی قسم کی آنچ برداشت نہیں کروں گا‘‘۔بھیڑئیے نے ٹوکری ٹومی کے پاس رکھی اور بولا’’میرا مقصد صرف تمہاری مدد کرنا تھا۔اب بچے کو ساتھ لو اور واپس اپنے مالک کے پاس جائو‘‘۔ٹومی بھیڑئیے کی عقلمندی پر حیران ہوا اور جلدی سے منہ میں ٹوکری دبا کر اپنے مالک کی آتی آوازوں کی جانب بھاگنے لگا۔کاشتکار اور اس کی بیوی روتے ہوئے اپنے بچے کو ڈھونڈ رہے تھے۔جب انہوں نے ٹومی کو ٹوکری منہ میں دبائے اپنی جانب آتے دیکھا تو جلدی سے اس کی جانب بڑھے۔کاشتکار کی بیوی نے جلد ی سے بُری طرح روتے ہوئے بچے کو گلے لگا لیا اور کاشتکار ٹومی کو اپنی گود میں بٹھا کر سہلانے لگا۔اسے یقین ہو گیا تھا کہ جانور چاہے کتنا ہی بوڑھا کیوں نہ ہو جائے اپنے مالک سے بے حد محبت کرتا ہے،اب اس نے ارادہ کیا کہ جب تک ٹومی زندہ ہے ان کے پاس ہی رہے گا۔