intelligent086
New Baby
جوانوں کو پیروں کا استاد کر ..... ملک محمد آصف رفیق رجوانہ
نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ، مرکز نگاہ اور اس کا مستقبل ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہی آگے بڑھ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا اور قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے بھی دعا کی تھی کہ
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
وہ بھی سمجھتے تھے کہ جب تک قوم کے نوجوان آگے نہیں آئیں گے ان کی تقدیر نہیں بدل سکتی، پاکستان اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں کی آبادی میں نوجوانوں کی واضح اکثریت ہے اور اگر اس نوجوان نسل کی صحیح معنوں میں تعلیم و تربیت اور رہنمائی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک وقوم کا مستقبل روشن نہ ہو سکے۔جہاں ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو صنعت و حرفت، کمپیوٹر، آئی ٹی اور دوسرے میدانوں میں تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کریں وہاں ہمیں ان نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنے کی بھی فکر کرنا ہوگی کیونکہ فیصلہ سازی ایک ایسا عمل ہے جس سے قومیں عروج کی طرف گامزن ہوتی یا زوال اور پستی کا شکار ہوتی ہیں، ایک وقت کے ایک فیصلے سے قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو فیصلہ سازی میں شرکت کیلئے ذہنی طور پر تیار کریں۔
ماضی قریب میں ملک میں انتہائی مثبت قدم اٹھایا گیا اور یوتھ پارلیمینٹ کا نظام متعارف کرایا گیا تھا جس سے یہ توقع ہوچلی تھی کہ شاید اس سسٹم کے راستے سے ہمیں ایسے فیصلہ ساز سیاستدان میسر ہوں گے جو قوم کی کشتی کو کنارے لگائیں گے مگر بدقسمتی سے یہ پروگرام بھی ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہن سازی کیلئے اہم فیصلے لینا ہوں گے، نوجوانوں کے تھنک ٹینک بنائے جائیں جہاں ملکی و بین الاقوامی حالات اور مسائل پر بحث ہو، انہیں ایک طرف تو ملکی و عالمی حالات سے شناسائی ہو دوسرے اپنی اہمیت کا بھی احساس ہو کہ ہم ان مسائل کے حل میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، اس مقصد کیلئے نچلی سطح سے ہی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، تعلیمی اداروں میں بھی سیاسی موضوعات پرمباحثے کرائے جائیں۔
اگر ہم واقعی اس امر کا تہیہ کر لیں تو پھر نچلی سطح سے ہی یہ سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے، محلے کی سطح پر نوجوان کونسلیں بنا کر ان کے اجلاس ہوں جو علاقے کے مسائل کا جائزہ لیں اور ملکی و عالمی حالات پر بھی بحث رکھیں اس طرح تیار ہونے والے نوجوان آنے والے وقت میں مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ملکی و بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،اس کے بعد شہر، تحصیل، ٹاؤن اور پھر ضلع، ڈویژن، صوبہ اور ملکی سطح پر ایسا نظام بنایا جائے۔ ان نوجوانوں کو صحت مندانہ بحث کے طریقے سکھائے جائیں، انہیں گالی اور گولی کے بجائے دلیل سے بات کرنا آئے، وہ منصوبہ سازی کر سکیں، نچلی سطح پر ہی منصوبے بنانا شروع کر یں، پھر یہ نوجوان آگے بڑھیں،شہر کی سطح پر منصوبے بنائیں اور پھر ملکی سطح پر کردار ادا کریں۔
ہم دیکھتے اورجانتے ہیں کہ پاکستانی نوجوان بہت باصلاحیت ہے اور جب بھی اسے موقع ملا اس نے ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ہمارے نوجوانوں نے عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا کوئی نظام ہے نہ ہی رہنمائی۔جن کے ماں باپ یا کوئی او رقریبی رشتہ دار ملک سے باہر نکل جاتا ہے باہر کے نظام کو دیکھتا ہے تو پھر اس کی اولاد بھی وہاں اپنا حصہ ڈالتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ پاکستانی ذہن کہاں تک زرخیز ہے اور ثابت کرتی ہے کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے انفرادی طور پر ہی ملکی اور عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے مگر ہم ایسا کوئی نظام یا میکانزم نہیں بنا سکے جس کے ذریعے نوجوانوں کی صلاحیتوں میں نکھار لاسکیں، اگر ان نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی کا کوئی نظام بن جائے تو ہم کئی ڈاکٹر عبدالقدیر، کئی ڈاکٹر عبدالسلام اور بڑی تعداد میں ارفع کریم جیسے با صلاحیت افراد پیداکر سکتے ہیں جونہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر ہمارا نام روشن کریں۔
نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ، مرکز نگاہ اور اس کا مستقبل ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہی آگے بڑھ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا اور قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے بھی دعا کی تھی کہ
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
وہ بھی سمجھتے تھے کہ جب تک قوم کے نوجوان آگے نہیں آئیں گے ان کی تقدیر نہیں بدل سکتی، پاکستان اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں کی آبادی میں نوجوانوں کی واضح اکثریت ہے اور اگر اس نوجوان نسل کی صحیح معنوں میں تعلیم و تربیت اور رہنمائی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک وقوم کا مستقبل روشن نہ ہو سکے۔جہاں ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو صنعت و حرفت، کمپیوٹر، آئی ٹی اور دوسرے میدانوں میں تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کریں وہاں ہمیں ان نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنے کی بھی فکر کرنا ہوگی کیونکہ فیصلہ سازی ایک ایسا عمل ہے جس سے قومیں عروج کی طرف گامزن ہوتی یا زوال اور پستی کا شکار ہوتی ہیں، ایک وقت کے ایک فیصلے سے قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو فیصلہ سازی میں شرکت کیلئے ذہنی طور پر تیار کریں۔
ماضی قریب میں ملک میں انتہائی مثبت قدم اٹھایا گیا اور یوتھ پارلیمینٹ کا نظام متعارف کرایا گیا تھا جس سے یہ توقع ہوچلی تھی کہ شاید اس سسٹم کے راستے سے ہمیں ایسے فیصلہ ساز سیاستدان میسر ہوں گے جو قوم کی کشتی کو کنارے لگائیں گے مگر بدقسمتی سے یہ پروگرام بھی ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہن سازی کیلئے اہم فیصلے لینا ہوں گے، نوجوانوں کے تھنک ٹینک بنائے جائیں جہاں ملکی و بین الاقوامی حالات اور مسائل پر بحث ہو، انہیں ایک طرف تو ملکی و عالمی حالات سے شناسائی ہو دوسرے اپنی اہمیت کا بھی احساس ہو کہ ہم ان مسائل کے حل میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، اس مقصد کیلئے نچلی سطح سے ہی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، تعلیمی اداروں میں بھی سیاسی موضوعات پرمباحثے کرائے جائیں۔
اگر ہم واقعی اس امر کا تہیہ کر لیں تو پھر نچلی سطح سے ہی یہ سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے، محلے کی سطح پر نوجوان کونسلیں بنا کر ان کے اجلاس ہوں جو علاقے کے مسائل کا جائزہ لیں اور ملکی و عالمی حالات پر بھی بحث رکھیں اس طرح تیار ہونے والے نوجوان آنے والے وقت میں مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ملکی و بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،اس کے بعد شہر، تحصیل، ٹاؤن اور پھر ضلع، ڈویژن، صوبہ اور ملکی سطح پر ایسا نظام بنایا جائے۔ ان نوجوانوں کو صحت مندانہ بحث کے طریقے سکھائے جائیں، انہیں گالی اور گولی کے بجائے دلیل سے بات کرنا آئے، وہ منصوبہ سازی کر سکیں، نچلی سطح پر ہی منصوبے بنانا شروع کر یں، پھر یہ نوجوان آگے بڑھیں،شہر کی سطح پر منصوبے بنائیں اور پھر ملکی سطح پر کردار ادا کریں۔
ہم دیکھتے اورجانتے ہیں کہ پاکستانی نوجوان بہت باصلاحیت ہے اور جب بھی اسے موقع ملا اس نے ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ہمارے نوجوانوں نے عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا کوئی نظام ہے نہ ہی رہنمائی۔جن کے ماں باپ یا کوئی او رقریبی رشتہ دار ملک سے باہر نکل جاتا ہے باہر کے نظام کو دیکھتا ہے تو پھر اس کی اولاد بھی وہاں اپنا حصہ ڈالتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ پاکستانی ذہن کہاں تک زرخیز ہے اور ثابت کرتی ہے کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے انفرادی طور پر ہی ملکی اور عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے مگر ہم ایسا کوئی نظام یا میکانزم نہیں بنا سکے جس کے ذریعے نوجوانوں کی صلاحیتوں میں نکھار لاسکیں، اگر ان نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی کا کوئی نظام بن جائے تو ہم کئی ڈاکٹر عبدالقدیر، کئی ڈاکٹر عبدالسلام اور بڑی تعداد میں ارفع کریم جیسے با صلاحیت افراد پیداکر سکتے ہیں جونہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر ہمارا نام روشن کریں۔