I
intelligent086
Guest
جھوٹا گداگر ۔۔۔ آمنہ کامل
دور کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ بڑا رحم دل اور رعایا پرور تھا۔جو بھی اس کے پاس آتا وہ اسے کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتا۔
اگر کسی کو کوئی پریشانی ہوتی تو بادشاہ خود اسے حل کرنے کی کوشش کرتا۔غریبوں اور مجبوروں کا بہت خیال رکھتا۔اسی وجہ سے ملک کے لوگ اپنے بادشاہ سے بے حد خوش تھے اور اسے بے انتہا پیار کرتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ میں غرور سمانے لگا۔وہ اپنی جھوٹی تعریف سن کر خوش ہونے لگا۔جب یہ خبر عام ہوئی تو ایک دن بادشاہ کے محل میں ایک لالچی اور خوشامدی فقیر آیا۔اس فقیر نے بادشاہ کے محل میں جا کر بادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہوئے صدا لگانا شروع کر دی کہ’’ہمارا بادشاہ بڑا سخی ہے جو کوئی نہ دے پائے وہ بادشاہ سلامت دے۔‘‘بادشاہ کو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی۔اس نے فقیر کو ایک پپیتا انعام میں دے کر رخصت کیا۔فقیر نے پپیتا لیا اور منہ لٹکائے واپس آگیا۔اسے یہ انعام پا کر ذرہ برابر بھی خوشی نہیں ہوئی تھی۔جونہی پہلا فقیر محل سے نکلا ایک اور فقیر محل میں داخل ہوا اور اس نے حق بات کی صد ا لگانا شروع کر دی’’جو اللہ دے وہ کوئی نہ دے پائے نہ ہی ہمارے بادشاہ‘‘فقیر کی یہ بات بادشاہ کو ناگوار گزری،لیکن چونکہ وہ عام رعایا میں رحم دل اور سخی مشہور تھا اس لیے محل میں آئے ہوئے فقیر کو خالی ہاتھ واپس لوٹانا اس نے مناسب نہ جانا اور اسے 2سونے کے سکے دے کر محل سے رخصت کر دیا۔دوسرا فقیر 2سونے کے سکے پا کر بھی بے حد خوش ہوا۔اتفاق سے محل سے واپسی پر دونوں فقیروں کی ملاقات بازار میں ہو گئی۔پہلا فقیر بہت زیادہ دکھی نظر آ رہا تھا۔ دوسرے فقیر نے پوچھا دوست تم اتنے دکھی کیوں ہو؟تو پہلے فقیر نے جواب دیا’’میں بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور اس کی تعریف بھی کی تو اس نے انعام میں مجھے صرف یہ پپیتا دے دیا جو میرے کسی کام کا نہیں ہے ۔‘‘دوسرے فقیر نے کہا میں بھی بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور میں نے ایک صحیح اور سچی بات کہی تھی،وہ سن کر بادشاہ نے مجھے2 سونے کے سکے انعام میں دئیے جنہیں پا کر مجھے بہت خوشی ہوئی ۔ پہلے فقیر نے دوسرے سے کہا ’’کیا تمہیں پپیتا پسند ہے؟‘‘دوسرا فقیر جسے دولت سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی وہ لالچی تھا کہنے لگا کہ ہاں مجھے پپیتا پسند ہے۔پہلا فقیر یہ سن کر کہتا ہے ’’تو تم یہ خرید لو۔‘‘دوسرا فقیر دونوں سونے کے سکوں کے بدلے میں وہ پپیتا خرید لیتا ہے۔پہلا فقیر سونے کا سکہ پا کر بہت خوش ہوتا ہے اور وہاں سے چلا جاتا ہے۔دوسرا فقیر جب اپنے گھر لوٹتا ہے اور پپیتا کاٹتا ہے تو اس میں سے ہیرے جواہرات نکلتے ہیں۔وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کا انعام خدا نے دیدیا ہے۔جب کہ پہلا لالچی اور خوشامدی فقیر چند ہی دن میں پورے پیسے اڑا کر دوبارہ بادشاہ کے محل میں بھیک مانگنے جاتا ہے۔جیسے ہی بادشاہ اس کو دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ’’اے فقیر میں نے تو تیری بات سن کر خوشی میں تجھے ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا پپیتا دیا تھا،کیا ہوا کہ تو پھر سے بھیک مانگنے لگا؟‘‘جواب میں پہلا فقیر دوسرے فقیر کو ملنے اور سونے کے سکوں کے بدلے اپنا پپیتا بیچنے کی ساری بات بادشاہ کو کہہ سناتا ہے۔یہ سن کر بادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اس نے دوسرے فقیر کو محل میں طلب کیا اور پوچھاکہ پپیتا کاٹنے پر اس میں سے کیا نکلا؟ دوسرے فقیر نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا اور یہ بھی کہا کہ’’میں نے یہ پپیتا اس لیے فقیر کو واپس نہیں کیا کہ میں نے سن رکھا تھا بادشاہوں کے سامنے حق بات کہنے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انعام سے نوازتا ہے۔اس لیے میں سمجھ گیا کہ پپیتے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھے انعام عطا کیا ہے۔یہ سن کر بادشاہ کی عقل سے بھی پردہ اٹھ گیا،اورا س نے معافی مانگ کر دل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تکبر نکال دیا۔
پیارے بچو ہمیں اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ ہمارے سامنے چاہے زمانے کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو حق بات کہنے سے کبھی نہیں گھبرانا چاہیے ، اور یاد رکھیں کہ لالچ صرف بُری نہیں بلکہ بہت بُری بلا ہے۔
دور کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ بڑا رحم دل اور رعایا پرور تھا۔جو بھی اس کے پاس آتا وہ اسے کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتا۔
اگر کسی کو کوئی پریشانی ہوتی تو بادشاہ خود اسے حل کرنے کی کوشش کرتا۔غریبوں اور مجبوروں کا بہت خیال رکھتا۔اسی وجہ سے ملک کے لوگ اپنے بادشاہ سے بے حد خوش تھے اور اسے بے انتہا پیار کرتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ میں غرور سمانے لگا۔وہ اپنی جھوٹی تعریف سن کر خوش ہونے لگا۔جب یہ خبر عام ہوئی تو ایک دن بادشاہ کے محل میں ایک لالچی اور خوشامدی فقیر آیا۔اس فقیر نے بادشاہ کے محل میں جا کر بادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہوئے صدا لگانا شروع کر دی کہ’’ہمارا بادشاہ بڑا سخی ہے جو کوئی نہ دے پائے وہ بادشاہ سلامت دے۔‘‘بادشاہ کو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی۔اس نے فقیر کو ایک پپیتا انعام میں دے کر رخصت کیا۔فقیر نے پپیتا لیا اور منہ لٹکائے واپس آگیا۔اسے یہ انعام پا کر ذرہ برابر بھی خوشی نہیں ہوئی تھی۔جونہی پہلا فقیر محل سے نکلا ایک اور فقیر محل میں داخل ہوا اور اس نے حق بات کی صد ا لگانا شروع کر دی’’جو اللہ دے وہ کوئی نہ دے پائے نہ ہی ہمارے بادشاہ‘‘فقیر کی یہ بات بادشاہ کو ناگوار گزری،لیکن چونکہ وہ عام رعایا میں رحم دل اور سخی مشہور تھا اس لیے محل میں آئے ہوئے فقیر کو خالی ہاتھ واپس لوٹانا اس نے مناسب نہ جانا اور اسے 2سونے کے سکے دے کر محل سے رخصت کر دیا۔دوسرا فقیر 2سونے کے سکے پا کر بھی بے حد خوش ہوا۔اتفاق سے محل سے واپسی پر دونوں فقیروں کی ملاقات بازار میں ہو گئی۔پہلا فقیر بہت زیادہ دکھی نظر آ رہا تھا۔ دوسرے فقیر نے پوچھا دوست تم اتنے دکھی کیوں ہو؟تو پہلے فقیر نے جواب دیا’’میں بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور اس کی تعریف بھی کی تو اس نے انعام میں مجھے صرف یہ پپیتا دے دیا جو میرے کسی کام کا نہیں ہے ۔‘‘دوسرے فقیر نے کہا میں بھی بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور میں نے ایک صحیح اور سچی بات کہی تھی،وہ سن کر بادشاہ نے مجھے2 سونے کے سکے انعام میں دئیے جنہیں پا کر مجھے بہت خوشی ہوئی ۔ پہلے فقیر نے دوسرے سے کہا ’’کیا تمہیں پپیتا پسند ہے؟‘‘دوسرا فقیر جسے دولت سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی وہ لالچی تھا کہنے لگا کہ ہاں مجھے پپیتا پسند ہے۔پہلا فقیر یہ سن کر کہتا ہے ’’تو تم یہ خرید لو۔‘‘دوسرا فقیر دونوں سونے کے سکوں کے بدلے میں وہ پپیتا خرید لیتا ہے۔پہلا فقیر سونے کا سکہ پا کر بہت خوش ہوتا ہے اور وہاں سے چلا جاتا ہے۔دوسرا فقیر جب اپنے گھر لوٹتا ہے اور پپیتا کاٹتا ہے تو اس میں سے ہیرے جواہرات نکلتے ہیں۔وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کا انعام خدا نے دیدیا ہے۔جب کہ پہلا لالچی اور خوشامدی فقیر چند ہی دن میں پورے پیسے اڑا کر دوبارہ بادشاہ کے محل میں بھیک مانگنے جاتا ہے۔جیسے ہی بادشاہ اس کو دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ’’اے فقیر میں نے تو تیری بات سن کر خوشی میں تجھے ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا پپیتا دیا تھا،کیا ہوا کہ تو پھر سے بھیک مانگنے لگا؟‘‘جواب میں پہلا فقیر دوسرے فقیر کو ملنے اور سونے کے سکوں کے بدلے اپنا پپیتا بیچنے کی ساری بات بادشاہ کو کہہ سناتا ہے۔یہ سن کر بادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اس نے دوسرے فقیر کو محل میں طلب کیا اور پوچھاکہ پپیتا کاٹنے پر اس میں سے کیا نکلا؟ دوسرے فقیر نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا اور یہ بھی کہا کہ’’میں نے یہ پپیتا اس لیے فقیر کو واپس نہیں کیا کہ میں نے سن رکھا تھا بادشاہوں کے سامنے حق بات کہنے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انعام سے نوازتا ہے۔اس لیے میں سمجھ گیا کہ پپیتے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھے انعام عطا کیا ہے۔یہ سن کر بادشاہ کی عقل سے بھی پردہ اٹھ گیا،اورا س نے معافی مانگ کر دل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تکبر نکال دیا۔
پیارے بچو ہمیں اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ ہمارے سامنے چاہے زمانے کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو حق بات کہنے سے کبھی نہیں گھبرانا چاہیے ، اور یاد رکھیں کہ لالچ صرف بُری نہیں بلکہ بہت بُری بلا ہے۔