I
intelligent086
Guest
کاہل تتلیاں ۔۔۔۔ تحریر : نعمان خان
جنگل میں ایک بڑے سے پیڑ کی شاخ پر دو تتلیاں چھوٹا سا نہایت خوبصورت گھر بنا کر رہ رہی تھیں۔یہ دونوں بہنیں تھیں جن میں سے ایک کا نام سونا اور دوسری کا نام مونا تھا۔یو ں تو دونوں بہنوں میں بہت پیار تھا اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا وقت گزار رہی تھیں،لیکن ان میں ایک بُرائی تھی کہ وہ دونوں نہایت سُست تھیں۔یہ رات دیر تک جاگتی رہتیں اور دن چڑھے تک سونا ان کا معمول تھا۔
اس طرح وہ اپنے لیے خوراک کا انتظام کرنے میں بھی ناکام رہتی تھیں۔شام کو جب انہیں بھوک محسوس ہوتی تو وہ آس پاس موجود اپنی سہیلیوں کے گھروں میں جا کر کھانا مانگ لیتیں اور یوں گزارا کر لیتیں۔ان کی چند قریبی دوستوں نے انہیں اکثر سمجھایا بھی تھا کہ زندگی گزارنے کا یہ طریقہ قطعی ٹھیک نہیں ہے۔رات دیر تک جاگنا اور دوپہر تک سوتے رہنا نہ صرف صحت کے لیے بُرا ہے بلکہ اس طرح کسی کام میں بھی برکت نہیں رہتی اور کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہو پاتا۔اس کے علاوہ روز، روز کسی کے گھر کھانے کے لیے جانا بھی بُری عادت ہے۔بے شک ضرورت کے وقت دوست ہی ایک دوسرے کے کام آتے ہیں لیکن کاہلی کے سبب محنت نہ کرنے اور دوسروں سے مانگ کر کھانے میں اپنی عزت چلی جاتی ہے۔
سونا اور مونا اپنی سہیلیوں کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑا دیا کرتیں۔ان دونوں کو اپنا آرام بے حد پیارا تھا ۔سونا اپنی بہن مونا کو کام کہتی جبکہ مونا کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اورچھوٹی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سونا کو وہی کام کرنے کے لیے کہتی۔دونوں میں یونہی نوک جھونک چلتی رہتی لیکن کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہ ہوتی۔
دن یونہی گزرتے جا رہے تھے اور گرمیاں ختم ہونے کے قریب آ گئیں۔اب چند ہی روز بعد سردیوں کا آغاز ہونے والا تھا اور اس سے پہلے پہلے سب تتلیاں اپنے گھروں میں خوراک ذخیرہ کر رہی تھیں،تا کہ سردیوں میں انہیں باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے اور موسم خراب ہونے کی صورت میں بھی ان کے پاس خوراک کا ذخیرہ موجود ہو۔خوراک کی تلاش میں نکلتے ہوئے سونا اور مونا کی سہیلیوں نے ان کے دروازے پر بھی دستک دی۔کئی بار دروازہ بجانے کے بعد مونا نے نیند بھری آنکھوں سے دروازہ کھولا تو باہر تتلیوں کا گروہ دیکھ کر بیزار سی شکل بنا کے پوچھنے لگی’’اتنی صبح صبح بھلا کیا مصیبت آ گئی ہے‘‘؟
جس پر جواب میں اس کی سہیلیاں کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بولیں’’ارے!کہاں کی صبح،اب تو دن کے سات بج رہے ہیں۔وہ دیکھو سورج سر پر آ گیا ہے‘‘۔
مونا کی بیزاری میں پھر بھی کوئی کمی نہ آئی اور وہ جمائی لیتے ہوئے بولی’’بتائو کیا کام پڑ گیا اس وقت‘‘؟اس کی سہیلیاں بولیں’’ہم سب سردیوں کے لیے خوراک اکٹھی کرنے جا رہی ہیں تو سوچا تم دونوں کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ سردیوں کے دنوں میں جب درختوں پر برف پڑتی ہے تو گھر سے باہر نکلنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔
تتلیوں کی بات سن کر مونا بولی’’ارے!ابھی تو سردیاں آنے میں کئی روز باقی ہیں،میں رات بہت دیر سے سوئی تھی۔اس لیے فوراً تم لوگوں کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہے،لیکن بے فکر رہو میں جلد ہی سونا کے ساتھ مل کر خوراک ذخیرہ کر لوں گی‘‘۔مونا کی بات سن کر اس کی سہیلیوں نے مزید اصرا ر کرنا مناسب نہ سمجھا اور ہنستی کھیلتی آگے بڑھ گئیں۔سونا اور مونا کی بے فکری اور کاہلی میں دن یونہی گزر گئے اور سردیوں کے موسم کا آغا ز ہو گیا۔چند دن تو وہ اپنے لیے یہاں وہاں سے خوراک اکٹھی کر کے گزارہ کرتی رہیں ،لیکن شدید ٹھنڈے دنوں کے لیے انہوں نے کوئی انتظام نہ کیا۔
ایک روز ان کی آنکھ کھُلی تو دن آدھے سے زیادہ گزر چکا تھا،اور باہر شدید برف باری ہو رہی تھی۔یہ دیکھ کر وہ واپس بستروں میں گھس گئیں اور ارادہ کیا کہ برف باری رُکتے ہی وہ آج زیادہ سی خوراک جمع کر کے لے آئیں گی،لیکن دن سے شام اور پھر شام کے بعد رات ہو گئی۔برف باری مسلسل جاری رہی۔اب انہیں شدید بھوک محسوس ہونے لگی تھی،لیکن ایسی ٹھنڈ میں وہ گھر سے باہر قدم نکالتیں تو ٹھنڈ سے ہی مر جاتیں،اس لیے وہ کسی سہیلی کی طرف بھی نہیں جا پا رہی تھیں۔جیسے تیسے کر کے انہوں نے رات تو گزار لی لیکن اگلا دن شروع ہو گیا اور برف باری جوں کی توں جاری تھی۔اب انہیں فکر کے ساتھ ساتھ شدید بھو ک بھی ستانے لگی تھی۔دونوں بہنیں سردی سے بچنے کے لیے ایک ہی بستر میں دُبکی ہوئی تھیں اور ایک ،دوسرے کو گلے لگائے آنسو بہا رہی تھیں۔افسردہ لہجے میں دونوں ایک دوسرے سے کہہ رہی تھیں کہ کاش ! انہوں نے اپنی سہیلیوں کی بات سن لی ہوتی اور اس قدر کاہلی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو آج بھوک سے ان کی جان نہ نکل رہی ہوتی۔
آخر کار برف باری تو اگلے روز رُک گئی لیکن سونا اور مونا کو محنت میں عظمت کا بہترین سبق سکھا گئی۔
جنگل میں ایک بڑے سے پیڑ کی شاخ پر دو تتلیاں چھوٹا سا نہایت خوبصورت گھر بنا کر رہ رہی تھیں۔یہ دونوں بہنیں تھیں جن میں سے ایک کا نام سونا اور دوسری کا نام مونا تھا۔یو ں تو دونوں بہنوں میں بہت پیار تھا اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا وقت گزار رہی تھیں،لیکن ان میں ایک بُرائی تھی کہ وہ دونوں نہایت سُست تھیں۔یہ رات دیر تک جاگتی رہتیں اور دن چڑھے تک سونا ان کا معمول تھا۔
اس طرح وہ اپنے لیے خوراک کا انتظام کرنے میں بھی ناکام رہتی تھیں۔شام کو جب انہیں بھوک محسوس ہوتی تو وہ آس پاس موجود اپنی سہیلیوں کے گھروں میں جا کر کھانا مانگ لیتیں اور یوں گزارا کر لیتیں۔ان کی چند قریبی دوستوں نے انہیں اکثر سمجھایا بھی تھا کہ زندگی گزارنے کا یہ طریقہ قطعی ٹھیک نہیں ہے۔رات دیر تک جاگنا اور دوپہر تک سوتے رہنا نہ صرف صحت کے لیے بُرا ہے بلکہ اس طرح کسی کام میں بھی برکت نہیں رہتی اور کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہو پاتا۔اس کے علاوہ روز، روز کسی کے گھر کھانے کے لیے جانا بھی بُری عادت ہے۔بے شک ضرورت کے وقت دوست ہی ایک دوسرے کے کام آتے ہیں لیکن کاہلی کے سبب محنت نہ کرنے اور دوسروں سے مانگ کر کھانے میں اپنی عزت چلی جاتی ہے۔
سونا اور مونا اپنی سہیلیوں کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑا دیا کرتیں۔ان دونوں کو اپنا آرام بے حد پیارا تھا ۔سونا اپنی بہن مونا کو کام کہتی جبکہ مونا کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اورچھوٹی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سونا کو وہی کام کرنے کے لیے کہتی۔دونوں میں یونہی نوک جھونک چلتی رہتی لیکن کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہ ہوتی۔
دن یونہی گزرتے جا رہے تھے اور گرمیاں ختم ہونے کے قریب آ گئیں۔اب چند ہی روز بعد سردیوں کا آغاز ہونے والا تھا اور اس سے پہلے پہلے سب تتلیاں اپنے گھروں میں خوراک ذخیرہ کر رہی تھیں،تا کہ سردیوں میں انہیں باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے اور موسم خراب ہونے کی صورت میں بھی ان کے پاس خوراک کا ذخیرہ موجود ہو۔خوراک کی تلاش میں نکلتے ہوئے سونا اور مونا کی سہیلیوں نے ان کے دروازے پر بھی دستک دی۔کئی بار دروازہ بجانے کے بعد مونا نے نیند بھری آنکھوں سے دروازہ کھولا تو باہر تتلیوں کا گروہ دیکھ کر بیزار سی شکل بنا کے پوچھنے لگی’’اتنی صبح صبح بھلا کیا مصیبت آ گئی ہے‘‘؟
جس پر جواب میں اس کی سہیلیاں کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بولیں’’ارے!کہاں کی صبح،اب تو دن کے سات بج رہے ہیں۔وہ دیکھو سورج سر پر آ گیا ہے‘‘۔
مونا کی بیزاری میں پھر بھی کوئی کمی نہ آئی اور وہ جمائی لیتے ہوئے بولی’’بتائو کیا کام پڑ گیا اس وقت‘‘؟اس کی سہیلیاں بولیں’’ہم سب سردیوں کے لیے خوراک اکٹھی کرنے جا رہی ہیں تو سوچا تم دونوں کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ سردیوں کے دنوں میں جب درختوں پر برف پڑتی ہے تو گھر سے باہر نکلنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔
تتلیوں کی بات سن کر مونا بولی’’ارے!ابھی تو سردیاں آنے میں کئی روز باقی ہیں،میں رات بہت دیر سے سوئی تھی۔اس لیے فوراً تم لوگوں کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہے،لیکن بے فکر رہو میں جلد ہی سونا کے ساتھ مل کر خوراک ذخیرہ کر لوں گی‘‘۔مونا کی بات سن کر اس کی سہیلیوں نے مزید اصرا ر کرنا مناسب نہ سمجھا اور ہنستی کھیلتی آگے بڑھ گئیں۔سونا اور مونا کی بے فکری اور کاہلی میں دن یونہی گزر گئے اور سردیوں کے موسم کا آغا ز ہو گیا۔چند دن تو وہ اپنے لیے یہاں وہاں سے خوراک اکٹھی کر کے گزارہ کرتی رہیں ،لیکن شدید ٹھنڈے دنوں کے لیے انہوں نے کوئی انتظام نہ کیا۔
ایک روز ان کی آنکھ کھُلی تو دن آدھے سے زیادہ گزر چکا تھا،اور باہر شدید برف باری ہو رہی تھی۔یہ دیکھ کر وہ واپس بستروں میں گھس گئیں اور ارادہ کیا کہ برف باری رُکتے ہی وہ آج زیادہ سی خوراک جمع کر کے لے آئیں گی،لیکن دن سے شام اور پھر شام کے بعد رات ہو گئی۔برف باری مسلسل جاری رہی۔اب انہیں شدید بھوک محسوس ہونے لگی تھی،لیکن ایسی ٹھنڈ میں وہ گھر سے باہر قدم نکالتیں تو ٹھنڈ سے ہی مر جاتیں،اس لیے وہ کسی سہیلی کی طرف بھی نہیں جا پا رہی تھیں۔جیسے تیسے کر کے انہوں نے رات تو گزار لی لیکن اگلا دن شروع ہو گیا اور برف باری جوں کی توں جاری تھی۔اب انہیں فکر کے ساتھ ساتھ شدید بھو ک بھی ستانے لگی تھی۔دونوں بہنیں سردی سے بچنے کے لیے ایک ہی بستر میں دُبکی ہوئی تھیں اور ایک ،دوسرے کو گلے لگائے آنسو بہا رہی تھیں۔افسردہ لہجے میں دونوں ایک دوسرے سے کہہ رہی تھیں کہ کاش ! انہوں نے اپنی سہیلیوں کی بات سن لی ہوتی اور اس قدر کاہلی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو آج بھوک سے ان کی جان نہ نکل رہی ہوتی۔
آخر کار برف باری تو اگلے روز رُک گئی لیکن سونا اور مونا کو محنت میں عظمت کا بہترین سبق سکھا گئی۔
Kahil Titliyan BY Nauman Khan