Kakarstan Ka Badshah (Part-1-2) By Aatir Shaheen

I

intelligent086

Guest
کاکارستان کا بادشاہ (پہلی - دوسری قسط) ۔۔۔ عاطر شاہین

karkastan-ka-badshah-jpg.jpg

ملک کاکارستان کا بادشاہ بہت ہی ظالم اور لالچی انسان تھا۔ کاکارستان کی ساری عوام اس سے تنگ تھی۔ گائوں کا کوئی بھی شخص اس سے خوش نہیں تھا۔ لوگوں سے ظلم و زیادتی کرنا اور ان کے حقوق چھیننا بادشاہ کی عادت تھی۔
یہاں تک کہ اس نے کھانے پینے کی ساری اشیاء مہنگی کر رکھی تھیں۔ لوگ سستی سے سستی چیز بھی نہیں خرید سکتے تھے۔ غریب عوام بڑی مشکل سے دو وقت کا کھانا کھا سکتی تھی۔ عوام میں سے جو بھی بادشاہ کے خلاف بولتا وہ اسے بیدردی سے قتل کروا دیتا۔

بادشاہ کا ظلم صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ جانور اور پرندے بھی اس کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے۔ بادشاہ بہت بڑا شکاری بھی تھا۔ وہ روز شام کو معصوم پرندوں اور جانوروں کے شکار کے لیے نکلتا۔ جو جانور و پرندہ اسے نظر آتا وہ اسے وہیں مار دیتا۔ محض اپنا شوق پورا کرنے کے لیے ان معصوموں کی جانیں لیتا ۔وہ یہ نہیں سوچتا تھا کہ ان معصوموں کو بھی اپنی زندگی پیاری ہے۔

وقت یوں ہی گزرتا گیا۔ ایک دن بادشاہ نے حسبِ معمول اپنے وزیر سے کہا’’ ہماری سواری تیار کی جائے ہم سیر و تفریح اور شکار کے لیے جانا چاہتے ہیں۔‘‘

وزیر نے حکم سنتے ہی اس پر عمل کیا۔ بادشاہ چار پہیوں والی تانگا گاڑی پر بیٹھ کر سیر کے لیے نکلا۔ اس کے ساتھ چار سپاہی بھی تھے۔ بادشاہ حسبِ معمول پرندوں اور جانوروں کا شکار کرتا گیا۔ وہ سیر و شکار کرتے کرتے بہت دور نکل گئے۔ شام ہو گئی وزیر بھی بادشاہ کے ساتھ تھا۔ اس نے کہا

’’ بادشاہ سلامت اندھیرا ہو گیا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ رات ہو جائے ہمیں واپس چلنا چاہیے۔‘‘

بادشاہ نے کہا’’ ٹھیک ہے۔‘‘

وہ سب واپس مڑے تو دور سے بادشاہ کو دو شیر آتے دکھائی دیئے۔ بادشاہ نے خوش ہو کر وزیر سے کہا

’’آج تو شکار میں مزہ آئے گا۔ دو شیر اور وہ بھی ایک ساتھ۔‘‘


شیر جب قریب آگئے تو بادشاہ نے ترکش میں ہاتھ ڈال کر تیر نکالنا چاہا لیکن اس کے پاس ایک تیر بھی نہیں بچا تھا۔ شکار کرتے کرتے اس کے سارے تیر ختم ہو گئے تھے۔ بادشاہ پریشان ہو گیا، تاہم اس نے سپاہیوں سے کہا

’’جلدی سے اپنی تلواریں نکالو۔‘‘

سارے سپاہیوں نے اپنی تلواریں نکالیں لیکن شیر اتنے قریب آگئے تھے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی تلوار نہیں چلا سکا۔ شیروں کی دہشت سے ان کے ہاتھ پائوں کانپنے لگے۔ ان کے ہاتھوں سے تلواریں گر گئیں۔ بادشاہ تو دور سے صرف تیروں سے ہی شیر وغیرہ کا شکار کرتا تھا لیکن جب یہ شیر قریب آگئے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ شیروں نے قریب آکر بڑے زور سے ان پر حملہ کر دیا اور بادشاہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ نکلا البتہ سپاہی اور وزیر وہیں شیروں کا نوالہ بن گئے۔ شیر انہیں کھا کر بادشاہ کی طرف لپکے۔ بادشاہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔ اس کی سانس پھول گئی تھی۔ وہ کبھی زندگی میں اس طرح اپنی جان بچانے کے لیے نہیں بھاگا تھا۔ جنگل میں سناٹا چھایا ہوا تھااورہر طرف اندھیرا تھا۔ چرند و پرند سب اپنے اپنے ٹھکانوں میں سوگئے تھے صرف اس کے اور شیروں کے بھاگنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔بھاگتے بھاگتے بادشاہ کا پائوں پھسلا اور وہ بہت گہرے اور بڑے گڑھے میں جا گرا۔ شیر بھی اس کے پیچھے تھے۔ وہ بھی اس گڑھے میں جا گرے۔ گڑھے میں گرنے کی وجہ سے بادشاہ کو چوٹ لگی۔ وہ اپنے کپڑے صاف کرتے ہوئے اٹھا تو سامنے ان شیروں کو پایا۔ اس گڑھے سے اکیلے اپنے آپ نکلنا ناممکن تھا،اس لیے وہ بے حد گھبرا گیا ۔اس کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور اس پر کپکپی سی طاری ہو گئی۔اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہو گا۔

’’مم…مم… مجھے چھوڑ دو… مجھے کھانے سے تمہیں کیا ملے گا؟‘‘ بادشاہ نے ہکلاتے ہوئے ان شیروں سے کہا لیکن شیربھلا کہاں اس کی بات سمجھ سکتے تھے۔ ان کی دھاڑوں سے جنگل کی فضا گونج رہی تھی۔بادشاہ اور شیروں کے درمیان صرف چند فٹ کا فاصلہ تھا۔ دونوں شیر غراتے ہوئے اس کے قریب آتے جا رہے تھے اور بادشاہ پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔ بادشاہ نے اپنے قریب ایک لکڑی پڑی دیکھی تو اس نے وہ اٹھا لی، لیکن وہ شیروں کو مارنے کے لیے بالکل ہلکی تھی۔ خوش قسمتی سے بادشاہ کے لباس کی جیب میں ماچس موجود تھی۔(جاری ہے)


 
Top Bottom