I
intelligent086
Guest
کنجوس کا گھڑا .... انعم خالد
بہت پُرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں ایک نعمان نامی انتہائی کنجوس آدمی رہتا تھا۔اس کے پاس بے حد دولت تھی جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک روپیہ تک خرچ کرنا گوارا نہیں کرتا تھا۔اس کی بیوی علیشبہ ہر وقت اسے سمجھاتی تھی کہ اتنے کنجوس مت بنا کرو۔
ایک دن وہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اچانک مر گیا تو اس کی اتنی ساری دولت کا کیا ہو گا۔میری ساری دولت اور زمین پر تو لوگ قبضہ کر لیں گے۔اس خیال کے آتے ہی اس نے اپنی ساری دولت ایک گھڑے میں جمع کرنی شرو ع کر دی۔یہاں تک کہ اس نے اپنی زمین بھی بیچ دی اور اس رقم کو بھی سونے کے سکوں کی شکل میں جمع کر لیا اور اپنے گھر کے صحن میں دفن کر دیا۔اب وہ اس خیال سے مطمئن ہو گیا کہ اس کی دولت بالکل محفوظ ہے اور اسے کوئی خرچ نہیں کر سکتا،مگر اب اسے یہ پریشانی تھی کہ اس کی گزر اوقات کیسے ہو گی۔
تب کنجوس آدمی نے لوگوں سے جھوٹ بولنا شرو ع کر دیا کہ اس کے گھر میں چوری ہو گئی ہے،اور سارا مال چور لے گئے ہیں۔اس کے پاس کھانے تک کے پیسے نہیں ہیں۔لوگوں نے اس پر ترس کھا کر اسے کھانا دینا شرو ع کر دیا۔ کنجوس کو اور بھی مزہ آنے لگا اوروہ سوچنے لگا کہ اب تو اسے کام کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے،اور وہ اپنی باقی کی زندگی لوگوں سے مفت کھا پی کر ہی گزار لے گا،لیکن اس کی یہ خواہش زیادہ دن تک پوری نہ ہو سکی۔ایک دن بہت تیز بارش ہوئی اور گائوں کے تمام گھروں میں پانی جمع ہو نے لگا،کنجوس نعمان کے گھر میں بھی پانی جمع ہونے لگا تو اس نے اپنے صحن کی کھدائی شروع کر دی تا کہ وہ اپنے سونے کے سکوں کے گھڑے کو محفوظ رکھ سکے،مگر بارش اتنی تیز تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پانی پورے صحن میں جمع ہو گیا۔وہ اپنی جان بچانے کے لیے گھر کے اندر چلا گیا۔جب بارش کم ہوئی تو وہ صحن میں آیا اور آ کر کیا دیکھتا ہے کہ جہاں اس نے گھڑا دفن کیا تھا وہاں اب کچھ بھی نہیں تھا۔وہ روتا ہوا ادھر اُدھر ڈھونڈنے لگا مگر اسے کہیں اپنا گھڑا نہ ملا،اور شام پڑنے پر آخر کار وہ تھک کر گھر واپس آ گیا۔
اتفاق سے اس کا سونے کا گھڑا پانی میں بہتا ہوا ایک کسان کے کھیت میں چلا گیا۔کسان اس وقت کھیت میں کام کر رہا تھا۔اس کی نظر جب گھڑے پر پڑی تو وہ بہت حیران ہوا اور پریشان بھی کہ آخر یہ کس کی دولت ہے؟شیطان نے اسے بہت بہکانے کی کوشش کی کہ تم یہ سارے سکے رکھ لو ،تم یہاں اکیلے ہو اور کوئی بھی تمہیں نہیں دیکھ رہا،مگر کسان دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ’’کوئی بھی نہ دیکھے مگر اللہ تو مجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔اگلے دن اس نے گائوں میں آ کر اعلان کیا کہ یہ گھڑا جس کا بھی ہو آ کر لے جائے۔اعلان سن کر سب لوگ اس گھڑے کو دیکھنے کے لیے آئے۔جیسے ہی کنجوس نعمان کو پتہ چلاوہ بھی بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا’’یہ میرا گھڑا ہے‘‘۔گائوں کے تمام لوگ کافی ناراض ہوئے کہ تم نے تو کہا تھا تمہارا سارا مال چوری ہو گیا ہے۔تب کنجوس آدمی نے ساری بات لوگوں کو بتائی،تو سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس گھڑے کے آدھے سکے اس کسان کو دے دئیے جائیں۔جیسے ہی کنجوس نعمان نے لوگوں کا فیصلہ سناکہ اس کی دولت کا آدھا حصہ کسان کو ملنے لگا ہے،اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دل کا دورہ پڑنے سے خدا کو پیارا ہو گیا۔نعمان کے مرنے کے بعد گائوں کے لوگوں نے باقی کا آدھے گھڑے کا حقدار بھی کسان کو ٹھہرا دیا۔
یوں ایک کنجوس انسان کو اس کی کنجوسی کی سزا مل گئی اور ایک ایماندار آدمی کو اس کی ایمانداری کا صلہ مل گیا۔کنجوس نعمان کی بیوی نے بھی اس کے مرنے کے بعد کسان جیسے ایماندار آدمی سے شادی کر لی۔اسی لیے کہتے ہیں’’لالچ بُری بلا ہے‘‘۔
بہت پُرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں ایک نعمان نامی انتہائی کنجوس آدمی رہتا تھا۔اس کے پاس بے حد دولت تھی جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک روپیہ تک خرچ کرنا گوارا نہیں کرتا تھا۔اس کی بیوی علیشبہ ہر وقت اسے سمجھاتی تھی کہ اتنے کنجوس مت بنا کرو۔
ایک دن وہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اچانک مر گیا تو اس کی اتنی ساری دولت کا کیا ہو گا۔میری ساری دولت اور زمین پر تو لوگ قبضہ کر لیں گے۔اس خیال کے آتے ہی اس نے اپنی ساری دولت ایک گھڑے میں جمع کرنی شرو ع کر دی۔یہاں تک کہ اس نے اپنی زمین بھی بیچ دی اور اس رقم کو بھی سونے کے سکوں کی شکل میں جمع کر لیا اور اپنے گھر کے صحن میں دفن کر دیا۔اب وہ اس خیال سے مطمئن ہو گیا کہ اس کی دولت بالکل محفوظ ہے اور اسے کوئی خرچ نہیں کر سکتا،مگر اب اسے یہ پریشانی تھی کہ اس کی گزر اوقات کیسے ہو گی۔
تب کنجوس آدمی نے لوگوں سے جھوٹ بولنا شرو ع کر دیا کہ اس کے گھر میں چوری ہو گئی ہے،اور سارا مال چور لے گئے ہیں۔اس کے پاس کھانے تک کے پیسے نہیں ہیں۔لوگوں نے اس پر ترس کھا کر اسے کھانا دینا شرو ع کر دیا۔ کنجوس کو اور بھی مزہ آنے لگا اوروہ سوچنے لگا کہ اب تو اسے کام کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے،اور وہ اپنی باقی کی زندگی لوگوں سے مفت کھا پی کر ہی گزار لے گا،لیکن اس کی یہ خواہش زیادہ دن تک پوری نہ ہو سکی۔ایک دن بہت تیز بارش ہوئی اور گائوں کے تمام گھروں میں پانی جمع ہو نے لگا،کنجوس نعمان کے گھر میں بھی پانی جمع ہونے لگا تو اس نے اپنے صحن کی کھدائی شروع کر دی تا کہ وہ اپنے سونے کے سکوں کے گھڑے کو محفوظ رکھ سکے،مگر بارش اتنی تیز تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پانی پورے صحن میں جمع ہو گیا۔وہ اپنی جان بچانے کے لیے گھر کے اندر چلا گیا۔جب بارش کم ہوئی تو وہ صحن میں آیا اور آ کر کیا دیکھتا ہے کہ جہاں اس نے گھڑا دفن کیا تھا وہاں اب کچھ بھی نہیں تھا۔وہ روتا ہوا ادھر اُدھر ڈھونڈنے لگا مگر اسے کہیں اپنا گھڑا نہ ملا،اور شام پڑنے پر آخر کار وہ تھک کر گھر واپس آ گیا۔
اتفاق سے اس کا سونے کا گھڑا پانی میں بہتا ہوا ایک کسان کے کھیت میں چلا گیا۔کسان اس وقت کھیت میں کام کر رہا تھا۔اس کی نظر جب گھڑے پر پڑی تو وہ بہت حیران ہوا اور پریشان بھی کہ آخر یہ کس کی دولت ہے؟شیطان نے اسے بہت بہکانے کی کوشش کی کہ تم یہ سارے سکے رکھ لو ،تم یہاں اکیلے ہو اور کوئی بھی تمہیں نہیں دیکھ رہا،مگر کسان دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ’’کوئی بھی نہ دیکھے مگر اللہ تو مجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔اگلے دن اس نے گائوں میں آ کر اعلان کیا کہ یہ گھڑا جس کا بھی ہو آ کر لے جائے۔اعلان سن کر سب لوگ اس گھڑے کو دیکھنے کے لیے آئے۔جیسے ہی کنجوس نعمان کو پتہ چلاوہ بھی بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا’’یہ میرا گھڑا ہے‘‘۔گائوں کے تمام لوگ کافی ناراض ہوئے کہ تم نے تو کہا تھا تمہارا سارا مال چوری ہو گیا ہے۔تب کنجوس آدمی نے ساری بات لوگوں کو بتائی،تو سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس گھڑے کے آدھے سکے اس کسان کو دے دئیے جائیں۔جیسے ہی کنجوس نعمان نے لوگوں کا فیصلہ سناکہ اس کی دولت کا آدھا حصہ کسان کو ملنے لگا ہے،اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دل کا دورہ پڑنے سے خدا کو پیارا ہو گیا۔نعمان کے مرنے کے بعد گائوں کے لوگوں نے باقی کا آدھے گھڑے کا حقدار بھی کسان کو ٹھہرا دیا۔
یوں ایک کنجوس انسان کو اس کی کنجوسی کی سزا مل گئی اور ایک ایماندار آدمی کو اس کی ایمانداری کا صلہ مل گیا۔کنجوس نعمان کی بیوی نے بھی اس کے مرنے کے بعد کسان جیسے ایماندار آدمی سے شادی کر لی۔اسی لیے کہتے ہیں’’لالچ بُری بلا ہے‘‘۔