I
intelligent086
Guest
خود غرض دوست ۔۔۔۔۔ انعم خالد
کسی کسان کے گھر ایک چوہے نے سالوں سے اپنا بِل بنا رکھا تھا۔یہ یہاں مزے سے زندگی گزار رہا تھا۔کھانے پینے کے لیے وہ بچی کھچی چیزوں سے گزارا کر لیتاجو اسے انتہائی لذیذ معلوم ہوتیں۔
کسان کے گھر والوں کو بھی چوہے سے کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ وہ کبھی کچن میں موجود دوسری چیزوں کو خراب نہ کرتا۔کسان کا ایک چھوٹا بیٹا تھا جو نہایت شریر تھا۔اسے کیڑے مکوڑوں کو پکڑنے اور انہیں تنگ کرنے میں بے حد مزہ آتا تھا۔یونہی ایک دن کھیلتے کودتے اس کی نظر چوہے کے بِل پر پڑی تو اسکے ذہن میں شرارت کوند آئی۔وہ سوچنے لگا کہ کیوں نہ کسی طرح اس چوہے کو پکڑ کر تنگ کیا جائے۔یہ خیال آتے ہی اگلے دن را ت کو اس نے چپکے سے کچن میں ا س جگہ چوہا دانی لگا دی ،جہاں اسے یقین تھا کہ چوہا ضرور کھانے کی تلاش میں آئے گا۔کسان کے بیٹے کو یہ حرکت کرتے ہوئے چوہے نے بھی دیکھا لیا تھا اور وہ بے حد پریشان تھا کہ اس مشکل سے کیسے جان چھڑائے۔
کسان کے پاس موجود مرغا اور بکرا دونوں چوہے کے اچھے دوست تھے۔وہ باہر آتے جاتے ان سے ملاقات کرتا رہتا تھا۔چوہا سوچنے لگا کہ مشکل کا حل تلاش کرنے کے لیے اسے اپنے دوستوں کی مدد لینی چاہیے وہ ضرور کوئی حل سوچ لیں گے۔نظر بچا کر چوہا پہلے مرغے کے پاس پہنچا اور ساری صورتحال بتائی۔چوہے کی بات سن کر مرغا کہنے لگا ’’دیکھو بھائی!تم میرے اچھے دوست ہو لیکن تمہیں بچانے کی خاطر میں اپنی جان مشکل میں نہیں ڈال سکتا۔اگر چوہا دانی کو غائب کرتے ہوئے کسان کے بیٹے نے مجھے دیکھ لیا تو میرا سوپ بنا کر پی جائے گا‘‘۔مرغے کے پاس سے مایوس ہو کر چوہا منہ لٹکائے بکرے کی جانب بڑھا۔اسے امید تھی کہ بکرا ضرور اس کی کوئی نہ کوئی مدد کرے گا۔ساری بات بکرے کو بتانے کے بعد چوہا امید طلب نظروں سے اسے دیکھنے لگاتو معذرت خواہانہ انداز میں بکرا بولا’’ دوست!میں مشکلوں سے دور بھاگنے والا جانور ہوں ۔اپنے کام سے کام رکھتا ہوں ،نہ کسی کو مشکل میں ڈالتا ہوں اور نہ کسی کا مشکل میں ساتھ دے سکتا ہوں۔یوں بھی اس کام میں کافی خطرہ ہے۔مجھے افسوس ہے کہ اس معاملے میں ،میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر پائوں گا۔‘‘
بکر ے کی بات نے چوہے کا دل بُری طرح توڑ دیا ۔وہ اپنے دوستوں کے اسے روئیے سے سخت مایوس ہوا تھا۔سر جھکائے وہ خاموشی سے اپنے بِل میں آ کر لیٹ گیا،اب رات ہونے کو آئی تھی۔وہ سوچنے لگا کہ صبح شاید اسے اپنا بِل چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر جانا پڑے گا۔اتنے برسوں سے ایک جگہ رہتے ہوئے اسے اپنے بِل سے محبت ہو گئی تھی۔اس لیے اُداس دل کے ساتھ بِل کو تکتے ہوئے وہ سو گیا۔رات کو چوہے کی آواز ایک زور دار آواز سے کھلی۔جلدی سے اٹھ کر اس نے بِل سے باہرجھانک کر دیکھا تو چوہا دانی میں ایک چھوٹا سا سانپ پھنسا ہوا تھا۔جو خود کو چھڑوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔اتنے میں چوہا دانی کی آواز سن کر کسان کا بیٹا بھی بستر سے نکل آیا۔اندھیرے میں اسے سمجھ نہ آئی کہ چوہا دانی میں کیا چیز پھنسی ہے ۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر چوہا دانی اٹھانا چاہی تو سانپ نے اس کے ہاتھ پر ڈس لیا۔کسان کا بیٹا تکلیف کی شدت سے کراہنے لگا اور اس سے پہلے کہ کسان اس کی مدد کو پہنچتا وہ زمین پر گر کے بے ہوش ہو چکا تھا۔
کسان نے جلد ی سے بیٹے کو اٹھایا اور ہسپتال کی جانب دوڑا ۔جہاں ایک دو،دن داخل رہنے کے بعد کسان کا بیٹا صحت یاب ہو گیا اور اسے چھٹی دے دی گئی،لیکن ساتھ ہی ڈاکٹر نے تاکید کی کہ کمزوری دور کرنے کے لیے بچے کو صحت مند غذا دی جائے۔گھر آ کر کسان نے پہلے مرغے کو ذبح کیا اور اس کی یخنی بنا کر بیٹے کو پلائی۔اگلے دن کچھ مہمان اس کے بیٹے کی خیریت دریافت کرنے آئے تو کسان نے بکرا ذبح کر کے اس کا سالن تیار کروایا اور مہمانوں کی خاطر مدارت کی۔چوہا دانی کو کسان نے اٹھا کر گھر سے باہر دور پھینک دیا اور یوں چوہا ایک بار پھر اپنے بِل میں سکون سے رہنے لگا۔
بچو!کسی ضرورت مند کی مدد کرنا بہت بڑا ثواب ہے۔آج اگر ہم دوسروں کی مدد کریں گے تو کل کسی مشکل میں اللہ ہمارے لیے مدد بھیج دے گا۔دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنے سے اپنے راستے آسان ہونے لگتے ہیں۔
کسی کسان کے گھر ایک چوہے نے سالوں سے اپنا بِل بنا رکھا تھا۔یہ یہاں مزے سے زندگی گزار رہا تھا۔کھانے پینے کے لیے وہ بچی کھچی چیزوں سے گزارا کر لیتاجو اسے انتہائی لذیذ معلوم ہوتیں۔
کسان کے گھر والوں کو بھی چوہے سے کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ وہ کبھی کچن میں موجود دوسری چیزوں کو خراب نہ کرتا۔کسان کا ایک چھوٹا بیٹا تھا جو نہایت شریر تھا۔اسے کیڑے مکوڑوں کو پکڑنے اور انہیں تنگ کرنے میں بے حد مزہ آتا تھا۔یونہی ایک دن کھیلتے کودتے اس کی نظر چوہے کے بِل پر پڑی تو اسکے ذہن میں شرارت کوند آئی۔وہ سوچنے لگا کہ کیوں نہ کسی طرح اس چوہے کو پکڑ کر تنگ کیا جائے۔یہ خیال آتے ہی اگلے دن را ت کو اس نے چپکے سے کچن میں ا س جگہ چوہا دانی لگا دی ،جہاں اسے یقین تھا کہ چوہا ضرور کھانے کی تلاش میں آئے گا۔کسان کے بیٹے کو یہ حرکت کرتے ہوئے چوہے نے بھی دیکھا لیا تھا اور وہ بے حد پریشان تھا کہ اس مشکل سے کیسے جان چھڑائے۔
کسان کے پاس موجود مرغا اور بکرا دونوں چوہے کے اچھے دوست تھے۔وہ باہر آتے جاتے ان سے ملاقات کرتا رہتا تھا۔چوہا سوچنے لگا کہ مشکل کا حل تلاش کرنے کے لیے اسے اپنے دوستوں کی مدد لینی چاہیے وہ ضرور کوئی حل سوچ لیں گے۔نظر بچا کر چوہا پہلے مرغے کے پاس پہنچا اور ساری صورتحال بتائی۔چوہے کی بات سن کر مرغا کہنے لگا ’’دیکھو بھائی!تم میرے اچھے دوست ہو لیکن تمہیں بچانے کی خاطر میں اپنی جان مشکل میں نہیں ڈال سکتا۔اگر چوہا دانی کو غائب کرتے ہوئے کسان کے بیٹے نے مجھے دیکھ لیا تو میرا سوپ بنا کر پی جائے گا‘‘۔مرغے کے پاس سے مایوس ہو کر چوہا منہ لٹکائے بکرے کی جانب بڑھا۔اسے امید تھی کہ بکرا ضرور اس کی کوئی نہ کوئی مدد کرے گا۔ساری بات بکرے کو بتانے کے بعد چوہا امید طلب نظروں سے اسے دیکھنے لگاتو معذرت خواہانہ انداز میں بکرا بولا’’ دوست!میں مشکلوں سے دور بھاگنے والا جانور ہوں ۔اپنے کام سے کام رکھتا ہوں ،نہ کسی کو مشکل میں ڈالتا ہوں اور نہ کسی کا مشکل میں ساتھ دے سکتا ہوں۔یوں بھی اس کام میں کافی خطرہ ہے۔مجھے افسوس ہے کہ اس معاملے میں ،میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر پائوں گا۔‘‘
بکر ے کی بات نے چوہے کا دل بُری طرح توڑ دیا ۔وہ اپنے دوستوں کے اسے روئیے سے سخت مایوس ہوا تھا۔سر جھکائے وہ خاموشی سے اپنے بِل میں آ کر لیٹ گیا،اب رات ہونے کو آئی تھی۔وہ سوچنے لگا کہ صبح شاید اسے اپنا بِل چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر جانا پڑے گا۔اتنے برسوں سے ایک جگہ رہتے ہوئے اسے اپنے بِل سے محبت ہو گئی تھی۔اس لیے اُداس دل کے ساتھ بِل کو تکتے ہوئے وہ سو گیا۔رات کو چوہے کی آواز ایک زور دار آواز سے کھلی۔جلدی سے اٹھ کر اس نے بِل سے باہرجھانک کر دیکھا تو چوہا دانی میں ایک چھوٹا سا سانپ پھنسا ہوا تھا۔جو خود کو چھڑوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔اتنے میں چوہا دانی کی آواز سن کر کسان کا بیٹا بھی بستر سے نکل آیا۔اندھیرے میں اسے سمجھ نہ آئی کہ چوہا دانی میں کیا چیز پھنسی ہے ۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر چوہا دانی اٹھانا چاہی تو سانپ نے اس کے ہاتھ پر ڈس لیا۔کسان کا بیٹا تکلیف کی شدت سے کراہنے لگا اور اس سے پہلے کہ کسان اس کی مدد کو پہنچتا وہ زمین پر گر کے بے ہوش ہو چکا تھا۔
کسان نے جلد ی سے بیٹے کو اٹھایا اور ہسپتال کی جانب دوڑا ۔جہاں ایک دو،دن داخل رہنے کے بعد کسان کا بیٹا صحت یاب ہو گیا اور اسے چھٹی دے دی گئی،لیکن ساتھ ہی ڈاکٹر نے تاکید کی کہ کمزوری دور کرنے کے لیے بچے کو صحت مند غذا دی جائے۔گھر آ کر کسان نے پہلے مرغے کو ذبح کیا اور اس کی یخنی بنا کر بیٹے کو پلائی۔اگلے دن کچھ مہمان اس کے بیٹے کی خیریت دریافت کرنے آئے تو کسان نے بکرا ذبح کر کے اس کا سالن تیار کروایا اور مہمانوں کی خاطر مدارت کی۔چوہا دانی کو کسان نے اٹھا کر گھر سے باہر دور پھینک دیا اور یوں چوہا ایک بار پھر اپنے بِل میں سکون سے رہنے لگا۔
بچو!کسی ضرورت مند کی مدد کرنا بہت بڑا ثواب ہے۔آج اگر ہم دوسروں کی مدد کریں گے تو کل کسی مشکل میں اللہ ہمارے لیے مدد بھیج دے گا۔دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنے سے اپنے راستے آسان ہونے لگتے ہیں۔
Khud Gharz Dost By Anam Khalid