I
intelligent086
Guest
کوئی کام چھوٹا نہیں ۔۔۔۔۔ تحریر : انعم خالد
خرم اپنے بہن بھائیوں اور باقی کزنز میں بھی سب سے بڑا تھا۔وہ اپنے والدین،چچا اور ان کے بچوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا تھا۔سبھی بچوں کی آپس میں گہری دوستی تھی۔خرم گھر بھر کا لاڈلا بھی تھا اور سب کا ماننا تھا کہ بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ بچے جو کام خرم کو کرتے دیکھیں گے اسی کو اپنائیں گے۔اسی سوچ کے تحت انہوں نے خرم کی تربیت اور تعلیم پر خاص توجہ دی تھی،تاکہ دوسرے بچوں کے اندر بھی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہو اور خرم پڑھائی مکمل کر کے کسی اچھی کمپنی میں ملازمت کرے۔
خرم بھی نہایت سلجھا ہوا او ر سمجھدار بچہ تھا۔وہ اپنے سے چھوٹے کزنز اور بہن بھائیوں کا خوب خیال رکھتا اور انہیں پیار بھی کرتا تھا۔سکول میں بھی سب اساتذہ اس کی تعریف کرتے تھے کہ وہ خوب دل لگا کر پڑھائی کرتا ہے،لیکن اس سب کے ساتھ خر م کو ایک اورشو ق بھی تھا جسے باقی گھر کے لوگ عجیب سمجھتے تھے۔وہ اپنے ہاتھ سے کھانا بنانے کا بے حد شوقین تھا۔جب بھی گھر میں مہمانوں کی دعوت ہوتی تو وہ اپنی امی اور چاچی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ان کے ساتھ کچن میں کام کروانے کے لیے گھس جاتا اور ساتھ چھوٹی موٹی چیزیں بناتا رہتا۔وہ اپنی امی کو نہایت شوق سے کچن کا کام کرتے ہوئے دیکھا بھی کرتا تھا،اور اسی وجہ سے چھوٹی عمر میں ہی اچھا کھانا بنانا سیکھ گیا تھا۔
پہلے پہل تو گھر والوں نے اس با ت کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن جب خرم بڑا ہوا اور پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنے ابو سے کھانے کا کاروبار شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو گھر کے سب بڑوں کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی۔ا ن کا کہنا تھا کہ اگر کھانے کا ہی کام کرنا تھاتو اس قدر پڑھائی کرنے کا کیا فائدہ ہوا اور دوسرے بچے بھی کل کو اپنا مستقبل اسی طرح کے اُلٹے کاموں میں خراب کر لیں گے۔یہ سن کر خرم کے ابو بھی چپ ہو رہے ،لیکن خرم کو اپنے اوپر اعتماد تھا اور وہ کوئی دوسری ترکیب لڑانے لگا۔
اگلے ہی روز وہ اپنے دوست کے پاس مشورے کے لیے گیا اور اسے ساری بات بتائی۔خرم کی بات سن کر کاشف نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ وہ اس کی ہر ممکن مدد کرے گا۔انہوں نے ایک منصوبہ بنایا جو کچھ یوں تھا کہ روزانہ صبح سویرے خرم گھر سے نکلتا اور کاشف کے گھر جا کر بریانی کے بڑے دیگچے تیار کر کے گھر واپس آ جاتا۔جس کے بعد کاشف اپنے ملازموں کی مدد سے وہ دیگچے ایک چائے کے سٹال تک پہنچاتا اور چائے کا مالک تھوڑا سا منافع رکھ کے چائے کے ساتھ بریانی بھی بیچ دیتا۔دیکھتے ہی دیکھتے خرم کی تیار کردہ مزیدار بریانی کے چرچے ہر جانب ہونے لگے۔لوگ دور،دور سے لذیذ بریانی کا لطف لینے آنے لگی،اور خرم کے ساتھ ساتھ کاشف بھی اچھا خاصہ منافع کمانے لگا۔اُڑتی اُڑتی یہ بات خرم کے ابو تک پہنچی تو انہوں نے خر م سے اس بارے میں تصدیق کی جس کا خرم نے پورے اعتماد سے اعتراف کیا۔تب گھر کے باقی افراد کو بھی احساس ہوا کہ علم حاصل کرنا بے شک ضروری ہے لیکن دنیا میں کوئی بھی کام جو محنت سے کیا جائے وہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ایسے میں بچے اگر کوئی کام شوق سے اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہیں تو انہیں کرنے دینا چاہیے۔اس کے بعد خرم نے بریانی بنا کر بیچنے کا کام بھی اپنے گھر سے ہی شروع کر دیا اور اس میں کاشف کو ساتھ رکھا،اور چند ہی سالوں میں اپنے کئی ذاتی ہوٹلوں کا مالک بن گیا۔
خرم اپنے بہن بھائیوں اور باقی کزنز میں بھی سب سے بڑا تھا۔وہ اپنے والدین،چچا اور ان کے بچوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا تھا۔سبھی بچوں کی آپس میں گہری دوستی تھی۔خرم گھر بھر کا لاڈلا بھی تھا اور سب کا ماننا تھا کہ بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ بچے جو کام خرم کو کرتے دیکھیں گے اسی کو اپنائیں گے۔اسی سوچ کے تحت انہوں نے خرم کی تربیت اور تعلیم پر خاص توجہ دی تھی،تاکہ دوسرے بچوں کے اندر بھی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہو اور خرم پڑھائی مکمل کر کے کسی اچھی کمپنی میں ملازمت کرے۔
خرم بھی نہایت سلجھا ہوا او ر سمجھدار بچہ تھا۔وہ اپنے سے چھوٹے کزنز اور بہن بھائیوں کا خوب خیال رکھتا اور انہیں پیار بھی کرتا تھا۔سکول میں بھی سب اساتذہ اس کی تعریف کرتے تھے کہ وہ خوب دل لگا کر پڑھائی کرتا ہے،لیکن اس سب کے ساتھ خر م کو ایک اورشو ق بھی تھا جسے باقی گھر کے لوگ عجیب سمجھتے تھے۔وہ اپنے ہاتھ سے کھانا بنانے کا بے حد شوقین تھا۔جب بھی گھر میں مہمانوں کی دعوت ہوتی تو وہ اپنی امی اور چاچی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ان کے ساتھ کچن میں کام کروانے کے لیے گھس جاتا اور ساتھ چھوٹی موٹی چیزیں بناتا رہتا۔وہ اپنی امی کو نہایت شوق سے کچن کا کام کرتے ہوئے دیکھا بھی کرتا تھا،اور اسی وجہ سے چھوٹی عمر میں ہی اچھا کھانا بنانا سیکھ گیا تھا۔
پہلے پہل تو گھر والوں نے اس با ت کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن جب خرم بڑا ہوا اور پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنے ابو سے کھانے کا کاروبار شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو گھر کے سب بڑوں کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی۔ا ن کا کہنا تھا کہ اگر کھانے کا ہی کام کرنا تھاتو اس قدر پڑھائی کرنے کا کیا فائدہ ہوا اور دوسرے بچے بھی کل کو اپنا مستقبل اسی طرح کے اُلٹے کاموں میں خراب کر لیں گے۔یہ سن کر خرم کے ابو بھی چپ ہو رہے ،لیکن خرم کو اپنے اوپر اعتماد تھا اور وہ کوئی دوسری ترکیب لڑانے لگا۔
اگلے ہی روز وہ اپنے دوست کے پاس مشورے کے لیے گیا اور اسے ساری بات بتائی۔خرم کی بات سن کر کاشف نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ وہ اس کی ہر ممکن مدد کرے گا۔انہوں نے ایک منصوبہ بنایا جو کچھ یوں تھا کہ روزانہ صبح سویرے خرم گھر سے نکلتا اور کاشف کے گھر جا کر بریانی کے بڑے دیگچے تیار کر کے گھر واپس آ جاتا۔جس کے بعد کاشف اپنے ملازموں کی مدد سے وہ دیگچے ایک چائے کے سٹال تک پہنچاتا اور چائے کا مالک تھوڑا سا منافع رکھ کے چائے کے ساتھ بریانی بھی بیچ دیتا۔دیکھتے ہی دیکھتے خرم کی تیار کردہ مزیدار بریانی کے چرچے ہر جانب ہونے لگے۔لوگ دور،دور سے لذیذ بریانی کا لطف لینے آنے لگی،اور خرم کے ساتھ ساتھ کاشف بھی اچھا خاصہ منافع کمانے لگا۔اُڑتی اُڑتی یہ بات خرم کے ابو تک پہنچی تو انہوں نے خر م سے اس بارے میں تصدیق کی جس کا خرم نے پورے اعتماد سے اعتراف کیا۔تب گھر کے باقی افراد کو بھی احساس ہوا کہ علم حاصل کرنا بے شک ضروری ہے لیکن دنیا میں کوئی بھی کام جو محنت سے کیا جائے وہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ایسے میں بچے اگر کوئی کام شوق سے اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہیں تو انہیں کرنے دینا چاہیے۔اس کے بعد خرم نے بریانی بنا کر بیچنے کا کام بھی اپنے گھر سے ہی شروع کر دیا اور اس میں کاشف کو ساتھ رکھا،اور چند ہی سالوں میں اپنے کئی ذاتی ہوٹلوں کا مالک بن گیا۔