I
intelligent086
Guest
لالچی نوکر ۔۔۔۔ نعمان خان
دور کسی گائوں میں ایک لڑکا عامر اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔عامر کو اس کے ماں،باپ نے شہر پڑھنے کے لیے بھیج رکھا تھا۔وہ انتہائی لائق اور محنتی لڑکا تھا۔پڑھائی کے دنوں میں ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے۔
جو تھوڑی بہت رقم ہوتی وہ عامر کی پڑھائی پر خرچ ہو رہی تھی۔عامر نے ٹھان رکھی تھی کہ ایک دن وہ پڑھ ،لکھ کر نہ صر ف بہت سا پیسہ کمائے گا بلکہ اپنے ماں،باپ کو دنیا کا ہر سکھ بھی دے گا۔پڑھائی مکمل کرنے کے بعد عامر کو اچھی نوکری مل گئی ۔اس نے ارادہ کیا کہ اپنے والدین کو بھی ساتھ شہر ہی لے جائے،لیکن وہ اپنا گائوں چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ان کا کہنا تھا کہ شہر میں کسی صورت ان کا دل نہیں لگے گا۔ایسے میں عامر کو پریشانی تھی کہ اب اس کے ماں،باپ بوڑھے ہیں اور انہیں آرام کی ضرورت ہے۔اس کا حل عامر نے کچھ یوں نکالا کہ شہر جانے سے پہلے گھر پر ایک نوکر کو رکھ لیا۔یہ دن بھر گھر کے کام کرتا اور رات کا کھانا تیار کر کے واپس لوٹ جاتا۔
عامر کے والدین نوکر کے کام پر زیادہ نظر نہیں رکھتے تھے اورزیادہ وقت آرام کرتے ہوئے گزارتے۔جب نوکر کو محسوس ہوا کہ اس پہ نظر رکھنے والا کوئی نہیں ہے تو اس کے دل میں لالچ بھر آیا۔ایک روز رات کا کھانا اس نے دو کی بجائے چار لوگوں کا بنایا،اور جانے سے پہلے چوری چھپے ایک ڈبہ بھر کے اپنے اور اپنی بیوی کے لیے گھر لے گیا۔لذیذ،پکا پکایا کھانا دیکھ کر نوکر کی بیوی خوشی سے پھولے نہ سمائی۔اس نے فوراً پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا تو نوکر بولا’’صرف آج نہیں بلکہ اب روزانہ آیا کرے گا‘‘۔اس کے بعد پوری بات بیوی کو سنائی تو وہ بھی خوش ہوتے ہوئے بولی’’اس طرح تو ہمارا بہت سا خرچہ بچ جائے گا‘‘۔
دونوں میاں ،بیوی نے سیر ہو کے کھانا کھایا۔اب نوکر کا معمول تھا کہ وہ روزانہ عامر کے والدین کے کھانے میں سے تھوڑا گھر لے جانے کے لیے چوری کرنے لگا،اور اس کی یہ عادت دن بدن خراب ہوتی گئی۔کھانے کی چوری کے بارے میں جب اس نے محسوس کیا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو رہی تو وہ گھر کی دوسری چھوٹی موٹی چیزیں بھی چرانے لگا۔یوں آہستہ آہستہ اس کے گھر میں ضرورت کی ہر چیز آ گئی اور عامر سے ملنے والی تنخواہ وہ جمع کرنے لگا۔
ایک روز عامر کے والد نے کسی تقریب میں جانے کے لیے اپنا پسندیدہ سوٹ نکالنا چاہا تو لاکھ ڈھونڈنے کے باوجود انہیں سوٹ کہیں نظر نہ آیا۔انہوں نے نوکر کو بھی ساتھ سوٹ تلاش کرنے کو کہا لیکن وہ گھر میں موجود ہوتا تو ملتا۔اس کے بعد ایک دو اور چیزیں بھی جب ڈھونڈنے پر نہ ملیں تو عامر کے والد نے محسوس کیا کہ ہو نہ ہو دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔تب تو وہ خاموش ہو رہے لیکن دل میں ارادہ کر لیا کہ بات کی تہہ تک ضرور جائیں گے۔
اگلے روز انہوں نے ملازم کو بُلا کر ایک ڈبی دی اور کہا کہ اس میں کچھ قیمتی سامان موجود ہے۔دھیان سے اسے کسی محفوظ مقام پر رکھ دے،چند روز تک وہ جا کے اسے بینک میں جمع کروا آئیں گے۔ملازم کو یقین تھا کہ عامر کے والدین میں سے کسی کو اس کی ایمانداری پر شک نہیں ہے ورنہ وہ سوٹ اور دوسری چیزوں کی گمشدگی سے متعلق اس سے سوال ضرور کرتے۔اس دن تو وہ خاموشی سے ڈبی الماری میں رکھ آیا لیکن لالچ نے اسے زیادہ دیر صبر نہ کرنے دیا۔اگلے روز ہی وہ شام کو گھر جانے سے پہلے کھانا ڈبے میں نکالنے کے بعد المار ی کی جانب بڑھا۔وہ ڈبی میں سے دیکھ کر تھوڑا سا مال چرانا چاہتا تھا،لیکن یہ کیا؟جونہی اس نے ڈبی کو کھولا ایک خطر ناک بچھو باہر نکل آیا۔یہ دیکھ کر ملا زم کے منہ سے زور دار چیخ نکل گئی۔جسے سن کر عامر کے والدین جلدی سے الماری کے قریب آئے۔خوفزدہ حالت میں پاس ہی ملازم کھڑا کانپ رہا تھا۔اس کے چہرے پر شرمندگی کے بھی آثار تھے۔عامر کے والد کا شک یقین میں بدل چکا تھا۔وہ جانتے تھے کہ چور کی لالچی طبیعت اسے زیادہ دیر ڈبی میں جھانکنے سے نہیں روک سکے گی،اور وہی ہوا۔جس کے بعد ملازم نے نہ صرف اپنی عزت کھو دی بلکہ اسے اچھی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
دور کسی گائوں میں ایک لڑکا عامر اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔عامر کو اس کے ماں،باپ نے شہر پڑھنے کے لیے بھیج رکھا تھا۔وہ انتہائی لائق اور محنتی لڑکا تھا۔پڑھائی کے دنوں میں ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے۔
جو تھوڑی بہت رقم ہوتی وہ عامر کی پڑھائی پر خرچ ہو رہی تھی۔عامر نے ٹھان رکھی تھی کہ ایک دن وہ پڑھ ،لکھ کر نہ صر ف بہت سا پیسہ کمائے گا بلکہ اپنے ماں،باپ کو دنیا کا ہر سکھ بھی دے گا۔پڑھائی مکمل کرنے کے بعد عامر کو اچھی نوکری مل گئی ۔اس نے ارادہ کیا کہ اپنے والدین کو بھی ساتھ شہر ہی لے جائے،لیکن وہ اپنا گائوں چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ان کا کہنا تھا کہ شہر میں کسی صورت ان کا دل نہیں لگے گا۔ایسے میں عامر کو پریشانی تھی کہ اب اس کے ماں،باپ بوڑھے ہیں اور انہیں آرام کی ضرورت ہے۔اس کا حل عامر نے کچھ یوں نکالا کہ شہر جانے سے پہلے گھر پر ایک نوکر کو رکھ لیا۔یہ دن بھر گھر کے کام کرتا اور رات کا کھانا تیار کر کے واپس لوٹ جاتا۔
عامر کے والدین نوکر کے کام پر زیادہ نظر نہیں رکھتے تھے اورزیادہ وقت آرام کرتے ہوئے گزارتے۔جب نوکر کو محسوس ہوا کہ اس پہ نظر رکھنے والا کوئی نہیں ہے تو اس کے دل میں لالچ بھر آیا۔ایک روز رات کا کھانا اس نے دو کی بجائے چار لوگوں کا بنایا،اور جانے سے پہلے چوری چھپے ایک ڈبہ بھر کے اپنے اور اپنی بیوی کے لیے گھر لے گیا۔لذیذ،پکا پکایا کھانا دیکھ کر نوکر کی بیوی خوشی سے پھولے نہ سمائی۔اس نے فوراً پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا تو نوکر بولا’’صرف آج نہیں بلکہ اب روزانہ آیا کرے گا‘‘۔اس کے بعد پوری بات بیوی کو سنائی تو وہ بھی خوش ہوتے ہوئے بولی’’اس طرح تو ہمارا بہت سا خرچہ بچ جائے گا‘‘۔
دونوں میاں ،بیوی نے سیر ہو کے کھانا کھایا۔اب نوکر کا معمول تھا کہ وہ روزانہ عامر کے والدین کے کھانے میں سے تھوڑا گھر لے جانے کے لیے چوری کرنے لگا،اور اس کی یہ عادت دن بدن خراب ہوتی گئی۔کھانے کی چوری کے بارے میں جب اس نے محسوس کیا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو رہی تو وہ گھر کی دوسری چھوٹی موٹی چیزیں بھی چرانے لگا۔یوں آہستہ آہستہ اس کے گھر میں ضرورت کی ہر چیز آ گئی اور عامر سے ملنے والی تنخواہ وہ جمع کرنے لگا۔
ایک روز عامر کے والد نے کسی تقریب میں جانے کے لیے اپنا پسندیدہ سوٹ نکالنا چاہا تو لاکھ ڈھونڈنے کے باوجود انہیں سوٹ کہیں نظر نہ آیا۔انہوں نے نوکر کو بھی ساتھ سوٹ تلاش کرنے کو کہا لیکن وہ گھر میں موجود ہوتا تو ملتا۔اس کے بعد ایک دو اور چیزیں بھی جب ڈھونڈنے پر نہ ملیں تو عامر کے والد نے محسوس کیا کہ ہو نہ ہو دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔تب تو وہ خاموش ہو رہے لیکن دل میں ارادہ کر لیا کہ بات کی تہہ تک ضرور جائیں گے۔
اگلے روز انہوں نے ملازم کو بُلا کر ایک ڈبی دی اور کہا کہ اس میں کچھ قیمتی سامان موجود ہے۔دھیان سے اسے کسی محفوظ مقام پر رکھ دے،چند روز تک وہ جا کے اسے بینک میں جمع کروا آئیں گے۔ملازم کو یقین تھا کہ عامر کے والدین میں سے کسی کو اس کی ایمانداری پر شک نہیں ہے ورنہ وہ سوٹ اور دوسری چیزوں کی گمشدگی سے متعلق اس سے سوال ضرور کرتے۔اس دن تو وہ خاموشی سے ڈبی الماری میں رکھ آیا لیکن لالچ نے اسے زیادہ دیر صبر نہ کرنے دیا۔اگلے روز ہی وہ شام کو گھر جانے سے پہلے کھانا ڈبے میں نکالنے کے بعد المار ی کی جانب بڑھا۔وہ ڈبی میں سے دیکھ کر تھوڑا سا مال چرانا چاہتا تھا،لیکن یہ کیا؟جونہی اس نے ڈبی کو کھولا ایک خطر ناک بچھو باہر نکل آیا۔یہ دیکھ کر ملا زم کے منہ سے زور دار چیخ نکل گئی۔جسے سن کر عامر کے والدین جلدی سے الماری کے قریب آئے۔خوفزدہ حالت میں پاس ہی ملازم کھڑا کانپ رہا تھا۔اس کے چہرے پر شرمندگی کے بھی آثار تھے۔عامر کے والد کا شک یقین میں بدل چکا تھا۔وہ جانتے تھے کہ چور کی لالچی طبیعت اسے زیادہ دیر ڈبی میں جھانکنے سے نہیں روک سکے گی،اور وہی ہوا۔جس کے بعد ملازم نے نہ صرف اپنی عزت کھو دی بلکہ اسے اچھی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔