I
intelligent086
Guest
لاپرواہی کا انجام ۔۔۔۔۔ انعم خالد
روزانہ کی طرح صبح سویرے ہی گھر میں ایک طوفان مچا ہوا تھا۔کبھی آواز آتی’’امی میرے موزے نہیں مل رہے‘‘تو کبھی بال باندھنے کے لیے ربن موجود نہیں ہے۔ماہم کی اسی عادت سے اس کی امی نہایت تنگ تھیں۔وہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد چیز کو یوں لا پرواہی سے پھینکتی جیسے دوبارہ کبھی استعمال ہی نہ کرنی ہو۔
باقی چیزیں تو ایک طرف روزانہ سکول لے جانے والا بیگ،جوتے اور یونیفارم بھی کونوں کھدروں میں پڑا ہوا ملتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سکول وین درواز ے پر آچکی ہوتی اور ماہم چیخ،چیخ کر اپنی امی سے چیزوں کا پتا پوچھ رہی ہوتی۔ماہم کی امی اسے کئی بار سمجھا چکی تھیں کہ اب تم کوئی چھوٹی بچی نہیں بلکہ آٹھویں جماعت کی طالبہ ہو۔اس عمر میں اپنے کاموں کی ذمہ داری اٹھانا آ جانا چاہیے تا کہ آ گے چل کر پریشانی نہ ہو،کیونکہ جو انسان اپنی چھوٹی موٹی چیزوں کا خیال نہیں رکھ سکتا اسے بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔یہ وہ سبق تھا جو روزانہ ماہم کے چیخنے پر امی اسے دیتیں لیکن مجال ہے جو اس کے کان پر کوئی جوں تک رینگ جائے۔وہ اُلٹا مزید چیختے ہوئے کہتی’’امی!ابھی مجھے سکول کے لیے دیر ہو رہی ہے،آپ فلاں چیز ڈھونڈنے میں میری مدد کریں واپس آ کر سنبھال کے رکھوں گی‘‘لیکن واپس آنے کے بعد ہر چیز فرش پر بکھری پڑی ملتی۔
ماہم کی امی نے موزے ڈھونڈنے میں اس کی مدد کی اور ساتھ سمجھاتے ہوئے بولیں’’بیٹا!میں آپ کو کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ اب آپ کوئی چھوٹی سی بچی نہیں ہو جو اپنی روزانہ استعمال ہونے والی چیزوں کو بھی سلیقے سے نہ رکھ پائو۔آج اپنی ذمہ داری سمجھ جائو گی تو کل کو زندگی آسان ہونے لگے گی۔سلیقہ کسی بھی لڑکی کے لیے ضروری ہے اور زندگی میں نظم و ضبط بھی اسی کی بدولت آتا ہے۔جو انسان اسے نہ اپنائے وہ کامیابی حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے‘‘ ۔ ہمیشہ کی طرح ماہم امی کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑاتی جا رہی تھی۔وہ آئندہ اپنے روئیے میں تبدیلی لانے کا وعدہ کرتی ہوئی تیز ی سے باہر نکل گئی۔
چند دن یونہی گزر گئے اور امتحان سر پر آ گئے۔ ماہم ذہین لڑکی تھی اور کلاس میں ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتی تھی۔وہ کبھی بھی مہینوں امتحان کی تیاری نہیں کرتی تھی بلکہ پیپرز سے ایک یا دو روزپہلے پڑھنا شروع کرتی اور اچھے نمبرز حاصل کر لیتی۔فزکس کے پیپر سے ایک روز پہلے ماہم پڑھائی کی غرض سے کمرے میں گئی تو بیگ میں فزکس کی کتاب موجود نہیں تھی۔اس نے پہلے پورا بیگ دیکھا اور پھر کمرہ ، الماری اور پورا گھر چھان مارا لیکن کتاب نہ ملنی تھی نہ ملی۔کتاب ڈھونڈنے کے چکر میں شام سے رات ہونے کو آئی تھی۔اب اسے حقیقتاً پریشانی ہونے لگی تھی کہ اگر کتاب نہ ملی تو وہ کیا کرے گی۔امی کے پاس اپنی پریشانی لے کر گئی تو پہلے وہ اسے غصے سے گھورنے لگیں ،پھر خاموشی سے اٹھ کر کتاب ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرنے لگیں لیکن گھر کا کونہ کونہ چھان مارنے کے باوجود کتاب کہیں نظر نہ آئی۔ماہم سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔پریشانی کے مارے اس کا بُرا حا ل تھا اور آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔شام اتنی ہو چکی تھی کہ اب کسی دکان سے نئی کتاب خرید کر لانا بھی ممکن نہیں رہا تھا،اور جماعت کی سب دوسری لڑکیاں بھی یقینا اپنی تیاری میں مصروف ہوتیں،ایسے میں کسی سے کتاب اُدھار بھی نہیں مانگی جا سکتی تھی۔بیٹی کو پریشان دیکھ کر اس کی امی پاس بیٹھ کر دلاسہ دیتے ہوئے بولیں’’آپ یاد کرنے کی کوشش کرو کہ آخری بار آپ نے وہ کتاب کب پڑھی تھی‘‘؟
ذہن پر زور ڈالنے سے ماہم کو یاد آنے لگا کہ امتحان شروع ہونے سے 2 روز قبل ہی فزکس کے پیریڈ میں اس نے کتاب پڑھنے کے بعد شاید میز پر ہی چھوڑ دی تھی،اور لاپرواہی میں اپنا نام بھی اوپر نہیں لکھا تھا ورنہ کوئی اور دیکھ کر اس تک پہنچا ہی دیتا۔جونہی یہ یاد آیا ماہم کے رونے میں اور شدت آ گئی،کیونکہ اب امتحان سے پہلے کتاب واپس حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔وہ جان گئی تھی کہ اس کی لاپرواہی اور امی کی بات نہ ماننے کی اسے یہ سزا ملی ہے۔کل کے امتحان میں اس کی ناکامی یقینی تھی،لیکن وہ سمجھ گئی تھی کہ جو سبق آج اُسے ملا ہے اگر اسے سیکھ گئی تو آئندہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے سے اسے کوئی نہیں روک پائے گا۔
روزانہ کی طرح صبح سویرے ہی گھر میں ایک طوفان مچا ہوا تھا۔کبھی آواز آتی’’امی میرے موزے نہیں مل رہے‘‘تو کبھی بال باندھنے کے لیے ربن موجود نہیں ہے۔ماہم کی اسی عادت سے اس کی امی نہایت تنگ تھیں۔وہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد چیز کو یوں لا پرواہی سے پھینکتی جیسے دوبارہ کبھی استعمال ہی نہ کرنی ہو۔
باقی چیزیں تو ایک طرف روزانہ سکول لے جانے والا بیگ،جوتے اور یونیفارم بھی کونوں کھدروں میں پڑا ہوا ملتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سکول وین درواز ے پر آچکی ہوتی اور ماہم چیخ،چیخ کر اپنی امی سے چیزوں کا پتا پوچھ رہی ہوتی۔ماہم کی امی اسے کئی بار سمجھا چکی تھیں کہ اب تم کوئی چھوٹی بچی نہیں بلکہ آٹھویں جماعت کی طالبہ ہو۔اس عمر میں اپنے کاموں کی ذمہ داری اٹھانا آ جانا چاہیے تا کہ آ گے چل کر پریشانی نہ ہو،کیونکہ جو انسان اپنی چھوٹی موٹی چیزوں کا خیال نہیں رکھ سکتا اسے بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔یہ وہ سبق تھا جو روزانہ ماہم کے چیخنے پر امی اسے دیتیں لیکن مجال ہے جو اس کے کان پر کوئی جوں تک رینگ جائے۔وہ اُلٹا مزید چیختے ہوئے کہتی’’امی!ابھی مجھے سکول کے لیے دیر ہو رہی ہے،آپ فلاں چیز ڈھونڈنے میں میری مدد کریں واپس آ کر سنبھال کے رکھوں گی‘‘لیکن واپس آنے کے بعد ہر چیز فرش پر بکھری پڑی ملتی۔
ماہم کی امی نے موزے ڈھونڈنے میں اس کی مدد کی اور ساتھ سمجھاتے ہوئے بولیں’’بیٹا!میں آپ کو کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ اب آپ کوئی چھوٹی سی بچی نہیں ہو جو اپنی روزانہ استعمال ہونے والی چیزوں کو بھی سلیقے سے نہ رکھ پائو۔آج اپنی ذمہ داری سمجھ جائو گی تو کل کو زندگی آسان ہونے لگے گی۔سلیقہ کسی بھی لڑکی کے لیے ضروری ہے اور زندگی میں نظم و ضبط بھی اسی کی بدولت آتا ہے۔جو انسان اسے نہ اپنائے وہ کامیابی حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے‘‘ ۔ ہمیشہ کی طرح ماہم امی کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑاتی جا رہی تھی۔وہ آئندہ اپنے روئیے میں تبدیلی لانے کا وعدہ کرتی ہوئی تیز ی سے باہر نکل گئی۔
چند دن یونہی گزر گئے اور امتحان سر پر آ گئے۔ ماہم ذہین لڑکی تھی اور کلاس میں ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتی تھی۔وہ کبھی بھی مہینوں امتحان کی تیاری نہیں کرتی تھی بلکہ پیپرز سے ایک یا دو روزپہلے پڑھنا شروع کرتی اور اچھے نمبرز حاصل کر لیتی۔فزکس کے پیپر سے ایک روز پہلے ماہم پڑھائی کی غرض سے کمرے میں گئی تو بیگ میں فزکس کی کتاب موجود نہیں تھی۔اس نے پہلے پورا بیگ دیکھا اور پھر کمرہ ، الماری اور پورا گھر چھان مارا لیکن کتاب نہ ملنی تھی نہ ملی۔کتاب ڈھونڈنے کے چکر میں شام سے رات ہونے کو آئی تھی۔اب اسے حقیقتاً پریشانی ہونے لگی تھی کہ اگر کتاب نہ ملی تو وہ کیا کرے گی۔امی کے پاس اپنی پریشانی لے کر گئی تو پہلے وہ اسے غصے سے گھورنے لگیں ،پھر خاموشی سے اٹھ کر کتاب ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرنے لگیں لیکن گھر کا کونہ کونہ چھان مارنے کے باوجود کتاب کہیں نظر نہ آئی۔ماہم سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔پریشانی کے مارے اس کا بُرا حا ل تھا اور آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔شام اتنی ہو چکی تھی کہ اب کسی دکان سے نئی کتاب خرید کر لانا بھی ممکن نہیں رہا تھا،اور جماعت کی سب دوسری لڑکیاں بھی یقینا اپنی تیاری میں مصروف ہوتیں،ایسے میں کسی سے کتاب اُدھار بھی نہیں مانگی جا سکتی تھی۔بیٹی کو پریشان دیکھ کر اس کی امی پاس بیٹھ کر دلاسہ دیتے ہوئے بولیں’’آپ یاد کرنے کی کوشش کرو کہ آخری بار آپ نے وہ کتاب کب پڑھی تھی‘‘؟
ذہن پر زور ڈالنے سے ماہم کو یاد آنے لگا کہ امتحان شروع ہونے سے 2 روز قبل ہی فزکس کے پیریڈ میں اس نے کتاب پڑھنے کے بعد شاید میز پر ہی چھوڑ دی تھی،اور لاپرواہی میں اپنا نام بھی اوپر نہیں لکھا تھا ورنہ کوئی اور دیکھ کر اس تک پہنچا ہی دیتا۔جونہی یہ یاد آیا ماہم کے رونے میں اور شدت آ گئی،کیونکہ اب امتحان سے پہلے کتاب واپس حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔وہ جان گئی تھی کہ اس کی لاپرواہی اور امی کی بات نہ ماننے کی اسے یہ سزا ملی ہے۔کل کے امتحان میں اس کی ناکامی یقینی تھی،لیکن وہ سمجھ گئی تھی کہ جو سبق آج اُسے ملا ہے اگر اسے سیکھ گئی تو آئندہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے سے اسے کوئی نہیں روک پائے گا۔