I
intelligent086
Guest
مچھلی نے ترکیب لڑائی .... انعم خالد
دریا کے کنارے2 مچھیرے بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔یہ کہہ رہے تھے کہ چند دنوں میں سردی چلی جائے گی۔اس سے پہلے،پہلے اچھی کمائی کر لی جائے۔ا ن کا ارادہ تھا کہ کل آ کر دریا سے زیادہ سی مچھلیاں پکڑ کر منڈی میں فروخت کر دیں تا کہ اگلے چند دن پیسوں کی طرف سے بے فکر ہو کر سکون کے دن گزار سکیں۔
یہ باتیں کرتے ہوئے وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کی آواز کسی اور تک بھی پہنچ رہی ہے۔دریا سے ایک مچھلی سر نکالے مچھواروں کی بات سن رہی تھی۔ساری بات سن کر وہ تیزی سے واپس پلٹی۔اب اس کا رُخ اپنی سہیلی کے گھر کی جانب تھا،جس کا نام سنہری تھا۔یہ دونوں مچھلیاں آپس میں گہری دوست تھیں جن میں سے ایک کا نام نیلی اور دوسری کا سنہری تھا۔دونوں میں گہری دوستی ضرور تھی لیکن سوچنے کا انداز ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔نیلی مچھلی جو کہ مچھیروں کی بات سن رہی تھی وہ ہر کام منصوبے کے مطابق اور سوچ سمجھ کر کیا کرتی تھی،جبکہ اس کی سہیلی سنہری تقدیر پر یقین رکھنے والی تھی۔وہ سوچا کرتی کہ ہم لاکھ کوشش کر لیں لیکن وہی ہو کر رہتا ہے جو ہماری قسمت میں لکھا جا چکا ہو۔نیلی اکثر اسے سمجھانے کی کوشش کرتی کہ تقدیر پر معاملات چھوڑ کر اپنی عقل استعمال کرنا بند نہیں کر دینا چاہیے بلکہ ارادے مضبوط رکھنے چاہئیں ،لیکن سنہری اس کی بات پر کان نہ دھرتی۔
مچھیروں کی بات سن کرجب نیلی،سنہری کے پاس پہنچی اور اسے ساری بات بتائی تو وہ بولی ’’تمہارے خیال میں اب ہمیں کیا کرنا چاہیے‘‘۔جس پر نیلی بولی کہ یا تو انہیں جلد از جلد اپنا ٹھکانہ بدل لینا چاہیے یا پھر کوئی ایسی ترکیب لڑانی چاہیے جس کے ذریعے وہ اس تالاب میں رہتے ہوئے بھی مچھیروں سے بچ سکیں۔نیلی کی بات سن کر سنہری بولی کہ اگر ان کی موت کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے تو انہیں مچھیروں سے کوئی نہیں بچا سکتا اور اگر زندگی باقی ہے تو پھر مچھیرے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔تب نیلی بولی کہ وہ اس کی بات سے اتفاق کرتی ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن بُری موت مرنے سے اچھا ہے کہ انسان زندگی بچانے کی کوشش کرے اور ویسے بھی زندگی کی حفاظت کا حُکم دیا گیا ہے۔تب بھی سنہری پر نیلی کی باتوں کا کوئی خاص اثر نہ ہوا اور وہ اتنا کہہ کر خاموش ہو رہی کہ اچھا جب کل آئے گی تو دیکھا جائے گا۔
اگلے روز ارادے کے مطابق مچھیرے دریا پر پہنچ چکے تھے۔صبح سے ہی دریا میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔بے شمار مچھلیاں اب تک مچھیروں کے جال میں پھنس چکی تھیں۔سنہری مزے سے اپنے گھر میں سو رہی تھی جب نیلی نے آ کر اسے جگایا۔اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔وہ سنہری کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ انہیں خود کو بچانے کے لیے کچھ سوچنا چاہیے ،کیونکہ اب تک بہت سی مچھلیاں جال میں پھنس چکی ہیں لیکن اب بھی سنہری نے کوئی پرواہ نہ کی۔ابھی وہ باتوں میں مشغول ہی تھیں کہ اچانک ان کے اوپر ایک بڑا جال آ کر گرا ۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دوسری بہت سی مچھلیوں کے ساتھ نیلی اور سنہری کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جال دریا سے باہر نکلا تو مچھلیاں تڑپ تڑپ کر خود کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔اب سنہری بھی ہاتھ پائوں مار رہی تھی کہ کسی طرح اپنی جان بچائے ۔مچھیروں نے تمام مچھلیو ں کو جال سے نکال کر زندہ،مردہ مچھلیوں کے ڈھیر میں ڈال دیا اور جال پھر سے پانی میں پھینک دیا۔سنہری ہاتھ پائوں مارتے ہوئے نیلی تک پہنچی اور گھبرائے ہوئے انداز میں بولی ’’مجھے لگتا ہے ہماراآخری وقت آ چکا ہے اور اب ہم زندہ نہیں بچ پائیں گی‘‘۔سنہری کی بات ابھی پوری بھی نہ ہو پائی تھی کہ مچھیرے ان کے قریب آ گئے۔نیلی نے اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے مچھیروں کو دیکھتے ہی اپنی سانس روک لی۔وہ زندہ مچھلیوں کو ایک جانب رکھ رہے تھے اور جنہیں دیکھ کر انہیں لگا کہ یہ پانی سے ہی مردہ نکلی ہیں انہیں واپس پانی میں پھینک رہے تھے۔نیلی کو انہوں نے ہاتھ میں اٹھایا اور مردہ پا کر واپس دریا میں پھینک دیا،جبکہ بوکھلائی ہوئی سنہری چند لمحے تڑپنے کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر معاملے کو تقدیر کا فیصلہ مان کر کوشش کرنا کبھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔
دریا کے کنارے2 مچھیرے بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔یہ کہہ رہے تھے کہ چند دنوں میں سردی چلی جائے گی۔اس سے پہلے،پہلے اچھی کمائی کر لی جائے۔ا ن کا ارادہ تھا کہ کل آ کر دریا سے زیادہ سی مچھلیاں پکڑ کر منڈی میں فروخت کر دیں تا کہ اگلے چند دن پیسوں کی طرف سے بے فکر ہو کر سکون کے دن گزار سکیں۔
یہ باتیں کرتے ہوئے وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کی آواز کسی اور تک بھی پہنچ رہی ہے۔دریا سے ایک مچھلی سر نکالے مچھواروں کی بات سن رہی تھی۔ساری بات سن کر وہ تیزی سے واپس پلٹی۔اب اس کا رُخ اپنی سہیلی کے گھر کی جانب تھا،جس کا نام سنہری تھا۔یہ دونوں مچھلیاں آپس میں گہری دوست تھیں جن میں سے ایک کا نام نیلی اور دوسری کا سنہری تھا۔دونوں میں گہری دوستی ضرور تھی لیکن سوچنے کا انداز ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔نیلی مچھلی جو کہ مچھیروں کی بات سن رہی تھی وہ ہر کام منصوبے کے مطابق اور سوچ سمجھ کر کیا کرتی تھی،جبکہ اس کی سہیلی سنہری تقدیر پر یقین رکھنے والی تھی۔وہ سوچا کرتی کہ ہم لاکھ کوشش کر لیں لیکن وہی ہو کر رہتا ہے جو ہماری قسمت میں لکھا جا چکا ہو۔نیلی اکثر اسے سمجھانے کی کوشش کرتی کہ تقدیر پر معاملات چھوڑ کر اپنی عقل استعمال کرنا بند نہیں کر دینا چاہیے بلکہ ارادے مضبوط رکھنے چاہئیں ،لیکن سنہری اس کی بات پر کان نہ دھرتی۔
مچھیروں کی بات سن کرجب نیلی،سنہری کے پاس پہنچی اور اسے ساری بات بتائی تو وہ بولی ’’تمہارے خیال میں اب ہمیں کیا کرنا چاہیے‘‘۔جس پر نیلی بولی کہ یا تو انہیں جلد از جلد اپنا ٹھکانہ بدل لینا چاہیے یا پھر کوئی ایسی ترکیب لڑانی چاہیے جس کے ذریعے وہ اس تالاب میں رہتے ہوئے بھی مچھیروں سے بچ سکیں۔نیلی کی بات سن کر سنہری بولی کہ اگر ان کی موت کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے تو انہیں مچھیروں سے کوئی نہیں بچا سکتا اور اگر زندگی باقی ہے تو پھر مچھیرے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔تب نیلی بولی کہ وہ اس کی بات سے اتفاق کرتی ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن بُری موت مرنے سے اچھا ہے کہ انسان زندگی بچانے کی کوشش کرے اور ویسے بھی زندگی کی حفاظت کا حُکم دیا گیا ہے۔تب بھی سنہری پر نیلی کی باتوں کا کوئی خاص اثر نہ ہوا اور وہ اتنا کہہ کر خاموش ہو رہی کہ اچھا جب کل آئے گی تو دیکھا جائے گا۔
اگلے روز ارادے کے مطابق مچھیرے دریا پر پہنچ چکے تھے۔صبح سے ہی دریا میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔بے شمار مچھلیاں اب تک مچھیروں کے جال میں پھنس چکی تھیں۔سنہری مزے سے اپنے گھر میں سو رہی تھی جب نیلی نے آ کر اسے جگایا۔اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔وہ سنہری کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ انہیں خود کو بچانے کے لیے کچھ سوچنا چاہیے ،کیونکہ اب تک بہت سی مچھلیاں جال میں پھنس چکی ہیں لیکن اب بھی سنہری نے کوئی پرواہ نہ کی۔ابھی وہ باتوں میں مشغول ہی تھیں کہ اچانک ان کے اوپر ایک بڑا جال آ کر گرا ۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دوسری بہت سی مچھلیوں کے ساتھ نیلی اور سنہری کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جال دریا سے باہر نکلا تو مچھلیاں تڑپ تڑپ کر خود کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔اب سنہری بھی ہاتھ پائوں مار رہی تھی کہ کسی طرح اپنی جان بچائے ۔مچھیروں نے تمام مچھلیو ں کو جال سے نکال کر زندہ،مردہ مچھلیوں کے ڈھیر میں ڈال دیا اور جال پھر سے پانی میں پھینک دیا۔سنہری ہاتھ پائوں مارتے ہوئے نیلی تک پہنچی اور گھبرائے ہوئے انداز میں بولی ’’مجھے لگتا ہے ہماراآخری وقت آ چکا ہے اور اب ہم زندہ نہیں بچ پائیں گی‘‘۔سنہری کی بات ابھی پوری بھی نہ ہو پائی تھی کہ مچھیرے ان کے قریب آ گئے۔نیلی نے اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے مچھیروں کو دیکھتے ہی اپنی سانس روک لی۔وہ زندہ مچھلیوں کو ایک جانب رکھ رہے تھے اور جنہیں دیکھ کر انہیں لگا کہ یہ پانی سے ہی مردہ نکلی ہیں انہیں واپس پانی میں پھینک رہے تھے۔نیلی کو انہوں نے ہاتھ میں اٹھایا اور مردہ پا کر واپس دریا میں پھینک دیا،جبکہ بوکھلائی ہوئی سنہری چند لمحے تڑپنے کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر معاملے کو تقدیر کا فیصلہ مان کر کوشش کرنا کبھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔
Machli Ne Takeeb Ladai By Anam Khalid