intelligent086
New Baby
مگر مچھ کا انجام ۔۔۔۔۔ نجف زہرا تقوی
سردیاں قریب تھیں اورجنگل کا سردار ٹارزن سردیوں میں آگ جلانے کے لیے لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا کہ وہ رونے کی آواز سن کر چونک اٹھا۔اس نے آس پاس گھوم کر دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا جبکہ رونے کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔اتنے میں ٹارزن کی نظر درخت سے ٹیک لگائے ایک کچھوے پر پڑی جو آنسو بہا رہا تھا۔
ٹارزن جو دوستوں سے اپنی محبت ،انصاف اوررحمدلی کی وجہ سے مشہور تھا یہ دیکھ نہ سکا اور فوراً کچھوے کے پاس آ کر فکر مندی سے بولا’’کیا ہوا دوست؟میرے ہوتے ہوئے تم اس قدر پریشان اور اداس کیوں ہو‘‘؟جس پر کچھوا آنسو صاف کرتے ہوئے بولا ’’کیا بتائوں سردار ،مجھ جیسی مخلوق کا تو سمندر میں آزادی اور اپنی مرضی سے رہنا بھی دشورا ہو گیا ہے‘‘۔یہ سن کر ٹارزن چونکتے ہوئے بولا’’کس نے تمہارا جینا دشوار کیا ہے ،مجھے بس ایک بار نام بتائو پھر دیکھنا میں اس کا کیا حشر کرتا ہوں۔تم بخوبی جانتے ہو کہ ظلم کرنے والوں کا ٹارزن کیا حال کرتا ہے‘‘۔کچھوا بدستور دکھی لہجے میں بولا’’سردار ہم نہایت سکون سے سمندر میں زندگی گزار رہے تھے،لیکن جب سے ایک ظالم مگر مچھ ہمارے علاقے میں آیا ہے اس نے سب کا جینا دشوارکر رکھا ہے‘‘۔جس پر ٹارزن نے سوال کیا’’کس قسم کے ظلم کا نشانہ بناتا ہے وہ باقی جانورو ں کو‘‘؟جس پر کچھوا دکھی لہجے میں بولا’’ہم دن بھر محنت کر کے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے خوراک کا انتظام کرتے ہیں،جس میں سے شام ہوتے ہی ظالم مگر مچھ اپنا بھتہ وصول کرنے آ جاتا ہے‘‘۔اس نے اعلا ن کر رکھا ہے کہ اگر کسی جانور نے اپنی خوراک میں سے اسے حصہ نہ دیا تو وہ اس کے بچوں کو کھا جائے گا۔چونکہ اس وقت وہ ہم سب سے زیادہ طاقتور ہے لہٰذا ہمیں چپ چاپ اس کی بات ماننا پڑتی ہے۔اتنا کہہ کر کچھوا التجائیہ لہجے میں بولا سردار ٹارزن تم تو بے حد طاقتور اور بہادر ہو،تم ہی ہماری کچھ مدد کرو۔ٹارزن کچھوے کو تسلی دیتے ہوئے بولا ’’تم فکر مت کرو میں کل ہی ظالم مگر مچھ کو سبق سکھاتا ہوں‘‘۔واپس آنے کے بعد ٹارزن رات دیر تک لیٹا مگر مچھ کو سبق سکھانے کی ترکیب سوچتا رہا اور بالآخر ایک فیصلے پر پہنچ کے وہ مطمئن ہو کر سو گیا۔اگلے دن ٹارزن شام کے وقت سمندر میں جانے کے لیے تیار تھا۔وہ اپنے دوست پنکی کو تمام صورتحال بتا کر سمندر کی طرف جانے لگا تو پنکی پریشان کن لہجے میں بولا’’سردار ذرا سنبھل کے،میں نے سن رکھا ہے کہ وہ مگر مچھ ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ طاقتور بھی ہے‘‘جس پر ٹارزن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’جب آپ حق پر ہو تو پھر پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ آپ کے سامنے کون کتنا طاقتور اور ظالم ہے‘‘۔اتنا کہہ کر ٹارزن نے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔اب وہ یہاں وہاں تیرتے ہوئے مگر مچھ کے آنے کا انتظار کر رہا تھا،کچھ ہی دیر گزری تھی کہ سامنے سے مگر مچھ آتا ہوا دکھائی دیا۔اس سے پہلے کہ وہ چھوٹے جانوروں کے بِلوں تک پہنچتا ٹارزن اچانک اس کے سامنے آ کر بولا’’یہیں رک جائو اور آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا‘‘۔مگر مچھ ایک بار تو ٹارزن کو دیکھ کر بوکھلایا پھر سنبھلتے ہوئے بولا اپنا راستہ روکنے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں میں؟جواباً ٹارزن بولا مجھے پتہ چلا ہے کہ تم اپنے سے کمزور جانوروں سے بھتہ وصول کرتے ہو۔جس پر مگر مچھ اکڑتے ہوئے بولا ’’تم کون ہوتے ہو مجھ سے سوال کرنے والے میں چاہوں تو ایک منٹ میں تمہارا کام تمام کر دوں ،تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ میرا راستہ چھوڑ دو اور اپنے کام سے کام رکھو‘‘۔اس سے پہلے کہ مگر مچھ آگے بڑھتا ٹارزن تیزی سے اس کا راستہ روکتے ہوئے بولا’’میں تمہیں آخری بار خبردار کر رہا ہوں ،باز آ جائو ورنہ تمہارا وہ حال کروں گا کہ ہر ظالم کے لیے عبرت کا نشان بن کر رہ جائو گے‘‘۔ٹارزن کی للکار سن کر مگر مچھ غصے سے پاگل ہونے لگا ۔وہ نہایت غصیلے لہجے میں بولا ’’لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گے‘‘۔اتنا کہہ کر اس نے اپنے جبڑے کھولے اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے خونخوار دانتوں سے ٹارزن کو چپا جاتا،ٹارزن نے کمال پھرتی سے اپنا خنجر نکالا اور نشانہ لگا کر مگر مچھ کے حلق میں گھسیڑ دیا۔خنجر کا وار اس قدر تیز تھا کہ مگر مچھ کو سنبھلنے کا موقع تک نہ ملا۔وہ فلک شگاف چیخیں مارتے ہوئے تڑپنے لگا۔خنجر اس کے حلق میں اس طرح پیوست تھا کہ وہ اپنا منہ بند کرتا تو خنجر اس کا حلق چیرتا ہوا دوسری طرف سے نکل جاتا،اور منہ کھولے رکھنا بھی اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔تکلیف کے مارے مگر مچھ کی جان نکلی جا رہی تھی۔ٹارزن قدرے دور پانی میں کھڑا ایک ظالم کو اس کے انجام تک پہنچتے دیکھ رہا تھا۔آخر کار مگر مچھ کی ہمت جواب دے گئی اور بے بس ہو کر جونہی اس نے منہ بند کیا پانی میں ہر طرف خون ہی خون پھیل گیا۔مگر مچھ کا جسم بے سدھ ہو کر سطح سمندر پر ڈھے گیا۔جسے کچھ ہی دیر میں بڑی مچھلیاں اپنی خوراک بنانے والی تھیں۔سمندر میں آج بھی اس ظالم مگر مچھ کی کہانی یاد کی جاتی ہے اوربچوں کو بتایا جاتا ہے کہ’’ ظالم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ایک دن اس کی پکڑ ضرور ہوتی ہے اور تب اسے اپنا سب کچھ اسی دنیا میں چھوڑ کر جانا پڑتا ہے‘‘۔
سردیاں قریب تھیں اورجنگل کا سردار ٹارزن سردیوں میں آگ جلانے کے لیے لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا کہ وہ رونے کی آواز سن کر چونک اٹھا۔اس نے آس پاس گھوم کر دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا جبکہ رونے کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔اتنے میں ٹارزن کی نظر درخت سے ٹیک لگائے ایک کچھوے پر پڑی جو آنسو بہا رہا تھا۔
ٹارزن جو دوستوں سے اپنی محبت ،انصاف اوررحمدلی کی وجہ سے مشہور تھا یہ دیکھ نہ سکا اور فوراً کچھوے کے پاس آ کر فکر مندی سے بولا’’کیا ہوا دوست؟میرے ہوتے ہوئے تم اس قدر پریشان اور اداس کیوں ہو‘‘؟جس پر کچھوا آنسو صاف کرتے ہوئے بولا ’’کیا بتائوں سردار ،مجھ جیسی مخلوق کا تو سمندر میں آزادی اور اپنی مرضی سے رہنا بھی دشورا ہو گیا ہے‘‘۔یہ سن کر ٹارزن چونکتے ہوئے بولا’’کس نے تمہارا جینا دشوار کیا ہے ،مجھے بس ایک بار نام بتائو پھر دیکھنا میں اس کا کیا حشر کرتا ہوں۔تم بخوبی جانتے ہو کہ ظلم کرنے والوں کا ٹارزن کیا حال کرتا ہے‘‘۔کچھوا بدستور دکھی لہجے میں بولا’’سردار ہم نہایت سکون سے سمندر میں زندگی گزار رہے تھے،لیکن جب سے ایک ظالم مگر مچھ ہمارے علاقے میں آیا ہے اس نے سب کا جینا دشوارکر رکھا ہے‘‘۔جس پر ٹارزن نے سوال کیا’’کس قسم کے ظلم کا نشانہ بناتا ہے وہ باقی جانورو ں کو‘‘؟جس پر کچھوا دکھی لہجے میں بولا’’ہم دن بھر محنت کر کے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے خوراک کا انتظام کرتے ہیں،جس میں سے شام ہوتے ہی ظالم مگر مچھ اپنا بھتہ وصول کرنے آ جاتا ہے‘‘۔اس نے اعلا ن کر رکھا ہے کہ اگر کسی جانور نے اپنی خوراک میں سے اسے حصہ نہ دیا تو وہ اس کے بچوں کو کھا جائے گا۔چونکہ اس وقت وہ ہم سب سے زیادہ طاقتور ہے لہٰذا ہمیں چپ چاپ اس کی بات ماننا پڑتی ہے۔اتنا کہہ کر کچھوا التجائیہ لہجے میں بولا سردار ٹارزن تم تو بے حد طاقتور اور بہادر ہو،تم ہی ہماری کچھ مدد کرو۔ٹارزن کچھوے کو تسلی دیتے ہوئے بولا ’’تم فکر مت کرو میں کل ہی ظالم مگر مچھ کو سبق سکھاتا ہوں‘‘۔واپس آنے کے بعد ٹارزن رات دیر تک لیٹا مگر مچھ کو سبق سکھانے کی ترکیب سوچتا رہا اور بالآخر ایک فیصلے پر پہنچ کے وہ مطمئن ہو کر سو گیا۔اگلے دن ٹارزن شام کے وقت سمندر میں جانے کے لیے تیار تھا۔وہ اپنے دوست پنکی کو تمام صورتحال بتا کر سمندر کی طرف جانے لگا تو پنکی پریشان کن لہجے میں بولا’’سردار ذرا سنبھل کے،میں نے سن رکھا ہے کہ وہ مگر مچھ ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ طاقتور بھی ہے‘‘جس پر ٹارزن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’جب آپ حق پر ہو تو پھر پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ آپ کے سامنے کون کتنا طاقتور اور ظالم ہے‘‘۔اتنا کہہ کر ٹارزن نے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔اب وہ یہاں وہاں تیرتے ہوئے مگر مچھ کے آنے کا انتظار کر رہا تھا،کچھ ہی دیر گزری تھی کہ سامنے سے مگر مچھ آتا ہوا دکھائی دیا۔اس سے پہلے کہ وہ چھوٹے جانوروں کے بِلوں تک پہنچتا ٹارزن اچانک اس کے سامنے آ کر بولا’’یہیں رک جائو اور آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا‘‘۔مگر مچھ ایک بار تو ٹارزن کو دیکھ کر بوکھلایا پھر سنبھلتے ہوئے بولا اپنا راستہ روکنے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں میں؟جواباً ٹارزن بولا مجھے پتہ چلا ہے کہ تم اپنے سے کمزور جانوروں سے بھتہ وصول کرتے ہو۔جس پر مگر مچھ اکڑتے ہوئے بولا ’’تم کون ہوتے ہو مجھ سے سوال کرنے والے میں چاہوں تو ایک منٹ میں تمہارا کام تمام کر دوں ،تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ میرا راستہ چھوڑ دو اور اپنے کام سے کام رکھو‘‘۔اس سے پہلے کہ مگر مچھ آگے بڑھتا ٹارزن تیزی سے اس کا راستہ روکتے ہوئے بولا’’میں تمہیں آخری بار خبردار کر رہا ہوں ،باز آ جائو ورنہ تمہارا وہ حال کروں گا کہ ہر ظالم کے لیے عبرت کا نشان بن کر رہ جائو گے‘‘۔ٹارزن کی للکار سن کر مگر مچھ غصے سے پاگل ہونے لگا ۔وہ نہایت غصیلے لہجے میں بولا ’’لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گے‘‘۔اتنا کہہ کر اس نے اپنے جبڑے کھولے اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے خونخوار دانتوں سے ٹارزن کو چپا جاتا،ٹارزن نے کمال پھرتی سے اپنا خنجر نکالا اور نشانہ لگا کر مگر مچھ کے حلق میں گھسیڑ دیا۔خنجر کا وار اس قدر تیز تھا کہ مگر مچھ کو سنبھلنے کا موقع تک نہ ملا۔وہ فلک شگاف چیخیں مارتے ہوئے تڑپنے لگا۔خنجر اس کے حلق میں اس طرح پیوست تھا کہ وہ اپنا منہ بند کرتا تو خنجر اس کا حلق چیرتا ہوا دوسری طرف سے نکل جاتا،اور منہ کھولے رکھنا بھی اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔تکلیف کے مارے مگر مچھ کی جان نکلی جا رہی تھی۔ٹارزن قدرے دور پانی میں کھڑا ایک ظالم کو اس کے انجام تک پہنچتے دیکھ رہا تھا۔آخر کار مگر مچھ کی ہمت جواب دے گئی اور بے بس ہو کر جونہی اس نے منہ بند کیا پانی میں ہر طرف خون ہی خون پھیل گیا۔مگر مچھ کا جسم بے سدھ ہو کر سطح سمندر پر ڈھے گیا۔جسے کچھ ہی دیر میں بڑی مچھلیاں اپنی خوراک بنانے والی تھیں۔سمندر میں آج بھی اس ظالم مگر مچھ کی کہانی یاد کی جاتی ہے اوربچوں کو بتایا جاتا ہے کہ’’ ظالم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ایک دن اس کی پکڑ ضرور ہوتی ہے اور تب اسے اپنا سب کچھ اسی دنیا میں چھوڑ کر جانا پڑتا ہے‘‘۔