I
intelligent086
Guest
مغرو رچیونٹی ۔۔۔۔۔ تحریر : آفتاب عالم
کسی دیوار میں ایک دراڑ تھی اور اس میں بہت سی چیونٹیوں نے اپنا گھر بنا لیا تھا۔ان میں ایک مغرور اور موٹی چیونٹی بھی شامل تھی۔
اسے اپنی طاقت اور ذہانت پر بڑا غرور تھا ۔وہ اکثر اپنے غول کی ملکہ بننے کے خواب دیکھا کرتی،لیکن غول کی سردار چیونٹی اتنی عقلمند اور رحمدل تھی کہ اس کے آگے موٹی چیونٹی کی ایک نہیں چلتی تھی۔اس کے سازشی ذہن نے بڑے بڑے لالچ دے کر تمام چیونٹیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کئی بار کوشش کی لیکن چیونٹیاں اپنی سردار سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ ایک چیونٹی بھی اس کے ورغلانے میں نہ آئی۔نرمی سے کام نہیں بن سکا تو اس نے اپنی طاقت کے سہارے ان پر ظلم کرنے شروع کر دئیے۔کسی بھی چیونٹی کو اکیلی دیکھ کر وہ اسے مارنے لگتی اور ان کا دانہ بھی چھین لیتی۔سارے غول میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا،ہر چیونٹی اس کے ظلم سے تھرانے لگی تھی۔جب جینا بہت دشوار ہو گیا تو ایک دن تمام چیونٹیاں فریاد لے کر اپنی ملکہ کے پاس پہنچیں۔پوری توجہ اور ہمدردی سے ایک ایک کی شکایت سننے کے بعد ملکہ بڑے خلوص اور سنجیدگی سے بولی’’بہنو! میں تم سب کے دکھ میں برابر کی شریک ہوں ۔ میری بھی یہی خواہش ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے اس لیے میں اس کا فیصلہ خدا کے سپرد کرتی ہوں کیونکہ وہی بہتر انصاف کرنے والا ہے۔‘‘تمام چیونٹیوں کو اپنی سردار کی نیک دلی اور عقلمندی پر پورا بھروسہ تھا۔چنانچہ ملکہ کی باتوں کو وہ گرہ میں باندھ کر ہنسی خوشی گھر چلی گئیں۔
چند دن سکون سے گزرے تھے کہ ایک دن ملکہ چیونٹی دوسری چیونٹیوں کے ساتھ مل کر بڑا دانہ دیوار پر چڑھانے کی کوشش کر رہی تھی،لیکن وہ اتنا وزنی تھا کہ چڑھاتے چڑھاتے وہ تھک کر نڈھال ہو گئیں۔ابھی وہ ایک جگہ کھڑی ہوئی سانس درست کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ اتفاق سے موٹی مغرورچیونٹی بھی ادھر آ نکلی اور انہیں ہانپتے کانپتے دیکھ کر ملکہ کا مذاق اڑاتے ہوئے غرورسے کہنے لگی’’ہونہہ! ایک معمولی سا دانہ تم لوگوں سے نہیں لے جایا جا رہا،میں ملکہ ہوتی تو پلک جھپکتے میں اوپر پہنچا دیتی۔‘‘ اپنی ملکہ کی توہین سن کر تما م چیونٹیاں غضبنا ک ہو گئیں اور اسے اپنے گھمنڈ کا سبق دینے کے لیے انہوں نے اس پر دانہ لڑھکانا چاہا ،لیکن ملکہ چیونٹی نے انہیں فوراً روک دیا اور بولی’’بہنو! ذرا صبر سے کا م لو،صبر کا پھل میٹھا اور غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔اللہ پر بھروسہ رکھو وہ اس کے غرور کو بہت جلد خاک میں ملا دے گا‘‘۔چیونٹیاں اپنے غصے پر قابو پا کر پھر سے دانہ اوپر گھسیٹنے لگیں۔انہیں خاموشی سے اوپر جاتا دیکھ کر موٹی چیونٹی کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔وہ سمجھی کہ ملکہ اور ا س کی ساتھ ڈر گئی ہیں۔اس لیے وہ ان کے پاس جا کے ملکہ کا اور بھی مذاق اڑانے لگی’’تم لوگ بیوقوف ہو جو ایسی کمزور اور مریل کو اپنی ملکہ بنایا ہے ۔یہ تو تمہارے ساتھ مل کر بھی ایک معمولی سا بوجھ نہیں گھسیٹ سکتی۔مجھے اپنی ملکہ بنا لو تو میں اس بوجھ کو اکیلے ہی اوپر پہنچا سکتی ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی ملکہ چیونٹی کے ہونٹوں پر سنجیدہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔اس نے ایک نظر نیچے ڈالی جہاں گندی نالی بہہ رہی تھی،پھر وہ کچھ سوچ کر موٹی چیونٹی سے بولی’’بہن ! تم سچ کہتی ہو۔واقعی ا ب میں بہت کمزور ہو چکی ہوں اور سرداری نہیں کر سکتی۔اگر تم اس دانے کو اوپر پہنچا دو تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اور غول کی تمام چیونٹیاں تمہیں اپنی ملکہ تسلیم کر لیں گی‘‘،ملکہ کی بات سن کرمغرور چیونٹی خوشی سے اور پھول گئی۔اس نے سوچا کہ میرے ملکہ بننے میں اب زیادہ دیر باقی نہیں رہی۔ملکہ کے خاموش ہوتے ہی اس نے جھپٹ کر چیونٹیوں سے دانہ لے لیا ،لیکن دانہ اٹھاتے ہی اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔بھاری بوجھ سے اس کا بدن تھرانے لگا۔اس کے لیے دانے کو سنبھالنا اور ہاتھ پائوں جمائے رکھنا دشوار ہو گیا۔
اپنی غلطی پر پچھتاتے ہوئے اس نے ملکہ چیونٹی اور ا س کی ساتھیوں کو مدد کے لیے آواز دینا چاہی لیکن اس سے پہلے ہی اس کے ہاتھ پیر دیوار سے اکھڑ گئے اور وہ ہوا میں چکراتی ہوئی دانے کے ساتھ نیچے گندی نالی میں جا پڑی،ابھی اس کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے تھے کہ ایک بھوکا کیڑا جو شکار کی تلاش میں قریب ہی تیر رہا تھا خدا کی بھیجی ہوئی نعمت سمجھ کر فوراً اسے چٹ کر گیا،اور یوں ایک مغرور چیونٹی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔
کسی دیوار میں ایک دراڑ تھی اور اس میں بہت سی چیونٹیوں نے اپنا گھر بنا لیا تھا۔ان میں ایک مغرور اور موٹی چیونٹی بھی شامل تھی۔
اسے اپنی طاقت اور ذہانت پر بڑا غرور تھا ۔وہ اکثر اپنے غول کی ملکہ بننے کے خواب دیکھا کرتی،لیکن غول کی سردار چیونٹی اتنی عقلمند اور رحمدل تھی کہ اس کے آگے موٹی چیونٹی کی ایک نہیں چلتی تھی۔اس کے سازشی ذہن نے بڑے بڑے لالچ دے کر تمام چیونٹیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کئی بار کوشش کی لیکن چیونٹیاں اپنی سردار سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ ایک چیونٹی بھی اس کے ورغلانے میں نہ آئی۔نرمی سے کام نہیں بن سکا تو اس نے اپنی طاقت کے سہارے ان پر ظلم کرنے شروع کر دئیے۔کسی بھی چیونٹی کو اکیلی دیکھ کر وہ اسے مارنے لگتی اور ان کا دانہ بھی چھین لیتی۔سارے غول میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا،ہر چیونٹی اس کے ظلم سے تھرانے لگی تھی۔جب جینا بہت دشوار ہو گیا تو ایک دن تمام چیونٹیاں فریاد لے کر اپنی ملکہ کے پاس پہنچیں۔پوری توجہ اور ہمدردی سے ایک ایک کی شکایت سننے کے بعد ملکہ بڑے خلوص اور سنجیدگی سے بولی’’بہنو! میں تم سب کے دکھ میں برابر کی شریک ہوں ۔ میری بھی یہی خواہش ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے اس لیے میں اس کا فیصلہ خدا کے سپرد کرتی ہوں کیونکہ وہی بہتر انصاف کرنے والا ہے۔‘‘تمام چیونٹیوں کو اپنی سردار کی نیک دلی اور عقلمندی پر پورا بھروسہ تھا۔چنانچہ ملکہ کی باتوں کو وہ گرہ میں باندھ کر ہنسی خوشی گھر چلی گئیں۔
چند دن سکون سے گزرے تھے کہ ایک دن ملکہ چیونٹی دوسری چیونٹیوں کے ساتھ مل کر بڑا دانہ دیوار پر چڑھانے کی کوشش کر رہی تھی،لیکن وہ اتنا وزنی تھا کہ چڑھاتے چڑھاتے وہ تھک کر نڈھال ہو گئیں۔ابھی وہ ایک جگہ کھڑی ہوئی سانس درست کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ اتفاق سے موٹی مغرورچیونٹی بھی ادھر آ نکلی اور انہیں ہانپتے کانپتے دیکھ کر ملکہ کا مذاق اڑاتے ہوئے غرورسے کہنے لگی’’ہونہہ! ایک معمولی سا دانہ تم لوگوں سے نہیں لے جایا جا رہا،میں ملکہ ہوتی تو پلک جھپکتے میں اوپر پہنچا دیتی۔‘‘ اپنی ملکہ کی توہین سن کر تما م چیونٹیاں غضبنا ک ہو گئیں اور اسے اپنے گھمنڈ کا سبق دینے کے لیے انہوں نے اس پر دانہ لڑھکانا چاہا ،لیکن ملکہ چیونٹی نے انہیں فوراً روک دیا اور بولی’’بہنو! ذرا صبر سے کا م لو،صبر کا پھل میٹھا اور غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔اللہ پر بھروسہ رکھو وہ اس کے غرور کو بہت جلد خاک میں ملا دے گا‘‘۔چیونٹیاں اپنے غصے پر قابو پا کر پھر سے دانہ اوپر گھسیٹنے لگیں۔انہیں خاموشی سے اوپر جاتا دیکھ کر موٹی چیونٹی کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔وہ سمجھی کہ ملکہ اور ا س کی ساتھ ڈر گئی ہیں۔اس لیے وہ ان کے پاس جا کے ملکہ کا اور بھی مذاق اڑانے لگی’’تم لوگ بیوقوف ہو جو ایسی کمزور اور مریل کو اپنی ملکہ بنایا ہے ۔یہ تو تمہارے ساتھ مل کر بھی ایک معمولی سا بوجھ نہیں گھسیٹ سکتی۔مجھے اپنی ملکہ بنا لو تو میں اس بوجھ کو اکیلے ہی اوپر پہنچا سکتی ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی ملکہ چیونٹی کے ہونٹوں پر سنجیدہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔اس نے ایک نظر نیچے ڈالی جہاں گندی نالی بہہ رہی تھی،پھر وہ کچھ سوچ کر موٹی چیونٹی سے بولی’’بہن ! تم سچ کہتی ہو۔واقعی ا ب میں بہت کمزور ہو چکی ہوں اور سرداری نہیں کر سکتی۔اگر تم اس دانے کو اوپر پہنچا دو تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اور غول کی تمام چیونٹیاں تمہیں اپنی ملکہ تسلیم کر لیں گی‘‘،ملکہ کی بات سن کرمغرور چیونٹی خوشی سے اور پھول گئی۔اس نے سوچا کہ میرے ملکہ بننے میں اب زیادہ دیر باقی نہیں رہی۔ملکہ کے خاموش ہوتے ہی اس نے جھپٹ کر چیونٹیوں سے دانہ لے لیا ،لیکن دانہ اٹھاتے ہی اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔بھاری بوجھ سے اس کا بدن تھرانے لگا۔اس کے لیے دانے کو سنبھالنا اور ہاتھ پائوں جمائے رکھنا دشوار ہو گیا۔
اپنی غلطی پر پچھتاتے ہوئے اس نے ملکہ چیونٹی اور ا س کی ساتھیوں کو مدد کے لیے آواز دینا چاہی لیکن اس سے پہلے ہی اس کے ہاتھ پیر دیوار سے اکھڑ گئے اور وہ ہوا میں چکراتی ہوئی دانے کے ساتھ نیچے گندی نالی میں جا پڑی،ابھی اس کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے تھے کہ ایک بھوکا کیڑا جو شکار کی تلاش میں قریب ہی تیر رہا تھا خدا کی بھیجی ہوئی نعمت سمجھ کر فوراً اسے چٹ کر گیا،اور یوں ایک مغرور چیونٹی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔