I
intelligent086
Guest
مت بول بڑا بول ۔۔۔۔ رینا محمود قریشی
ایک گائوں میں بہت امیر کبیر راجہ رہتا تھا۔دنیا کی ہر نایاب چیز اس کے محل میں موجود تھی۔اس کی 7 بیٹیاں تھیں۔راجہ کی ساتوں بیٹیاں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں۔راجہ کو اپنی بیٹیوں سے بے حد محبت تھی۔وہ ان کی ہر فرمائش پوری کرتا اور ہر کام اپنی بیٹیوں کی مرضی کے مطابق ہی کرتا۔گھر میں صرف ان ہی کی مرضی کے پکوان بنائے جاتے۔
ایک دن راجہ نے اپنی بیٹیوں کو جمع کیا اور بولا’’میری بچیوں آپ سب یہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہیں،لیکن کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ یہ سب کس کے نصیب کا کھا رہی ہیں؟‘‘ سوال سن کر راجہ کی بڑی بیٹی بولی ’’ابا حضور! ہم آپ کے نصیب کا کھاتے ہیں۔‘‘راجہ یہ سن کر بہت خوش ہوا ،پھر اس نے یہی سوال اپنی دوسری،تیسری اور چوتھی بیٹی سے بھی پوچھا۔6 بیٹیوں نے یکدم جواب دیا’’ابا حضور ! ہم بلا شبہ آپ ہی کے نصیب کا کھاتے ہیں۔‘‘راجہ نے جب اپنی ساتویں بیٹی کو خاموش پایا تو اسے دیکھ کر بولا’’بیٹی کیا تم میرے سوال کے جواب میں کچھ نہیں کہو گی۔؟‘‘ساتویں بیٹی نے اپنی 6 بہنوں کو دیکھا اور سر جھکا کے بولی’’ابا حضور! ہم اپنے نصیب کا کھاتے ہیں۔‘‘راجہ یہ سن کر خو ب آگ بگولہ ہوتے ہوئے بولا’’میں تمہاری شادی کسی غریب لڑکے سے کروں گا اور پھر دیکھوں گا کہ تم یہ مزے مزے کے پکوان کیسے کھاتی ہو اور عیش و عشرت کی زندگی کیسے گزارتی ہو۔‘‘راجہ نے مشیر خاص کو حکم دیا کہ’’ جائو اور سڑک پر جو بھی تمہیں غریب اور لاچار انسان نظر آئے اس کو دربار میں لے آئو۔‘‘راجہ نے اس لڑکے کا جائزہ لیا وہ لڑکا ایک پیر سے معذور تھا اور اس کے کپڑے بھی بہت خستہ حال تھے۔ راجہ اس کو دیکھ کر مسکرایا اور اپنی بیٹیوں کو بلوا کر بولا۔یہ ہماری سب سے چھوٹی بیٹی کا ہونے والا شو ہر ہے،ان دونوں کی کل شادی ہے۔ا س کے بعد راجہ اپنی چھوٹی بیٹی کی طرف دیکھ کر بولا’’آپ کو یہ رشتہ منظور ہے؟‘‘جواب میں راجہ کی چھوٹی بیٹی بولی ’’جی ابا حضور! ہمیں یہ رشتہ قبول ہے ۔ آپ نے جو بھی فیصلہ کیا ہو گا وہ صحیح ہو گا۔‘‘راجہ اپنی بیٹی کو اس قدر پُر سکون اور سنجیدہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور اپنی حیرانی پر قابو پاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دوسرے دن صبح ہی لوگ راجہ کے محل میں جمع ہونے لگے،کچھ رسومات ہوئیں اور راجہ نے ایک جوڑے میں اپنی بیٹی کو رخصت کر دیا۔چلتے چلتے شہزادی نے اس معذور نوجوان سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟جواباً وہ بولا ’’احمد‘‘ شہزادی پھر گویا ہوئی آپ کا گھر کہاں ہے؟اتنے میں احمد ایک جھونپڑے کے پاس رُکتے ہوئے بولا ’’شہزادی صاحبہ یہ میرا گھر ہے۔‘‘شہزادی جھونپڑی کا بغور جائزہ لینے لگی۔دو چارپائی جتنی جھونپڑی میں ایک کونے میں چھوٹا باورچی خانہ تھا۔احمد وہاں بیٹھ کر چائے بنانے لگا۔شہزادی بہت تھک گئی تھی اس لیے آرام کرنے کیلئے لیٹ گئی ، لیکن اسے سکون نہیں مل رہا تھاکیونکہ زمین کہیں سے اونچی اور کہیں سے نیچی تھی ۔ شہزادی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اور احمد سے کدال لا کر زمین کھودنے لگی۔شہزادی نے جیسے ہی کدال زمین پر ماری اس کو کسی لوہے کی چیز ٹکرانے کی آواز آئی۔آواز سن کر احمد بھی شہزادی کی طرف دیکھنے لگا۔شہزادی نے مذکورہ جگہ پر زمین مزید گہرائی میں کھودنا شروع کی تو وہاں ایک پلیٹ سی نظر آئی۔احمد شہزادی کے پا س آیا اور بولا ’’شہزادی آپ یہاں سے ہٹ جائیے معلوم نہیں یہ کیا بلا ہے؟‘‘شہزادی نے احمد کو دیکھا اور نیچے بیٹھ کر ہاتھ سے مٹی ہٹانے لگی۔آدھے گھنٹے کی کوشش کے بعد ایک سونے سے بھری ہوئی دیگ بر آمد ہوئی۔احمد کی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ اتنے سارے زیورات،احمد کے منہ سے بے اختیار نکلا۔شہزادی نے احمد کو نصیحت کی کہ وہ اس بارے میں کسی کو نہ بتائے۔شہزادی آہستہ آہستہ زیورات نکالتی اور انہیں فروخت کر دیتی۔اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے شہزادی پھر سے امیر کبیر ہو گئی۔راجہ کو پتہ چلا کہ اس گائوں میں اُس سے بھی زیادہ امیر ایک رانی آئی ہے تو اس نے مشیر خاص کو کہا کہ’’جائو معلوم کر کے آئو کون ہے جو مجھ سے بھی زیادہ دولت مند ہے۔‘‘وزیر کچھ دیر بعد واپس آیا تو بولا’’بادشاہ سلامت وہ اور کوئی نہیں بلکہ آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہے۔‘‘راجہ کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا تو خود تصدیق کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔راجہ جب چھوٹی شہزادی کے محل پہنچا تو اس کی شان و شوکت دیکھ کر حیران رہ گیا۔شہزادی پہلے سے کہیں اچھی اور خوشحال زندگی گزار رہی تھی۔تب راجہ شہزادی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا’’بیٹی یہ سب کیا ہے؟’’شہزادی نے جواب دیا’’ابا حضور! یہ ہمارا نصیب ہے۔‘‘ راجہ بہت شرمندہ ہوا اور ندامت کے آنسو اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔اس نے توبہ کی کہ آئندہ کبھی بڑا بول نہیں بولے گا۔
ایک گائوں میں بہت امیر کبیر راجہ رہتا تھا۔دنیا کی ہر نایاب چیز اس کے محل میں موجود تھی۔اس کی 7 بیٹیاں تھیں۔راجہ کی ساتوں بیٹیاں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں۔راجہ کو اپنی بیٹیوں سے بے حد محبت تھی۔وہ ان کی ہر فرمائش پوری کرتا اور ہر کام اپنی بیٹیوں کی مرضی کے مطابق ہی کرتا۔گھر میں صرف ان ہی کی مرضی کے پکوان بنائے جاتے۔
ایک دن راجہ نے اپنی بیٹیوں کو جمع کیا اور بولا’’میری بچیوں آپ سب یہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہیں،لیکن کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ یہ سب کس کے نصیب کا کھا رہی ہیں؟‘‘ سوال سن کر راجہ کی بڑی بیٹی بولی ’’ابا حضور! ہم آپ کے نصیب کا کھاتے ہیں۔‘‘راجہ یہ سن کر بہت خوش ہوا ،پھر اس نے یہی سوال اپنی دوسری،تیسری اور چوتھی بیٹی سے بھی پوچھا۔6 بیٹیوں نے یکدم جواب دیا’’ابا حضور ! ہم بلا شبہ آپ ہی کے نصیب کا کھاتے ہیں۔‘‘راجہ نے جب اپنی ساتویں بیٹی کو خاموش پایا تو اسے دیکھ کر بولا’’بیٹی کیا تم میرے سوال کے جواب میں کچھ نہیں کہو گی۔؟‘‘ساتویں بیٹی نے اپنی 6 بہنوں کو دیکھا اور سر جھکا کے بولی’’ابا حضور! ہم اپنے نصیب کا کھاتے ہیں۔‘‘راجہ یہ سن کر خو ب آگ بگولہ ہوتے ہوئے بولا’’میں تمہاری شادی کسی غریب لڑکے سے کروں گا اور پھر دیکھوں گا کہ تم یہ مزے مزے کے پکوان کیسے کھاتی ہو اور عیش و عشرت کی زندگی کیسے گزارتی ہو۔‘‘راجہ نے مشیر خاص کو حکم دیا کہ’’ جائو اور سڑک پر جو بھی تمہیں غریب اور لاچار انسان نظر آئے اس کو دربار میں لے آئو۔‘‘راجہ نے اس لڑکے کا جائزہ لیا وہ لڑکا ایک پیر سے معذور تھا اور اس کے کپڑے بھی بہت خستہ حال تھے۔ راجہ اس کو دیکھ کر مسکرایا اور اپنی بیٹیوں کو بلوا کر بولا۔یہ ہماری سب سے چھوٹی بیٹی کا ہونے والا شو ہر ہے،ان دونوں کی کل شادی ہے۔ا س کے بعد راجہ اپنی چھوٹی بیٹی کی طرف دیکھ کر بولا’’آپ کو یہ رشتہ منظور ہے؟‘‘جواب میں راجہ کی چھوٹی بیٹی بولی ’’جی ابا حضور! ہمیں یہ رشتہ قبول ہے ۔ آپ نے جو بھی فیصلہ کیا ہو گا وہ صحیح ہو گا۔‘‘راجہ اپنی بیٹی کو اس قدر پُر سکون اور سنجیدہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور اپنی حیرانی پر قابو پاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دوسرے دن صبح ہی لوگ راجہ کے محل میں جمع ہونے لگے،کچھ رسومات ہوئیں اور راجہ نے ایک جوڑے میں اپنی بیٹی کو رخصت کر دیا۔چلتے چلتے شہزادی نے اس معذور نوجوان سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟جواباً وہ بولا ’’احمد‘‘ شہزادی پھر گویا ہوئی آپ کا گھر کہاں ہے؟اتنے میں احمد ایک جھونپڑے کے پاس رُکتے ہوئے بولا ’’شہزادی صاحبہ یہ میرا گھر ہے۔‘‘شہزادی جھونپڑی کا بغور جائزہ لینے لگی۔دو چارپائی جتنی جھونپڑی میں ایک کونے میں چھوٹا باورچی خانہ تھا۔احمد وہاں بیٹھ کر چائے بنانے لگا۔شہزادی بہت تھک گئی تھی اس لیے آرام کرنے کیلئے لیٹ گئی ، لیکن اسے سکون نہیں مل رہا تھاکیونکہ زمین کہیں سے اونچی اور کہیں سے نیچی تھی ۔ شہزادی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اور احمد سے کدال لا کر زمین کھودنے لگی۔شہزادی نے جیسے ہی کدال زمین پر ماری اس کو کسی لوہے کی چیز ٹکرانے کی آواز آئی۔آواز سن کر احمد بھی شہزادی کی طرف دیکھنے لگا۔شہزادی نے مذکورہ جگہ پر زمین مزید گہرائی میں کھودنا شروع کی تو وہاں ایک پلیٹ سی نظر آئی۔احمد شہزادی کے پا س آیا اور بولا ’’شہزادی آپ یہاں سے ہٹ جائیے معلوم نہیں یہ کیا بلا ہے؟‘‘شہزادی نے احمد کو دیکھا اور نیچے بیٹھ کر ہاتھ سے مٹی ہٹانے لگی۔آدھے گھنٹے کی کوشش کے بعد ایک سونے سے بھری ہوئی دیگ بر آمد ہوئی۔احمد کی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ اتنے سارے زیورات،احمد کے منہ سے بے اختیار نکلا۔شہزادی نے احمد کو نصیحت کی کہ وہ اس بارے میں کسی کو نہ بتائے۔شہزادی آہستہ آہستہ زیورات نکالتی اور انہیں فروخت کر دیتی۔اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے شہزادی پھر سے امیر کبیر ہو گئی۔راجہ کو پتہ چلا کہ اس گائوں میں اُس سے بھی زیادہ امیر ایک رانی آئی ہے تو اس نے مشیر خاص کو کہا کہ’’جائو معلوم کر کے آئو کون ہے جو مجھ سے بھی زیادہ دولت مند ہے۔‘‘وزیر کچھ دیر بعد واپس آیا تو بولا’’بادشاہ سلامت وہ اور کوئی نہیں بلکہ آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہے۔‘‘راجہ کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا تو خود تصدیق کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔راجہ جب چھوٹی شہزادی کے محل پہنچا تو اس کی شان و شوکت دیکھ کر حیران رہ گیا۔شہزادی پہلے سے کہیں اچھی اور خوشحال زندگی گزار رہی تھی۔تب راجہ شہزادی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا’’بیٹی یہ سب کیا ہے؟’’شہزادی نے جواب دیا’’ابا حضور! یہ ہمارا نصیب ہے۔‘‘ راجہ بہت شرمندہ ہوا اور ندامت کے آنسو اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔اس نے توبہ کی کہ آئندہ کبھی بڑا بول نہیں بولے گا۔