I
intelligent086
Guest
میرا پہلا روزہ ۔۔۔۔ رئیس صدیقی
اُس دن مِلا زندگی کا اہم ترین سبق !
ماہ ِرمضان میں اکثر مجھے لکھنئو میں گذر ہوا اپنا بچپن یاد آنے لگتا ہے۔آنکھوں کے سامنے سے یادوں کا معصوم اور ست رنگی کارواں گزرنے لگتا ہے۔
اس وقت میری عمر تقریباً آٹھ نو سال کی ہوگی۔ شدت سے گرمی پڑ رہی تھی،جیسے آج کل ُپورے ملک میں گرمی کی تپش اور کرونا وائرس کے قہر سے بچنے کے لئے روزانہ چوبیس گھنٹے لاک ڈائن سے برے حال ہیں۔
میں بچپن میںروزانہ صبح سحری میں اٹھ جاتا ۔یا یوں کہیں کہ دودھ ۔پھینی اور آلو کے دیسی گھی میں تلے پراٹھوں کی خوشبو مجھے اٹھا دیتی تھی۔
اس کے علاوہ، ان دنوں سحری کے وقت، روزانہ کچھ اللہ کے بندے سحری نعرہ لگاتے کہ
جاگو سونے والو۔ غفلت کی نیند سے اٹھو۔سحری کا وقت ہو گیا ہے۔شیطان بہکائے گا۔ اس کے بہکاوے سے بچو۔ یہ مبارک مہینہ دوبارہ نصیب ہو نہ ہو۔گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا وغیرہ وغیرہ۔
وہ لوگ ڈفلی بجانے کا اپنا ہنر دکھاتے۔ عقیدت بھری آواز میں سحری نغمے گاتے۔ نعت، منقبت اور حمد پیش کرتے۔ گویا کہ وہ لوگ سحری کے لئے اٹھا کر ہی دم لیتے۔
میں روزانہ سحری کرکے سونے کی کوشش کرتا لیکن امی اپنے ساتھ نماز پڑھواتیں اور تب جاکر سونے کی اجازت ملتی۔
ان دنوں روز شام کو مسجد میں افطاری پہنچانے کا رواج تھا۔یہ میری ڈیوٹی تھی کہ میں روز مسجد میں افطاری پہنچاوئں اور میں اکثر وہیں رک کر روزہ کھولتا، افطار کرتا اور مغرب کی نماز ادا کرتا۔
ایک دن امی نے کہاکہ جب تم روز سحری کرتے ہو۔ روزہ کھولتے ہو، ا فطار کرتے ہو۔ نماز پرھتے ہو، تو تم روزہ رکھ لیا کرو۔
چاہتا تو میں بھی یہی تھا لیکن اکثر والدین اپنے بچوں کو کم عمر ی میں روزہ رکھنے کے لئے اصرار نہیں کرتے ہیں ، اس لئے مجھے بھی رضامندی کی ضرورت تھی۔ بہرحال روزہ کشائی کے لئے چودھواں روزہ مقرر ہوا۔
سحری میںمیری پسند کی چیزیںبنائی گیئں۔ اس سحری میں کچھ زیادہ ہی چیزیں تھیں ، خاص طور پر کیٔ شربت تھے۔ سہ پہر سے ہی افطاری اور کھانا پکانے کا اہتمام ہونے لگا۔
رشتیداروں اور محلہ کے بہت سے لوگوں کو افطار کی دعوت دی گئی۔ رشتیداروں کو عشائیہ، ڈنر کی بھی دعوت تھی ۔دعوت دینے کی ذ میداری میں مجھے بھی لگایا گایا۔اسکا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ میرا بہت سا وقت اس کام میں گذر گیا۔ کچھ وقت نماز اور تلاوت قران میں بیتا۔
جو جو وقت گذر رہا تھا، پیاس اور بھوک شدت اختیار کر رہی تھی ۔امی یہ سب کچھ محسوس کر رہی تھیں۔لہٰذہ وہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد مجھے اپنے پاس بلاتیں اور روزہ رکھنے کی فضیلت بیان کرتیں۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے مجھے نصیحت کی تھی:
بیٹا، بہت سے غریب لوگ بھوک اور پیاس سے بیمار ہو جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ مر جاتے ہیں۔ہمیں انکی مدد کرنی چھاہئے۔ہمیشہ اپنے ساتھ پانی اور کچھ کھانے کا سامان اپنے ساتھ رکھنا چاہے تاکہ راستے میں ، اسکول میں یا اپنے در پہ آئے لوگوں کی مدد کرنی چاہئے۔
پھر کہتیں کہ جائو تھوڑی دیر آرام کرلو ۔میں کمرہ میں جاتا ، پلنگ پر تھوڑا آرام کرتا۔کروٹیں بدلتا،اٹھ جاتا، کچھ پڑھتا، لیکن آرام کہاں؟ پھر باہر آجاتا،اممی مسکراتیں اور اپنے پاس بٹھا کر ماہ رمضان کی اہمیت بتانے لگتیں۔
بیٹا، یہ مہینہ ہمیں ٹریننگ دیتا ہے کہ ہم اپنی بھوک، پیاس، غصہ، لالچ، غیبت ،وقت کی بربادی اور تمام برائیوں پر کیسے قابو پا ئیں تاکہ ہم آیندہ آنے والوں دنوں میں ایک اچھے انسان کی طرح اپنے گھر، اپنے سماج اور اپنے ملک کا بھلا کر سکیں!
بہرحال، شام کے چھ بج گئے۔ مجھے تیار ہونے کے لئے کہا گیا۔پہنے کے لئے مجھے نیا جوڑا دیا گیا جو میری خالہ میرے لییٔ لیکر آئیں تھیں۔سفید چوڑیدار پاجامہ، لکھنوی چکن کا سفیدکرتا اور چکن کی جالیدار خوبصورت ٹوپی اور تین عدد رومال۔
اسکے بعد مجھے گرمی کے لحاظ سے سوتی کپڑے کی سفید شیروانی پہنائی گئی۔ اممی نے مجھے بہت اچھا سا عطر لگایا۔ والد صاحب کی منھ بولی بہن ،میری پھوپی جان نے پھولوں کا ہار پہنایا۔ اسطرح مجھے کسی دولھے راجہ کی طرح خوب تیار کیا گیا۔
رشتیداروں میں کچھ لوگ پھل، تو کچھ لوگ سوکھا میوہ اور دیگر کھانے کی چھیزیں سینی یعنی بڑی سی تھال میں سجا کر ، سنہرے اور روپہلے گوٹے لگے کنارے والی سرخ ریشمی خوان سے ڈھک کر لائے تھے ۔اسی کے ساتھ مبارکباد اور دعائیں دینے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
کو ئی بہت پیار اور محبت سے گلے لگا رہا تھا تو کوئی سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیر رہا تھا گویا کہ مرکز تقریب میں اور صرف میں تھا۔
دفتر سے والد صاحب بھی آگئے۔ بہت پیار سے مجھے اپنے سینے سے کافی دیر تک لگائے رکھا اور بہت سی دعائیں دیں۔
تقریباً ساڑھے چھ بجے ہم سب دسترخوان پر بیٹھ گئے۔افطاری میں کھجور ، تخم ملنگا کا شربت( چھوٹے چھوٹے سفید دانے کے برابر پھول والا شربت)فالسہ کا شربت، روح افزا، شکنجی،نمکین لسسی، پیاز کے پکوڑے،بیسن میں تلی ہوئی مرچ، کابلی چنے، دہی بڑے ، آلو کے قطلے،تربوز ، خربوزہ اور آم کی قاشیں۔ غرضکہ انوائو اقسام کی نعمتیں دستر خوان کی زینت بنی ہوئی تھیںاور انہیں دیکھ دیکھ کر میرے منھ میں پانی آرہا تھا۔
ابو جان نے میری حالت ِ غیر کو بغور دیکھا اور فرمایا۔
بیٹا، یہ وقت اپنے نفس،اپنی بھوک پیاس اور اپنے اوپر قابو پانے کی تربیت کا ہے۔اس وقت اللہ سے دعاء کرو کہ وہ ہمارا روزہ قبول فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم پورے مہینے روزہ رکھ سکیں۔پھر ہم سبھی لوگ دعاء کرنے لگے کہ اتنے میں گولہ دغہ اور پھر مسجد سے اذا ن کی آواز آئی۔
میں نے سب سے پہلے کھجور سے روزہ کھولا اور شربت روح افزا پیا۔پیاس اور بھوک کو تھوڑی راحت ملی۔پھر جلدی جلدی بیسن میں تلی پیاز کی پھلکییاں کھانے لگا۔امی نے اشارہ کیا کہ آرام سے کھائوں۔
افطاری کے بعد ، گھر پر ہی نماز باجماعت پڑھی گئی کیونکہ خاندان اور محلہ کے بہت سے ا فراد میری روزہ کشائی میں شریک ہوئے تھے۔
کچھ دیر باتیں ہوئیں۔پھر دستر خوان پر کھانا لگنے لگا۔ڈنر میں بھی مزے مزے کے پکوان تھے۔مجھے یخنی پلائو اور سفید زردہ بہت پسند ہے۔ رومالی روٹی ،کباب،قورمہ دوپیازہ اور پسنددہ کے ساتھ شیر مال بھی کھائی۔شاہی ٹکڑے اور کھیر کا بھی مزہ لیا۔یعنی اتنا کھایا کہ پیٹ پھول گیا۔
پھر میری ڈیوٹی لگی کہ میں مسجد کے امام صاحب کو کھانا دیکر آئوں۔
ان دنوں مسجد کے امام کو دوپہر اور رات کا کھاناپہنچانا محلہ کے ہر گھر پر اخلاقی طور پر لازمی تھا۔ ہر گھر کا دن اور وقت مقرر تھا۔
بہر حال، اس ماہ بقیہ پورے روزے رکھے۔پھر یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن مشاہدہ اور تجربہ یہ بھی ہوا کہ اللہ جسے توفیق دے، وہی شخص روزہ رکھ سکتا ہے !
اُس دن مِلا زندگی کا اہم ترین سبق !
ماہ ِرمضان میں اکثر مجھے لکھنئو میں گذر ہوا اپنا بچپن یاد آنے لگتا ہے۔آنکھوں کے سامنے سے یادوں کا معصوم اور ست رنگی کارواں گزرنے لگتا ہے۔
اس وقت میری عمر تقریباً آٹھ نو سال کی ہوگی۔ شدت سے گرمی پڑ رہی تھی،جیسے آج کل ُپورے ملک میں گرمی کی تپش اور کرونا وائرس کے قہر سے بچنے کے لئے روزانہ چوبیس گھنٹے لاک ڈائن سے برے حال ہیں۔
میں بچپن میںروزانہ صبح سحری میں اٹھ جاتا ۔یا یوں کہیں کہ دودھ ۔پھینی اور آلو کے دیسی گھی میں تلے پراٹھوں کی خوشبو مجھے اٹھا دیتی تھی۔
اس کے علاوہ، ان دنوں سحری کے وقت، روزانہ کچھ اللہ کے بندے سحری نعرہ لگاتے کہ
جاگو سونے والو۔ غفلت کی نیند سے اٹھو۔سحری کا وقت ہو گیا ہے۔شیطان بہکائے گا۔ اس کے بہکاوے سے بچو۔ یہ مبارک مہینہ دوبارہ نصیب ہو نہ ہو۔گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا وغیرہ وغیرہ۔
وہ لوگ ڈفلی بجانے کا اپنا ہنر دکھاتے۔ عقیدت بھری آواز میں سحری نغمے گاتے۔ نعت، منقبت اور حمد پیش کرتے۔ گویا کہ وہ لوگ سحری کے لئے اٹھا کر ہی دم لیتے۔
میں روزانہ سحری کرکے سونے کی کوشش کرتا لیکن امی اپنے ساتھ نماز پڑھواتیں اور تب جاکر سونے کی اجازت ملتی۔
ان دنوں روز شام کو مسجد میں افطاری پہنچانے کا رواج تھا۔یہ میری ڈیوٹی تھی کہ میں روز مسجد میں افطاری پہنچاوئں اور میں اکثر وہیں رک کر روزہ کھولتا، افطار کرتا اور مغرب کی نماز ادا کرتا۔
ایک دن امی نے کہاکہ جب تم روز سحری کرتے ہو۔ روزہ کھولتے ہو، ا فطار کرتے ہو۔ نماز پرھتے ہو، تو تم روزہ رکھ لیا کرو۔
چاہتا تو میں بھی یہی تھا لیکن اکثر والدین اپنے بچوں کو کم عمر ی میں روزہ رکھنے کے لئے اصرار نہیں کرتے ہیں ، اس لئے مجھے بھی رضامندی کی ضرورت تھی۔ بہرحال روزہ کشائی کے لئے چودھواں روزہ مقرر ہوا۔
سحری میںمیری پسند کی چیزیںبنائی گیئں۔ اس سحری میں کچھ زیادہ ہی چیزیں تھیں ، خاص طور پر کیٔ شربت تھے۔ سہ پہر سے ہی افطاری اور کھانا پکانے کا اہتمام ہونے لگا۔
رشتیداروں اور محلہ کے بہت سے لوگوں کو افطار کی دعوت دی گئی۔ رشتیداروں کو عشائیہ، ڈنر کی بھی دعوت تھی ۔دعوت دینے کی ذ میداری میں مجھے بھی لگایا گایا۔اسکا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ میرا بہت سا وقت اس کام میں گذر گیا۔ کچھ وقت نماز اور تلاوت قران میں بیتا۔
جو جو وقت گذر رہا تھا، پیاس اور بھوک شدت اختیار کر رہی تھی ۔امی یہ سب کچھ محسوس کر رہی تھیں۔لہٰذہ وہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد مجھے اپنے پاس بلاتیں اور روزہ رکھنے کی فضیلت بیان کرتیں۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے مجھے نصیحت کی تھی:
بیٹا، بہت سے غریب لوگ بھوک اور پیاس سے بیمار ہو جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ مر جاتے ہیں۔ہمیں انکی مدد کرنی چھاہئے۔ہمیشہ اپنے ساتھ پانی اور کچھ کھانے کا سامان اپنے ساتھ رکھنا چاہے تاکہ راستے میں ، اسکول میں یا اپنے در پہ آئے لوگوں کی مدد کرنی چاہئے۔
پھر کہتیں کہ جائو تھوڑی دیر آرام کرلو ۔میں کمرہ میں جاتا ، پلنگ پر تھوڑا آرام کرتا۔کروٹیں بدلتا،اٹھ جاتا، کچھ پڑھتا، لیکن آرام کہاں؟ پھر باہر آجاتا،اممی مسکراتیں اور اپنے پاس بٹھا کر ماہ رمضان کی اہمیت بتانے لگتیں۔
بیٹا، یہ مہینہ ہمیں ٹریننگ دیتا ہے کہ ہم اپنی بھوک، پیاس، غصہ، لالچ، غیبت ،وقت کی بربادی اور تمام برائیوں پر کیسے قابو پا ئیں تاکہ ہم آیندہ آنے والوں دنوں میں ایک اچھے انسان کی طرح اپنے گھر، اپنے سماج اور اپنے ملک کا بھلا کر سکیں!
بہرحال، شام کے چھ بج گئے۔ مجھے تیار ہونے کے لئے کہا گیا۔پہنے کے لئے مجھے نیا جوڑا دیا گیا جو میری خالہ میرے لییٔ لیکر آئیں تھیں۔سفید چوڑیدار پاجامہ، لکھنوی چکن کا سفیدکرتا اور چکن کی جالیدار خوبصورت ٹوپی اور تین عدد رومال۔
اسکے بعد مجھے گرمی کے لحاظ سے سوتی کپڑے کی سفید شیروانی پہنائی گئی۔ اممی نے مجھے بہت اچھا سا عطر لگایا۔ والد صاحب کی منھ بولی بہن ،میری پھوپی جان نے پھولوں کا ہار پہنایا۔ اسطرح مجھے کسی دولھے راجہ کی طرح خوب تیار کیا گیا۔
رشتیداروں میں کچھ لوگ پھل، تو کچھ لوگ سوکھا میوہ اور دیگر کھانے کی چھیزیں سینی یعنی بڑی سی تھال میں سجا کر ، سنہرے اور روپہلے گوٹے لگے کنارے والی سرخ ریشمی خوان سے ڈھک کر لائے تھے ۔اسی کے ساتھ مبارکباد اور دعائیں دینے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
کو ئی بہت پیار اور محبت سے گلے لگا رہا تھا تو کوئی سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیر رہا تھا گویا کہ مرکز تقریب میں اور صرف میں تھا۔
دفتر سے والد صاحب بھی آگئے۔ بہت پیار سے مجھے اپنے سینے سے کافی دیر تک لگائے رکھا اور بہت سی دعائیں دیں۔
تقریباً ساڑھے چھ بجے ہم سب دسترخوان پر بیٹھ گئے۔افطاری میں کھجور ، تخم ملنگا کا شربت( چھوٹے چھوٹے سفید دانے کے برابر پھول والا شربت)فالسہ کا شربت، روح افزا، شکنجی،نمکین لسسی، پیاز کے پکوڑے،بیسن میں تلی ہوئی مرچ، کابلی چنے، دہی بڑے ، آلو کے قطلے،تربوز ، خربوزہ اور آم کی قاشیں۔ غرضکہ انوائو اقسام کی نعمتیں دستر خوان کی زینت بنی ہوئی تھیںاور انہیں دیکھ دیکھ کر میرے منھ میں پانی آرہا تھا۔
ابو جان نے میری حالت ِ غیر کو بغور دیکھا اور فرمایا۔
بیٹا، یہ وقت اپنے نفس،اپنی بھوک پیاس اور اپنے اوپر قابو پانے کی تربیت کا ہے۔اس وقت اللہ سے دعاء کرو کہ وہ ہمارا روزہ قبول فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم پورے مہینے روزہ رکھ سکیں۔پھر ہم سبھی لوگ دعاء کرنے لگے کہ اتنے میں گولہ دغہ اور پھر مسجد سے اذا ن کی آواز آئی۔
میں نے سب سے پہلے کھجور سے روزہ کھولا اور شربت روح افزا پیا۔پیاس اور بھوک کو تھوڑی راحت ملی۔پھر جلدی جلدی بیسن میں تلی پیاز کی پھلکییاں کھانے لگا۔امی نے اشارہ کیا کہ آرام سے کھائوں۔
افطاری کے بعد ، گھر پر ہی نماز باجماعت پڑھی گئی کیونکہ خاندان اور محلہ کے بہت سے ا فراد میری روزہ کشائی میں شریک ہوئے تھے۔
کچھ دیر باتیں ہوئیں۔پھر دستر خوان پر کھانا لگنے لگا۔ڈنر میں بھی مزے مزے کے پکوان تھے۔مجھے یخنی پلائو اور سفید زردہ بہت پسند ہے۔ رومالی روٹی ،کباب،قورمہ دوپیازہ اور پسنددہ کے ساتھ شیر مال بھی کھائی۔شاہی ٹکڑے اور کھیر کا بھی مزہ لیا۔یعنی اتنا کھایا کہ پیٹ پھول گیا۔
پھر میری ڈیوٹی لگی کہ میں مسجد کے امام صاحب کو کھانا دیکر آئوں۔
ان دنوں مسجد کے امام کو دوپہر اور رات کا کھاناپہنچانا محلہ کے ہر گھر پر اخلاقی طور پر لازمی تھا۔ ہر گھر کا دن اور وقت مقرر تھا۔
بہر حال، اس ماہ بقیہ پورے روزے رکھے۔پھر یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن مشاہدہ اور تجربہ یہ بھی ہوا کہ اللہ جسے توفیق دے، وہی شخص روزہ رکھ سکتا ہے !