I
intelligent086
Guest
معافی اور اصلاح کی تربیت ۔۔ عائشہ عارف
عارف صاحب گھر داخل ہوئے تو چاروں بیٹیاں بھی پہنچ گئیں جوکہ مکان کی اوپری منزل پر تھیں۔ سلام کے بعد والد صاحب کے گرد بازو دبانے اور دن بھر کی روداد سنانے کی غرض سے بیٹھ گئیں۔
سدرہ ہمیشہ کی طرح بڑھ چڑھ کر بول رہی تھی اور عارف صاحب بغیر ٹوکے مسکرا مسکرا کر اس کی باتیں سن رہے تھے۔ تبھی انہوں نے محسوس کیا کہ باقی بیٹیاں آج چپ چپ سی ہیں۔
انہوں نے سوالیہ نظروں سے عائشہ، لائبہ اور طیبہ کی طرف دیکھا اور پوچھا آپ لوگ آج خاموش کیوں ہو؟
جواب نہ پاکر انہوں نے بڑی بیٹی کو مخاطب کیا اور دوبارہ سوال کیا عائشہ بیٹا کیا سوچ رہی ہو؟
عائشہ نے طیبہ کی طرف دیکھا اور شرمندہ شرمندہ سا چہرہ واپس نیچے جھکا لیا، سدرہ بولی پاپا آپی عائشہ نے طیبہ کو مارا ہے۔
مارا ہے وہ کیوں؟ عارف صاحب نے عائشہ اور طیبہ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوے پوچھا، طیبہ کے چہرے پر غم و غصے کے اثرات تھے۔
پاپا جب آپ آئے تو آپی عائشہ نے کہا چھوڑو اب موبائل اور سب نیچے چلو مگر آپی طیبہ ڈرامہ دیکھ رہی تھی، وہ کہنے لگیں میں کچھ دیر میں آئوں گی۔ آپی عائشہ نے کہا میں نے آپ کو دن میں موبائل دیا تھا۔ اب بس اور نہیں چھوڑ دو مگر طیبہ مانی ہی نہیں تو آپی عائشہ نے اسے تھپڑ مار دیا، سدرہ نے پورے معاملے کی روداد عارف صاحب تک پہنچا دی۔
پاپا آپی عائشہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہیں اور مارتی بھی ہیں۔ طیبہ نے روہانسی شکل بناکر اپنے چہرے کے نشانات دکھاتے ہوئے کہا۔
پاپا بولے عائشہ بیٹا غلطی کرنے سے پہلے سوچتے ہیں، آئندہ احتیاط کریں، ایسے مت مارا کریں اور طیبہ آپ اپنی آپی کو معاف کر دو۔ میں کیوں معاف کروں پاپا ، آپی نے کونسا معافی مانگی ہے؟ طیبہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
طیبہ بری بات ہے بیٹا ، وہ آپ سے بڑی ہیں، کیا آپ کو اچھا لگے گا کہ وہ آپ سے معافی مانگیں؟ آپ خود ہی معاف کر دو۔پاپا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
سدرہ بولی پاپاجی آپی عائشہ تو مجھ سے معافی مانگتی رہتی ہیں۔ آپ سے کیوں معافی مانگتی ہیں؟ پاپا نے حیرت سے پوچھا۔ جب کبھی وہ مجھے غصے سے ڈانٹتی ہیں یا مارتی ہیں،تو پھر بعد میں مجھ سے معافی مانگ لیتی ہیں۔سدرہ جھٹ سے بولیں۔ سدرہ یہ اچھی بات ہے کیا؟ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
پاپا میں کونسا خود کہتی ہوں ؟سدرہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔ تو پھر بھی آپ خود ہی معاف کر دیا کرو اور کہا کرو آپی آپ پریشان نہ ہوں، میں نے آپ کو معاف کر دیا ہے، عارف صاحب نے محبت سے سمجھایا۔
پاپا جی لیکن اگر میری ہی غلطی ہو اور وہ آگے سے کہہ دیں کہ میں نے تو آپ کی ہی غلطی پہ مارا ہے۔ اچھا تو میں سمجھ گئی۔ میں خود ہی اپنی غلطی مان لوں گی اور آپی سے خود اپنی غلطی کی سوری کرلوں گی، سدرہ نے خود ہی سوال اور پھر جواب دیتے ہوئے کہا۔
چلیں عائشہ طیبہ سے ہاتھ ملائیں، طیبہ آپ بھی آپی سے ہاتھ ملائو ،مسکرا کر سلام لو۔ آپ کو بتایا تھا ناں میں نے کہ جو جھگڑے کے بعد سلام میں پہل کرتا ہے اسے زیادہ اجر وثواب ملتا ہے اب دیکھتے ہیں،آج کون زیادہ اجر لیتا ہے۔
میں لوں گی، دونوں ایک ساتھ بولیں اور ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے سلام کے لیے ہاتھ بڑھا دئیے۔
ماشاء اللہ یہ تو آپ دونوں نے برابر کا ثواب کما لیا، عارف صاحب نے بیٹیوں کی طرف شفقت و محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ان دونوں کی آپس کی ناراضی سے ماحول میں جو خاموشی اور تنائو تھا،وہ ختم ہو گیا اور وہ سب مل کر پاپا کے کان کھانے میں مصروف ہوگئیں۔
آخر میں عارف صاحب نے نشست برخاست کرنے سے پہلے پھر بیٹیوں کی اچھے عمل پر حوصلہ افزائی کی اور برائی سے بچنے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا، بیٹا ہم سب سے غلطیاں اور گناہ ہو جاتے ہیں مگر سب سے بہترین وہ ہے جو اپنی غلطی مان کر اصلاح کر لے۔ تو مجھے امید ہے عائشہ آئندہ آپ بہنوں پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گی اور انہیں پیار سے سمجھائیں گی۔
جی پاپا انشاء اللہ میں اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کروں گی، عائشہ نے آئندہ خیال رکھنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا۔
شاباش ! اور بیٹا ہم سب کو اللہ سے معافی چاہیے تو اللہ چاہتاہے ہم اس کے بندوں کی خطائوں کو معاف کردیا کریں۔ اس لیے کوئی جان بوجھ کر یا انجانے میں ہمارے ساتھ نا انصافی کر دے، خواہ گھر میں ہویا سکول میں تو آپ سب نے اللہ کی رضا کے لیے اسے معاف کر دینا ہے۔
پاپا جی ،پاپا جی یہ بات تو مجھے پہلے ہی پتا ہے۔اور میں اکثر معاف کر دیتی ہوں۔ دیکھیں تبھی تو میرے جھگڑے کا کوئی معاملہ آپ تک نہیں آیا۔ اور میں نے نمازیں بھی ساری پڑھی ہیں، چاہے تو میری ڈائری دیکھ لیں، اب لائبہ نے بھی فٹ سے اپنی اچھائی پاپا جی تک پہنچائی، تاکہ ہمیشہ کی طرح زیادہ انعام حاصل کرسکے۔
عارف صاحب اس کے اس طرح جلدی سے کہنے پر مسکرا دئیے تو عائشہ ،طیبہ سدرہ حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔ جو آج بھی انعام وصول کرنے والی تھی۔
عارف صاحب گھر داخل ہوئے تو چاروں بیٹیاں بھی پہنچ گئیں جوکہ مکان کی اوپری منزل پر تھیں۔ سلام کے بعد والد صاحب کے گرد بازو دبانے اور دن بھر کی روداد سنانے کی غرض سے بیٹھ گئیں۔
سدرہ ہمیشہ کی طرح بڑھ چڑھ کر بول رہی تھی اور عارف صاحب بغیر ٹوکے مسکرا مسکرا کر اس کی باتیں سن رہے تھے۔ تبھی انہوں نے محسوس کیا کہ باقی بیٹیاں آج چپ چپ سی ہیں۔
انہوں نے سوالیہ نظروں سے عائشہ، لائبہ اور طیبہ کی طرف دیکھا اور پوچھا آپ لوگ آج خاموش کیوں ہو؟
جواب نہ پاکر انہوں نے بڑی بیٹی کو مخاطب کیا اور دوبارہ سوال کیا عائشہ بیٹا کیا سوچ رہی ہو؟
عائشہ نے طیبہ کی طرف دیکھا اور شرمندہ شرمندہ سا چہرہ واپس نیچے جھکا لیا، سدرہ بولی پاپا آپی عائشہ نے طیبہ کو مارا ہے۔
مارا ہے وہ کیوں؟ عارف صاحب نے عائشہ اور طیبہ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوے پوچھا، طیبہ کے چہرے پر غم و غصے کے اثرات تھے۔
پاپا جب آپ آئے تو آپی عائشہ نے کہا چھوڑو اب موبائل اور سب نیچے چلو مگر آپی طیبہ ڈرامہ دیکھ رہی تھی، وہ کہنے لگیں میں کچھ دیر میں آئوں گی۔ آپی عائشہ نے کہا میں نے آپ کو دن میں موبائل دیا تھا۔ اب بس اور نہیں چھوڑ دو مگر طیبہ مانی ہی نہیں تو آپی عائشہ نے اسے تھپڑ مار دیا، سدرہ نے پورے معاملے کی روداد عارف صاحب تک پہنچا دی۔
پاپا آپی عائشہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہیں اور مارتی بھی ہیں۔ طیبہ نے روہانسی شکل بناکر اپنے چہرے کے نشانات دکھاتے ہوئے کہا۔
پاپا بولے عائشہ بیٹا غلطی کرنے سے پہلے سوچتے ہیں، آئندہ احتیاط کریں، ایسے مت مارا کریں اور طیبہ آپ اپنی آپی کو معاف کر دو۔ میں کیوں معاف کروں پاپا ، آپی نے کونسا معافی مانگی ہے؟ طیبہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
طیبہ بری بات ہے بیٹا ، وہ آپ سے بڑی ہیں، کیا آپ کو اچھا لگے گا کہ وہ آپ سے معافی مانگیں؟ آپ خود ہی معاف کر دو۔پاپا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
سدرہ بولی پاپاجی آپی عائشہ تو مجھ سے معافی مانگتی رہتی ہیں۔ آپ سے کیوں معافی مانگتی ہیں؟ پاپا نے حیرت سے پوچھا۔ جب کبھی وہ مجھے غصے سے ڈانٹتی ہیں یا مارتی ہیں،تو پھر بعد میں مجھ سے معافی مانگ لیتی ہیں۔سدرہ جھٹ سے بولیں۔ سدرہ یہ اچھی بات ہے کیا؟ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
پاپا میں کونسا خود کہتی ہوں ؟سدرہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔ تو پھر بھی آپ خود ہی معاف کر دیا کرو اور کہا کرو آپی آپ پریشان نہ ہوں، میں نے آپ کو معاف کر دیا ہے، عارف صاحب نے محبت سے سمجھایا۔
پاپا جی لیکن اگر میری ہی غلطی ہو اور وہ آگے سے کہہ دیں کہ میں نے تو آپ کی ہی غلطی پہ مارا ہے۔ اچھا تو میں سمجھ گئی۔ میں خود ہی اپنی غلطی مان لوں گی اور آپی سے خود اپنی غلطی کی سوری کرلوں گی، سدرہ نے خود ہی سوال اور پھر جواب دیتے ہوئے کہا۔
چلیں عائشہ طیبہ سے ہاتھ ملائیں، طیبہ آپ بھی آپی سے ہاتھ ملائو ،مسکرا کر سلام لو۔ آپ کو بتایا تھا ناں میں نے کہ جو جھگڑے کے بعد سلام میں پہل کرتا ہے اسے زیادہ اجر وثواب ملتا ہے اب دیکھتے ہیں،آج کون زیادہ اجر لیتا ہے۔
میں لوں گی، دونوں ایک ساتھ بولیں اور ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے سلام کے لیے ہاتھ بڑھا دئیے۔
ماشاء اللہ یہ تو آپ دونوں نے برابر کا ثواب کما لیا، عارف صاحب نے بیٹیوں کی طرف شفقت و محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ان دونوں کی آپس کی ناراضی سے ماحول میں جو خاموشی اور تنائو تھا،وہ ختم ہو گیا اور وہ سب مل کر پاپا کے کان کھانے میں مصروف ہوگئیں۔
آخر میں عارف صاحب نے نشست برخاست کرنے سے پہلے پھر بیٹیوں کی اچھے عمل پر حوصلہ افزائی کی اور برائی سے بچنے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا، بیٹا ہم سب سے غلطیاں اور گناہ ہو جاتے ہیں مگر سب سے بہترین وہ ہے جو اپنی غلطی مان کر اصلاح کر لے۔ تو مجھے امید ہے عائشہ آئندہ آپ بہنوں پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گی اور انہیں پیار سے سمجھائیں گی۔
جی پاپا انشاء اللہ میں اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کروں گی، عائشہ نے آئندہ خیال رکھنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا۔
شاباش ! اور بیٹا ہم سب کو اللہ سے معافی چاہیے تو اللہ چاہتاہے ہم اس کے بندوں کی خطائوں کو معاف کردیا کریں۔ اس لیے کوئی جان بوجھ کر یا انجانے میں ہمارے ساتھ نا انصافی کر دے، خواہ گھر میں ہویا سکول میں تو آپ سب نے اللہ کی رضا کے لیے اسے معاف کر دینا ہے۔
پاپا جی ،پاپا جی یہ بات تو مجھے پہلے ہی پتا ہے۔اور میں اکثر معاف کر دیتی ہوں۔ دیکھیں تبھی تو میرے جھگڑے کا کوئی معاملہ آپ تک نہیں آیا۔ اور میں نے نمازیں بھی ساری پڑھی ہیں، چاہے تو میری ڈائری دیکھ لیں، اب لائبہ نے بھی فٹ سے اپنی اچھائی پاپا جی تک پہنچائی، تاکہ ہمیشہ کی طرح زیادہ انعام حاصل کرسکے۔
عارف صاحب اس کے اس طرح جلدی سے کہنے پر مسکرا دئیے تو عائشہ ،طیبہ سدرہ حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔ جو آج بھی انعام وصول کرنے والی تھی۔
Muafi Aur Islah Ki Tarbiyat By Ayesha Arif