I
intelligent086
Guest
نہ کروپھر بھی ڈرو
ایک دکاندار کا اس قول پر اعتقا د تھا کہ’’ کریئے تو ڈریئے، نہ کریئے تو ڈریئے۔‘‘ ایک بزاز جو اس کے قریب کی دکان میں تھا‘ وہ اس قول کے بالکل بر خلاف تھا۔ اور اکثر ان دونوں کی اس بارے میں بحث ہوا کرتی تھی۔ ایک روز ایک شخص نہایت شاندار پوشاک پہنے‘ امیرانہ صورت بنائے اور اس کے ساتھ خدمت گار ایک بچے کو کندھے سے لگائے بزاز کی دکان پر آیا۔ بہت سا کپڑا خریدا اور بعد ازاں خدمت گار کو مع بچہ دکان پر چھوڑ کر روپیہ لینے گھر آیا اور تمام کپڑا ساتھ لیتا آیا‘ جو قریباً ایک ہزار روپے کا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد نوکر نے اس بچے کو جو کندھے سے لگا ہوا سوتا معلوم ہوتا تھا‘ بزاز کی دکان پر لٹا کر کپڑا اوڑھا دیا اور خودپانی پینے کے بہانے سے کافور ہو گیا۔ جب بہت عرصہ گزرا اور شام ہوگئی۔ نہ بچہ سوتا اٹھا‘ نہ خدمت گار آیا اور نہ ہی آقا روپیہ لے کر پھرا۔ اس وقت بزاز کو فکر ہوئی۔ اس نے بچے کو اٹھایا تو مردہ پایا۔ بزاز کے ہوش اڑ گئے۔اسی فکر میں حواس باختہ بیٹھا تھا کہ اتنے میں وہ امیر اورخدمت گار آئے اور اس لڑکے کومردہ دیکھ کر بہت گرمائے کہ تم نے لڑکے کاگلا گھونٹ کرمار دیا ہے۔آخر بڑی منت سماجت کے بعد ایک ہزار روپیہ اور لے کر بصد مشکل ٹلے اوربزاز کو اس قول پر اعتقاد ہو گیا اور اللہ کا خوف دل پر چھا گیا اور ایسی ناگہانی آفات سے اس کی پناہ مانگنے لگا کہ ’’کریئے تو ڈریئے نہ کریئے تو بھی ڈریئے۔‘‘