Naraz Pari By Amina Kareem

I

intelligent086

Guest
ناراض پری ۔۔۔۔۔ آمنہ کریم

naraz-pari-amina-kareem-jpg.jpg

پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا ۔ وہ دونوں بہت غریب تھے ، یہاں تک کہ ان کے پاس اکثر کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا، لیکن خوش قسمتی سے ان لوگوں کے جھونپڑی نما گھر کے سامنے ایک تالاب تھا جس میں مچھلیاں موجود تھیں ۔
وہ آدمی روزدو تین مچھلیاں پکڑ کر لے جاتاجن سے اس کی بیوی کھانا تیار کرتی اور وہ دونوں مل کر کھالیتے ،لیکن وہ آدمی ہر وقت پریشان رہتا تھا کیونکہ ا سکی بیوی ہمیشہ اس سے لڑتی جھگڑتی تھی کہ وہ یہاں گاؤں میں رہ کر روز مچھلیاں نہیں کھا سکتی۔ شوہرنے اسے کئی بار سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ جتنا دیتا ہے اسی میں شکرادا کرنا چاہئے لیکن اس کی بیوی پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا۔

ایک دن شوہر بے چارہ تالاب کے کنارے پہنچاتا کہ کچھ مچھلیاں پکڑ کر اپنی اور اپنی بیوی کا پیٹ بھر سکے۔جب اس نے مچھلی پکڑنے کیلئے جال پانی میں ڈالا تو اسے ایسا لگا کہ جال کہیں اٹک گیا ہے تو وہ جال کھینچنے لگا لیکن جال اسے بہت بھاری لگا پھر بھی اس نے جیسے تیسے کر کے جال نکال لیا۔ جب اس نے جال نکالا تو حیران و پریشان رہ گیا کیونکہ جال میں ایک بڑی عجیب وغریب مچھلی پھنس گئی تھی۔ اس نے حیران ہو کر اپنے دل میں سوچا کہ اتنے چھوٹے تالاب میں اتنی بڑی مچھلی ؟وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اس مچھلی نے پری کا روپ دھار لیا۔ یہ دیکھ کر وہ پریشان بھی ہوا اور اُسے قدرے خوف بھی محسوس ہوا،لیکن اس سے پہلے کہ وہ ڈر کر بھاگ جاتا پری نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے کچھ نہیں کہے گی بلکہ وہ تو اس کی شکر گزار ہے کہ اس نے پری کو پانی سے آزاد کیا۔ اس نے پری سے پوچھا کہ وہ مچھلی کیسے بنی، تو پری نے اسے کہانی سُنائی کہ ایک جادوگر اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن پری نہ تو اس سے شادی کرنا چاہتی تھی اورنہ اس کو پسند کرتی تھی۔ جب یہ بات جادو گر کوپتہ چلی کہ پری اس سے نفرت کرتی ہے تو جادو گر نے غصے میں آکر پری کو مچھلی بنا کر پانی میں قید کرلیا۔پری بولی ’’اگر مجھے تم یہاں سے نہ نکالتے تو شاید میں ز ندگی بھر اس پانی میں قید رہتی‘‘۔

جب پری اپنی پوری کہانی سُنا چُکی تو اس آدمی کا ڈر ختم ہو گیا، تب اس نے پری کو اپنی غربت اور لڑا کا بیوی کی داستان سنائی تو پری نے اس سے کہا کہ فکرمت کروتم نے مجھے پانی سے آزاد کر کے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس لئے میں تمھاری تین خواہشات پوری کردوں گی ،اور پری نے اس کو یہ بھی بتا دیا کہ دھیان رکھنا مجھے کوئی غلط خواہش پوری کرنے کو نہ کہنا۔یہ سنتے ہی وہ بہت خوش ہوا اور جلدی سے جا کر اپنی بیوی کو ساری بات بتائی ،تو اس کی بیوی بھی بہت خوش ہوئی لیکن پری کو دیکھ کر اس کے من میںلالچ جاگ اُٹھی۔پری نے جب ان سے پہلی خواہش پوچھی تو بیوی نے جلدی سے کہا’’ ہمیں بہت سار ے پیسے چاہئے۔اتنے پیسے کہ ہمیں زندگی بھر کوئی کام نہ کرنا پڑے‘‘۔

یہ سن کر پری نے کہا کہ’’تم دونوں اپنے گھر جاؤ اور گھر میں داخل ہونے سے پہلے آنکھیں بند کرلینا،جب گھر کے اندر قدم رکھ لو تب آنکھیں کھولنا۔وہ دونوں خوشی خوشی گھر کی جانب چل پڑے ۔گھر میں داخل ہو کر انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ پری نے ان کی پہلی خواہش پوری کر دی تھی اور ان کے سامنے بے شمار دولت پڑی تھی ،لیکن لالچی عورت پھر بھی بہت افسرد ہ ہو کر بولی کہ ’’ہم نے اس سے صرف پیسے مانگے ہیں ، بہت بڑاشہر والا گھر توہمارے پاس اب بھی نہیں ہے‘‘۔

شوہر اسے تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’فکرمت کرو کل وہ پری آئے گی ہم اس سے بڑا گھر بھی مانگ لیں گے‘‘۔اس کے باوجود بیوی اپنے شوہر سے لڑنے لگتی ہے کہ ان سے آپ نے پہلے موقع میں ہی گھر اور پیسہ دونوں مانگ لینے چاہیے تھے تا کہ اگلی بار مزید چیزیں مانگ سکتے ہیں۔میاں اسے بہت سمجھاتا ہے کہ اتنا لالچ اچھا نہیں ہوتا۔

دوسرے دن جب پری تالاب کے کنارے پہنچی تو میاں بیوی اس کا پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔جب بیوی نے پری کو دیکھا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی اور پری کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا کہ ہمیں آج ایک بہت بڑا گھر چاہئے۔پری نے پھر وہی بات دُہرائی کہ اپنے گھر جا کر آنکھیں بند کر لو ۔وہ دونوں واپس لوٹے اور گھر میں داخل ہونے سے پہلے آنکھیں بند کر لیں، کچھ دیر بعد آنکھیں کھولیں تو انہوں نے اپنے آپ کو ایک بہت خوبصورت اور بڑے گھر میں پایاجو کہ محل سے کم نہ تھا۔ تیسرے دن جب پری آئی تو اس نے کہا کہ تم لوگ اپنی تیسری خواہش بھی بتا دو تا کہ میں اپنی دنیامیں واپس چلی جاؤں۔لالچی عورت نے کافی دیر تک سوچا کہ اب کیا مانگوں ، میرے پاس تو سب کچھ ہے۔ میرے پاس تو بہت سارے پیسے اور بہت بڑا گھر ہے اس لیے اب میں پری سے کیا مانگوں۔ کافی دیر سوچ بچار کے بعد اس کے دماغ میں ایک بری خواہش نے جنم لیا اوراس نے پری سے کہا ہمارے پاس سب کچھ ہے ،آج تم ایک ایسا جادو کرو کہ ہم جب چاہیں کوئی بھی روپ دھار کر دوسروں کے سامنے جا سکیں۔

یہ سنتے ہی پری کے پر کھل گئے کیونکہ یہ ایک بری خواہش تھی۔ پری نے ان دونوں سے کہا اپنے گھر میں جا کر اپنی آنکھیں بند کر لو دونوں نے گھر جاکر اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ جب دونوں اپنی آنکھیں کھولتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں اپنے اُسی پُرانے بوسیدہ گھر میں پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کرلالچی عورت رونے پیٹنے لگی کہ دھوکا ہو گیا۔ بیوی کے چلانے سے ہی اس کے میاںکو یاد آتا ہے کہ پری نے مجھے پہلے سے ہی کہا تھا کہ کوئی بری خواہش مت کرنا۔ شوہر بیوی کو ملامت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمھاری ہی وجہ سے ہمارے پاس جو تھا وہ بھی نہ رہا۔ یہ سن کر اس کی بیوی کو بہت افسوس ہوتا ہے کہ اس نے لالچ میں آکر بری خواہش کا اظہار کیا، اور پری ان دونوں کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلی گئی۔بیوی کے ایک غلط ارادے نے ان دونوں کو ساری زندگی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ۔

بچو! اسی لیے کہتے ہیں کہ خواہش چاہے بڑی ہویا چھوٹی لیکن بری نہ ہو۔




 
Top Bottom