Paison Wala Ghara By Anam Khalid , An Urdu Moral Story

I

intelligent086

Guest
پیسوں والا گھڑا ۔۔۔۔۔ انعم خالد

paison-wala-ghada-jpg.jpg

سموسے والا سر تھامے پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا۔قریب اس کی بیوی بیٹھی تھی جس کے چہرے پر بھی فکر مندی کے آثار تھے۔انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بھلا ایسا کیسے ممکن ہے؟در اصل پچھلے کئی برسوں سے یہ دونوں میاں،بیوی سموسوں کی دکان چلا رہے تھے۔ان کے بنائے ہوئے سموسے گائوں بھر میں مشہور تھے اور آس پاس کے لو گ بھی ان کے پاس سموسے کھانے آیا کرتے تھے۔یہ شریف لوگ تھے اور گائوں والے ان کی بے حد عزت بھی کیا کرتے تھے۔ان کے گھر سے چند قدم دور ہی معین نامی آدمی اپنی بوڑھی ماں اور بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔یہ نہایت کاہل تھا اور سارا دن گھر میں پڑا رہتا تھا۔اس کی بیوی لوگوں کے کپڑے سی کر گزر بسر کر رہی تھی۔وہ ہر وقت اپنے شوہر کو سموسے والے کی مثال دیا کرتی کہ وہ دونوں میاں،بیوی کس قدر محنت سے اچھا کام چلا رہے ہیں۔اگر تم بھی میرے ساتھ مل کر کام کرو تو ہمارا بھی اچھا گزارا ہو سکتا ہے،لیکن بجائے اس کے کہ معین محنت کرنے کا ارادہ کرتا۔وہ سموسے والے سے جلن محسوس کرتا رہتا تھا،اور سوچتا رہتا کہ کس طرح اس کا کام خراب کیا جائے۔

آخر ایک دن اس کے ذہن میں ترکیب آئی اور وہ خوش ہو گیا۔سموسے والے کی بیوی رات کو آمیزہ تیار کر کے رکھ دیتی تھی اور اگلے روز صبح سموسے والا دکان پر جا کے سموسے بناتا اور تل کر انہیں بیچ آتا۔ایک رات معین چپکے سے سموسے والے کے گھر میں دبے قدموں سے اس وقت داخل ہوا جب اسے یقین ہو گیا کہ دونوں گہری نیند سو چکے ہوں گے۔اس نے پیٹ خراب کرنے کی دوا سموسوں کے آمیزے میں شامل کر دی۔اگلے روز سموسے والے نے جب دکان لگائی تو حسبِ معمول اسکے پاس گاہکوں کا رش لگ گیا،لیکن یہ کیا ؟ سموسے کھانے کے کچھ دیر بعد ہی گاہک اس کے پاس آ کر پیٹ درد اور پیٹ خراب ہونے کی شکایت کرنے لگے۔سموسے والا پریشان ہو گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟کیونکہ اس سے پہلے آج تک ایسا نہیں ہوا تھا۔اس کے بعد ایسا اکثر ہونے لگا اور گائوں میں مشہو ر ہو گیا کہ جو بھی مشہو ر سموسے کھاتا ہے وہ بیمار ہو جاتا ہے،اور آہستہ آہستہ سموسے والے کی دکان خالی رہنے لگی اور آج اس کے پاس دن بھر کوئی گاہک نہیں آیا تھا۔معین یہ سب دیکھ کر بے حد خوش ہوا۔آخر کارسموسے والا اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ جنگل کی جانب چل پڑا۔وہ روتے ہوئے کہتا جا رہا تھا’’میں نے آج تک کسی کا بُرا نہیں چاہا پھر بھلا میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے‘‘۔سموسوں والے کی فریاد سُن لی گئی اور اچانک اس کا پائوں ایک گھڑے سے ٹکرایاجس میں سے آواز آئی’’مجھے اپنے ساتھ لے چلو،میں تمہارے کام آئوں گا‘‘۔یہ جادوئی گھڑا تھا جس میں جو چیز بھی ڈالو وہ دگنی ہو جاتی تھی۔سموسوں والے کے گھر میں ایک بار پھر خوشحالی آ گئی۔وہ اپنی ضرورت کے مطابق گھڑے سے کام لیتا اور کبھی دل میں لالچ نہ لاتا۔

معین تک جادوئی گھڑے کی خبر پہنچی تو لالچ میں آ کر اس نے گھڑا چرانے کی ترکیب سوچی،لیکن وہ اس بات سے انجان تھا کہ یہ گھڑا صرف اچھی نیت والوں کے کام آتا ہے۔اس نے اپنی ساری جمع پونجی اور زیور گھڑے میں ڈال کر اسے دگنا کرنا چاہا،لیکن کیا دیکھتا ہے کہ گھڑے میں پیسہ اور زیور ڈالتے ہی دگنے ہونے کی بجائے غائب ہو گئے۔یہ دیکھ کر معین نے اپنا سر پیٹ لیا ۔اس کی بُری نیت اور لالچ نے اسے خالی ہاتھ کر دیا تھا۔​
 
Top Bottom