I
intelligent086
Guest
پڑھو اور جانو کے ٹو کی کوہ پیمائی ۔۔۔۔۔ اسامہ سلیم
کے ٹو دُنیا کی دوسری بُلند ترین پہاڑی چوٹی ہے ،جو کہ سطح سمندر سے8611 میٹر بلندی پر واقع ہے۔یہ بلتستان کی سرحد پر واقع ہے جو کہ پاکستان کا شمالی علاقہ ہے۔کے ٹو کی بلند ترین چوٹی پاکستان کے کوہِ قراقرم کے علاقے میں واقع ہے۔
یہ نہ صرف دُنیا کی دوسری بُلند ترین چوٹی ہونے کا اعزاز رکھتی ہے بلکہ مشکل ترین راستوں کی حامل اس چوٹی کو سر کرنے کے شوقین افراد میںجان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔جس کے بارے میں اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق اس کو سر کرنے والے ہر 4 میں سے 1 فرد شوقِ کوہ پیمائی کی نذر ہو چکا ہے۔رواں برس،5فروری کو پاکستانی کوہ پیما محمدعلی سد پارہ اور ان کے 2 غیر ملکی ساتھی کے ٹو کی چوٹی پر ہی لا پتہ ہو گئے جنہیں کافی کوشش کے بعد بھی تلاش نہیں کیا جا سکا،اور 18فروری کو افسردہ دل کے ساتھ عزیز،رشتے داروں کی جانب سے ان کی موت کو یقینی قرار دیدیا گیا۔
کوہ پیمائی کے لحاظ سے اسے دُنیا کے8ہزار خطر ناک ترین پہاڑوں میں سب سے زیادہ جان لیوا تسلیم کیا جاتا ہے۔ماہرینِ کوہ پیمائی کے مطابق کے ٹو کو صرف گرم ترین موسموں یعنی جون اور جولائی جیسے مہینوں میں ہی سر کرنا ممکن ہے۔اس کو سر کرنے میں حائل رکاوٹوں کا اندازہ ان اعداد و شمار سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک کے ٹو کو صرف 302کو ہ پیما ہی سر کر سکے ہیں۔
کے ٹو دُنیا کی دوسری بُلند ترین پہاڑی چوٹی ہے ،جو کہ سطح سمندر سے8611 میٹر بلندی پر واقع ہے۔یہ بلتستان کی سرحد پر واقع ہے جو کہ پاکستان کا شمالی علاقہ ہے۔کے ٹو کی بلند ترین چوٹی پاکستان کے کوہِ قراقرم کے علاقے میں واقع ہے۔
یہ نہ صرف دُنیا کی دوسری بُلند ترین چوٹی ہونے کا اعزاز رکھتی ہے بلکہ مشکل ترین راستوں کی حامل اس چوٹی کو سر کرنے کے شوقین افراد میںجان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔جس کے بارے میں اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق اس کو سر کرنے والے ہر 4 میں سے 1 فرد شوقِ کوہ پیمائی کی نذر ہو چکا ہے۔رواں برس،5فروری کو پاکستانی کوہ پیما محمدعلی سد پارہ اور ان کے 2 غیر ملکی ساتھی کے ٹو کی چوٹی پر ہی لا پتہ ہو گئے جنہیں کافی کوشش کے بعد بھی تلاش نہیں کیا جا سکا،اور 18فروری کو افسردہ دل کے ساتھ عزیز،رشتے داروں کی جانب سے ان کی موت کو یقینی قرار دیدیا گیا۔
کوہ پیمائی کے لحاظ سے اسے دُنیا کے8ہزار خطر ناک ترین پہاڑوں میں سب سے زیادہ جان لیوا تسلیم کیا جاتا ہے۔ماہرینِ کوہ پیمائی کے مطابق کے ٹو کو صرف گرم ترین موسموں یعنی جون اور جولائی جیسے مہینوں میں ہی سر کرنا ممکن ہے۔اس کو سر کرنے میں حائل رکاوٹوں کا اندازہ ان اعداد و شمار سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک کے ٹو کو صرف 302کو ہ پیما ہی سر کر سکے ہیں۔
Parho Aur Jaano K2 Ki Koh Paimai By Osama Saleem