I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ....... پہچان
ایران کا بادشاہ دارا ایک دفعہ شکار کو نکلا تو لشکر سے جدا ہو گیا۔ تھک ہار کر ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا ساتھیوں کا انتظار کرنے لگا کہ ایک آدمی دور سے آتا دکھائی دیا۔ یہ سمجھا میر اکوئی دشمن آرہا ہے۔ ترکش سے تیر نکالا اور کمان پر چڑھایا تو اس آدمی نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ میں تو آپ کے گھوڑوں کا رکھوالا ہوں اور کئی مرتبہ آپ کی بارگاہ میں حاضری دے چکا ہوں۔ حیرت کی بات ہے کہ آپ کے ہزار گھوڑوں میں سے ایک ایک کو پہچانتا ہوں۔ اگر آپ حکم کریں تو جو گھوڑا فرمائیں حاضر کر دوں، ان کے رنگ، چال، شکل ہر چیز سے واقف ہوں اور میں سمجھتا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیںبلکہ میرا فرض ہے لیکن گستاخی معاف! آپ بھی تو میری طرح عوام کے رکھوالے ہیں۔ آپ کو اس سے زیادہ عوام کا خیال رکھنا چاہیے جتنا کہ مجھے آپ کے گھوڑوں کا ہے کیونکہ میں تو ایک نوکر ہوں اور یاد رکھیے! جس بادشاہ کو اپنے پرائے کی پہچان نہیں ہے وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ کم از کم حکومت کرنا اس کا حق ہے جو عوام الناس کے حال سے باخبر رہے تاکہ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔