Pukhta Irada By Prince Ali La'l (Part-1-2)

I

intelligent086

Guest
پختہ ارادہ (پہلی قسط) ۔۔۔۔۔۔ تحریر : پرنس علی لعل

pukhta-irada-jpg.jpg

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ناصر شاہین نامی بادشاہ تھااس کی بیوی ملکہ شمیم بھی ملک کے امور سنبھالنے میں بادشاہ کا ساتھ دیا کرتی تھی۔ملکہ کی عقلمندی کے باعث بادشاہ اکثر اپنے اہم فیصلے لینے سے پہلے ملکہ سے مشورہ کیا کرتا تھا۔
یوں تو بادشاہ کی ایک ہی بیٹی تھی ،لیکن وہ اس پر بھی شاکر تھا اور اپنی بیٹی سے بے حد محبت کرتا تھا۔زندگی نہایت خوبصورت اور سکون سے گزر رہی تھی مگر ایک چیز مسلسل بادشاہ کی بے چینی کا سبب بن رہی تھی۔وہ اپنی پیاری اور اکلوتی بیٹی عفت شاہین کی شادی کے سلسلے میں بہت پریشان تھا۔اس نے ملک بھر میں اعلان کیا کہ وہ شہزادی عفت شاہین کی شادی اس نوجوان سے کرے گا جو باہمت،باحوصلہ اور عقلمند ہو گا۔یہ اعلان سن کر دور دراز ملکوں کے شہزادے ،کمانڈر اور نوجوان بادشاہ ناصر کے دربار میں اکٹھے ہو گئے۔
ان کی بہادری کا امتحان لینے کے لیے بادشاہ ناصر نے برف کا ایک تالاب بنوایا۔اسکے چاروں طرف اونچی دیوار بنوائی اور چست و توانا پہرے دار تعینات کرائے۔ جب شدید سردی کے دن آئے تو اس نے بڑے تالاب میں مگرمچھ،سانپ اور بچھو چھوڑ دئیے،اور اعلان کر دیا کہ جو نوجوان سردی کی ٹھٹھرتی رات میں ان خطر ناک جانوروں کے ساتھ صبح تک زندہ رہ گیا ،میں اپنی بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کر دوں گا۔اگلے دن بہت سے لوگ اس مقابلے میں شرکت کے لیے آئے۔ایک ملک کا شہزادہ مون اس مقابلے کیلئے ہاتھ میں تلوار تھامے آیا۔طاقتور جسم کا یہ شہزادہ جیسے ہی تالاب میں اُترا،اس نے اپنی تیز تلوار اور طاقت سے مگر مچھوں اور سانپوں کے خون سے تالاب کو سرخ کر دیا،مگر جلد ہی ہمت ہار گیا اور بچھوئوں کا نشانہ بن گیا۔بادشاہ ناصر نے شہزادے مون کی لاش کو تا لاب سے نکالنے کا حکم دیا اور اگلے روز نئے امیدوار کا اعلان کر دیا۔
اسی طرح دن گزرتے گئے اور بہت سے ملکوں کے شہزادے ،جرنیل اور حسین وجمیل نوجوان اس خونی تالاب کا شکار بنتے گئے،کوئی ان خطرناک جانوروں کا نشانہ بن جاتا تو کوئی ٹھنڈے پانی میں جم کر مر جاتا۔ایک دن ایسا نوجوان آیا جسے دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔بیس بائیس سال کا یہ نوجوان سجیل اسی ملک کے ایک گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔اس کے گھر میں کمانے والا کوئی نہ تھا۔اس کی بوڑھی ماں نے اپنے لختِ جگر کوموت کے دنگل میں لا کھڑا کیا تھا،ہر کوئی حیران پریشان تھا کہ کل یہ خوبصورت نوجوان بھی اس خونی تالاب کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔بہت سے لوگوں کو سجیل پر ترس آیا اور انہوں نے اس سے تا لاب میں نہ کودنے کی اپیل بھی کی۔یہاں تک کہ خود بادشاہ ناصر سے بھی نہ رہا گیا اور وہ بولا’’مجھے اس نوجوان کی موت کا بہت دکھ ہو گا،لہٰذا میں اسے بغیر کسی مقابلے کے اتنا انعام دے دوں گا کہ اس کے گھر کا چولہا جلتا رہے‘‘۔اس کے باوجود نوجوان بضد تھا اور اپنے ارادے سے پیچھے نہ ہٹنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔اگلی رات وہ نوجوان ہاتھ میں تلوار تھامے خونی تالاب میں اتر گیا۔لوگوں کا ایک جمِ غفیر تھا جو اس با ہمت نوجوان کو دیکھنے کے لیے آیا تھا۔عورتوں کی ایک لمبی قطار تھی جو دکھی دل کے ساتھ سجیل کا آخری دیدار کرنے کے لیے اکٹھی تھی۔غرض یہ کہ وہاں موجود ہر ایک کو نہ صرف سجیل پر ترس آ رہا تھا،بلکہ وہ سب کے سب اس کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔دوسری طرف سجیل کے چہرے پر کسی قسم کے خوف کے آثار نہ تھے۔وہ بغیر کسی ڈر کے جوش و جذبے سے تالاب میں اترا اور جنون سے آگے بڑھتے ہوئے اپنے مضبوط ہاتھوں سے تلوار کو پانی میں گھمایا،اور سانپوں کے ٹکڑے کرتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نوجوان نے تالاب کو سانپوں کے ٹکڑوں اور خون سے بھر دیا۔وہ پوری ہمت سے موت کا مقابلہ کر رہا تھا،لیکن سردی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔ہوا میں اس قدر ٹھنڈ تھی کہ وہاں موجود لوگوں کا مزید کھڑے رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔چند افراد ہی تھے جو موت و حیات کے اس کھیل کو دیکھ رہے تھے۔خود بادشاہ ناصر بھی اب سجیل کو خدا کے حوالے کر چکا تھا۔ملک بھر میں خوف تھا کہ کل صبح کیا ہو گا،ہر شخص گھر میں بیٹھا سجیل کی زندگی کی دعائیں مانگ رہا تھا’’یا الٰہی! اس نوجوان کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا‘‘۔
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی اور تالاب کے ارد گرد کوئی بھی نہ تھا،سوائے ان چند پہریداروں کے جو تالاب کی نگرانی پر مامور تھے۔سردی اس قدر زیادہ تھی کہ گھر سے باہر زندہ رہنے کے لیے آگ کے قریب بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔پہرے دار ایک طرف الائو جلائے ہاتھ سینکنے میں مصروف تھے اور وہی آگ ان کے زندہ رہنے کی امید بھی تھی۔جبکہ برف کے تالاب میں حسین و جمیل نوجوان ایک طرف اپنی زندگی بچانے کے لیے خوفناک مگر مچھوں سے مقابلہ کر رہا تھا اور دوسری طرف جسم نیلا کر دینے والا پانی تھا جس کی ٹھنڈک نے اس کے اعضاء کو ناکار ہ بنانا شروع کر دیا تھا۔آہستہ آہستہ اس کے جسم میں ہمت کم پڑتی جا رہی تھی،لیکن اس نوجوان کی آنکھوں کے سامنے ایک عجیب منظر تھا۔(جاری ہے)
@Recently Active Users
 
Top