Raja Ka Kabotar By Rabia Anam

I

intelligent086

Guest
راجا کا کبوتر ۔۔۔۔ رابعہ انعم

raja-kabotar-jpg.jpg

پیارے بچو!پُرانے وقتوں کی بات ہے کسی ملک میں ایک راجا رہتا تھا جس نے اپنے پاس خوبصورت کبوتر پال رکھا تھا۔راجا کو یہ کبوتر ہمسائے ملک کے بادشاہ نے تحفے میں بھجوایا تھا۔یہ بیش قیمت ہونے کے ساتھ سفید رنگ کا انتہائی حسین کبوتر تھا۔راجا کو اس سے خاص محبت تھی۔وہ محل کے امور نمٹانے کے دوران بھی دن بھر اسے کرسی کے قریب یا اپنے بازو پر بٹھائے رکھتا۔راجا اکثر اس سے اکیلے میں اپنے دل کی باتیں بھی کیا کرتا اور کبوتر کچھ نہ سمجھتے ہوئے آنکھیں مٹکا کر راجا کی جانب تکتا تو راجا کو اس پر اور بھی پیار آنے لگتا۔کبوتر آج تک راجا کے محل سے باہر نہیں گیا تھا۔
ایک روز راجا کے ہاں دعوت کا اہتمام تھا اور دوسرے ملکو ں کے خاص لوگ شرکت کے لیے راجا کے محل میں موجود تھے۔ایسے میں راجا کبوتر کی جانب خاص دھیان نہ دے پایا۔محل کے ملازمین بھی مہمانوں کی خاطر مدارت میں مصروف تھے۔محل میںرہنے والا کبوتر چار دیواری سے باہر نکل گیا اور کھُلی فضاء میں اُڑان بھرنے لگا۔وہ آج پہلی بار محل سے باہر نکلا تھا اور کھُلی ٹھنڈی ہوا میں گھومنا اسے بے حد سکون دے رہا تھا۔اُڑتے اُڑتے وہ بے دھیانی میں محل سے اس قدر دور نکل آیا کہ واپسی کا رستہ ہی بھول گیا۔

دوسری جانب دعوت سے فارغ ہونے کے بعد جب راجا نے سب مہمانوں کو رخصت کر لیا تو اس کی نظریں کبوتر کو ڈھونڈنے لگیں۔اپنے کمرے اور محل میں کبوتر کو نہ پاکر راجا بے حد پریشان ہوا ۔اس نے تمام ملازمین کو کبوتر کی تلاش میں دوڑا دیا،لیکن اسے نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔راجا بے حد فکر مند تھااور کبوتر کی یاد میں اُداس بھی ہو رہاتھا۔اس نے ملازمین کو خوب ڈانٹا کہ انہوں نے بھلا کبوتر کا دھیا ن کیوں نہ رکھا۔

راجا نے حکم دیا کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں کبوتر کو ڈھونڈ کر واپس لایا جائے ورنہ محل کی نگرانی پر مامور دربانوں کو سخت سزا دی جائے گی۔لاکھ کوشش کے باوجود جب کبوتر نہ ملا تو ملازمین نے وزیر سے درخواست کی کہ وہ راجا کو سمجھائے۔اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں ہے۔

وزیر ،راجا کی طبیعت سے واقف تھا وہ جانتا تھا کہ راجا سمجھنے والا نہیں ہے۔اس نے ملازمین کو ایک مشورہ دیا اور وہ سب خوش ہو گئے۔انہو ں نے راجا کے کبوتر کی جسامت والا ایک اور کبوتر ڈھونڈا ۔اس میں فرق صرف اتنا تھا کہ اس کا رنگ راجا والے کبوتر سے کم سفید تھا۔اس کمی کو انہوں نے کبوتر پر رنگ کر کے پورا کر دیا۔اب کوئی نہیں پہچان سکتا تھا کہ یہ راجا والا کبوتر نہیں ہے۔اپنے کبوتر کو واپس پا کر راجا بے حد خوش ہوا،اور اسے کبوتر کے نقلی ہونے کا ذرابرابر شک نہ ہوا، لیکن کہتے ہیں نہ کہ جھوٹ کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی ۔کچھ عرصہ یونہی گزر گیا راجا کو کبوتر کے نقلی ہونے کا شک نہ ہوا۔ایک روز موسم بے حد خوشگوار تھا اور راجا کا دل کبوتر کے ساتھ باغ کی سیر کو جانے کیلئے چاہا۔اس نے کبوتر کو بازو پر بٹھا یا اور باغ کی جانب چل پڑا۔ہلکی ہلکی بارش میں چہل قدمی کا دونوں خوب مزہ لے رہے تھے،لیکن یہ کیا ؟اچانک جو راجا کی نظر کبوتر پر پڑی تو اس کے اوپر سے سفید رنگ اُتررہا تھا،اور کبوتر کا اصلی رنگ نظر آنے لگا ۔یہ دیکھ کر راجا کو شدید غصہ آیا وہ ملازمین کی ساری کارستانی سمجھ چکاتھا۔اس نے ملازموں کو بُلا کر پوچھا کہ اسے حقیقت بتائی جائے تو سب ہاتھ جوڑ کر راجا کے قدموں میں گر گئے اور بولے کہ سزا کے ڈر سے انہوں نے کبوتر پر رنگ کر کے پیش کر دیا۔

ملازمین کی بات سُن کرراجا کو اپنی غلطی کا بھی احساس ہوا کہ کبوتر کے اُڑ جانے میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔راجا نے ملازموں کو معاف کر دیا اور انہیں سمجھایا کہ آئندہ کیسے بھی حالات ہوں اس سے کبھی جھو ٹ نہ بولا جائے کیونکہ سچ سامنے آ کر رہتا ہے ،اور راجا نے اسی کبوتر کو اپنے محل میں ہمیشہ کے لیے پال لیا۔


 
Top