I
intelligent086
Guest
رانی چیونٹی کی کہانی ۔۔۔۔ نعمان خالد
سردیوں کا موسم قریب تھا اور رانی چیونٹی اس سے پہلے پہلے تمام کام نمٹا لینا چاہتی تھی۔یہ باقی چیونٹیوں کے ساتھ مل کر جلد از جلد اپنے پورے گروہ کے لیے محفوظ گھر تیار کرنا چاہتی تھی ،جو اس قدر بڑا ہو کہ آنے والے چند مہینے اس کے اندرسکون سے گزارے جا سکیں اور پیٹ بھرنے کے لیے اناج بھی اکٹھا کیا جا سکے۔تمام چیونٹیاں رانی چیونٹی کی بے حد عزت کرتی تھیں اور اس کا ہر حکم مانتی تھیں،کیونکہ وہ سب بخوبی جانتی تھیں کہ رانی چیونٹی کسی ماں کی طرح ان کا خیال رکھتی ہے ۔
ان کا گروہ مل جل کر جنگل میں رہ رہا تھا۔یوں تو سبھی چھوٹے،بڑے جانور ایک دوسرے کا خیال کرنے والے تھے،لیکن اسی جنگل میں ایک شرارتی ہاتھی بھی رہتا تھا جسے اپنی طاقت پر بے حد گھمنڈ تھا اور اسے دوسروں کو ستانے میں خوب مزہ بھی آتا تھا۔
ایک روز ہاتھی جنگل میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ اس کی نظر چیونٹیوں کی قطار پر پڑی جو نہایت محنت سے اپنا گھر تیار کر رہی تھیں۔ ہاتھی سمجھ گیا کہ سردیوں کی تیاری کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی اس کے ذہن میں ایک شرارت آئی۔وہ جھیل کے کنارے گیا اور اپنی سونڈ میں ڈھیر سارا پانی جمع کر لیا،کچھ پانی پی کر اس نے اپنی پیاس بجھا لی جبکہ باقی کا پانی سونڈ میں ہی جمع کر کے چیونٹیوں کے گھر کی جانب بڑھنے لگا،جہاں رانی چیونٹی کھڑی اپنی نگرانی میں کام کروا رہی تھی۔اچانک ہاتھی نے اپنی سونڈ سے پانی کا فوارہ چھوڑا جس سے بہت سا پانی چیونٹیوں کے نازک گھر پر پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھا گھر پانی میں بہہ گیا۔یہ دیکھ کر باقی چیو نٹیوں کو شدید دکھ ہوا،چند ایک رونے بھی لگیں لیکن رانی چیونٹی کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔وہ ہاتھی سے خوب لڑنا چاہتی تھی لیکن جانتی تھی کہ اس کے وجود میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس نا انصافی کا بدلہ لے سکے۔اس لیے اُس نے باقی چیونٹیو ں کو بھی خاموش رہنے کو کہا اور اپنا معاملہ بھی خدا کے سپرد کر کے پھر سے کام میں لگ گئی۔
ہاتھی بھی اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتا اور اپنی شرارت سے محظوظ ہوتا واپس لوٹ گیا۔چند روز بعد ہی جنگل میں ایک شکاری آیا جو چڑیا گھر کے لیے ایک ہاتھی پکڑ کر شہر لے جانا چاہتا تھا۔صبح سے شا م تک اس نے جنگل میں گھوم پھر کر دیکھا اور پھر آخر اس کی نظر شرارتی ہاتھی پر پڑی تو اس نے اسی کو پکڑنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ تاک لگا کر ایک درخت پر جا بیٹھا اور جونہی ہاتھی درخت کے نیچے پہنچا شکاری نے تیزی سے جال پھینک کر اسے پھنسا لیا۔ہاتھی اس اچانک آفت سے گھبرا گیا اور بھاگنے کی کوشش کرنے لگا لیکن مضبوط جال کو توڑنا اس کے لیے نا ممکن تھا۔ہاتھی سمجھ گیا کہ وہ مشکل میں پھنس چکا ہے۔ شکاری اب اطمینان سے درخت سے اتر کر اپنا بستر لگا رہا تھا۔صبح اس کے ساتھی گاڑی لے کر پہنچنے والے تھے جس میں وہ ہاتھی کو ڈال کر شہرلے جاتے۔ہاتھی بھی اب زور لگا لگا کر تھک چکا تھا،اس لیے بے بس ہو کر بیٹھا رہا۔
اگلے روز صبح سویرے رانی چیونٹی اپنے گروہ کے ساتھ دانے کی تلاش میں نکلی تو اس کی نظر جال میں پھنسے شرارتی ہاتھی پر پڑی،پاس ہی شکاری سو رہا تھا۔ہاتھی ، رانی چیونٹی کو دیکھ کر شرمندہ ہوا اور کچھ نہ بولا،لیکن بجائے اس کے کہ رانی چیونٹی ہاتھی کے بُرے روئیے کا بدلہ لیتی اس نے ہاتھی کی مدد کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے گروہ کوایک جانب چلنے کا اشارہ کیا۔وہ تیزی سے چوہے کے بِل میں گئیں اور اسے اپنے ساتھ لے آئیں۔چند ہی لمحوں میں چوہوں نے مل کر ہاتھی کا جال کُتر دیا اور شکاری کے جاگنے سے پہلے پہلے ہاتھی ، چیونٹیاں اور چوہے وہاں سے فرار ہو چکے تھے۔محفوظ مقام پر پہنچ کر ہاتھی نے رانی چیونٹی سے اپنے روئیے کی معافی مانگی اور آئندہ کسی کو نہ ستانے کا وعدہ کر لیا۔
پیارے بچو!دیکھا آپ نے کہ بُرائی کا جواب اچھائی سے دے کر ہم اپنے معاشرے سے بُرائی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
سردیوں کا موسم قریب تھا اور رانی چیونٹی اس سے پہلے پہلے تمام کام نمٹا لینا چاہتی تھی۔یہ باقی چیونٹیوں کے ساتھ مل کر جلد از جلد اپنے پورے گروہ کے لیے محفوظ گھر تیار کرنا چاہتی تھی ،جو اس قدر بڑا ہو کہ آنے والے چند مہینے اس کے اندرسکون سے گزارے جا سکیں اور پیٹ بھرنے کے لیے اناج بھی اکٹھا کیا جا سکے۔تمام چیونٹیاں رانی چیونٹی کی بے حد عزت کرتی تھیں اور اس کا ہر حکم مانتی تھیں،کیونکہ وہ سب بخوبی جانتی تھیں کہ رانی چیونٹی کسی ماں کی طرح ان کا خیال رکھتی ہے ۔
ان کا گروہ مل جل کر جنگل میں رہ رہا تھا۔یوں تو سبھی چھوٹے،بڑے جانور ایک دوسرے کا خیال کرنے والے تھے،لیکن اسی جنگل میں ایک شرارتی ہاتھی بھی رہتا تھا جسے اپنی طاقت پر بے حد گھمنڈ تھا اور اسے دوسروں کو ستانے میں خوب مزہ بھی آتا تھا۔
ایک روز ہاتھی جنگل میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ اس کی نظر چیونٹیوں کی قطار پر پڑی جو نہایت محنت سے اپنا گھر تیار کر رہی تھیں۔ ہاتھی سمجھ گیا کہ سردیوں کی تیاری کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی اس کے ذہن میں ایک شرارت آئی۔وہ جھیل کے کنارے گیا اور اپنی سونڈ میں ڈھیر سارا پانی جمع کر لیا،کچھ پانی پی کر اس نے اپنی پیاس بجھا لی جبکہ باقی کا پانی سونڈ میں ہی جمع کر کے چیونٹیوں کے گھر کی جانب بڑھنے لگا،جہاں رانی چیونٹی کھڑی اپنی نگرانی میں کام کروا رہی تھی۔اچانک ہاتھی نے اپنی سونڈ سے پانی کا فوارہ چھوڑا جس سے بہت سا پانی چیونٹیوں کے نازک گھر پر پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھا گھر پانی میں بہہ گیا۔یہ دیکھ کر باقی چیو نٹیوں کو شدید دکھ ہوا،چند ایک رونے بھی لگیں لیکن رانی چیونٹی کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔وہ ہاتھی سے خوب لڑنا چاہتی تھی لیکن جانتی تھی کہ اس کے وجود میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس نا انصافی کا بدلہ لے سکے۔اس لیے اُس نے باقی چیونٹیو ں کو بھی خاموش رہنے کو کہا اور اپنا معاملہ بھی خدا کے سپرد کر کے پھر سے کام میں لگ گئی۔
ہاتھی بھی اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتا اور اپنی شرارت سے محظوظ ہوتا واپس لوٹ گیا۔چند روز بعد ہی جنگل میں ایک شکاری آیا جو چڑیا گھر کے لیے ایک ہاتھی پکڑ کر شہر لے جانا چاہتا تھا۔صبح سے شا م تک اس نے جنگل میں گھوم پھر کر دیکھا اور پھر آخر اس کی نظر شرارتی ہاتھی پر پڑی تو اس نے اسی کو پکڑنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ تاک لگا کر ایک درخت پر جا بیٹھا اور جونہی ہاتھی درخت کے نیچے پہنچا شکاری نے تیزی سے جال پھینک کر اسے پھنسا لیا۔ہاتھی اس اچانک آفت سے گھبرا گیا اور بھاگنے کی کوشش کرنے لگا لیکن مضبوط جال کو توڑنا اس کے لیے نا ممکن تھا۔ہاتھی سمجھ گیا کہ وہ مشکل میں پھنس چکا ہے۔ شکاری اب اطمینان سے درخت سے اتر کر اپنا بستر لگا رہا تھا۔صبح اس کے ساتھی گاڑی لے کر پہنچنے والے تھے جس میں وہ ہاتھی کو ڈال کر شہرلے جاتے۔ہاتھی بھی اب زور لگا لگا کر تھک چکا تھا،اس لیے بے بس ہو کر بیٹھا رہا۔
اگلے روز صبح سویرے رانی چیونٹی اپنے گروہ کے ساتھ دانے کی تلاش میں نکلی تو اس کی نظر جال میں پھنسے شرارتی ہاتھی پر پڑی،پاس ہی شکاری سو رہا تھا۔ہاتھی ، رانی چیونٹی کو دیکھ کر شرمندہ ہوا اور کچھ نہ بولا،لیکن بجائے اس کے کہ رانی چیونٹی ہاتھی کے بُرے روئیے کا بدلہ لیتی اس نے ہاتھی کی مدد کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے گروہ کوایک جانب چلنے کا اشارہ کیا۔وہ تیزی سے چوہے کے بِل میں گئیں اور اسے اپنے ساتھ لے آئیں۔چند ہی لمحوں میں چوہوں نے مل کر ہاتھی کا جال کُتر دیا اور شکاری کے جاگنے سے پہلے پہلے ہاتھی ، چیونٹیاں اور چوہے وہاں سے فرار ہو چکے تھے۔محفوظ مقام پر پہنچ کر ہاتھی نے رانی چیونٹی سے اپنے روئیے کی معافی مانگی اور آئندہ کسی کو نہ ستانے کا وعدہ کر لیا۔
پیارے بچو!دیکھا آپ نے کہ بُرائی کا جواب اچھائی سے دے کر ہم اپنے معاشرے سے بُرائی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔