I
intelligent086
Guest
رحمت کا گھوڑا ....انعم خالد
کسی گائوں میں رحمت نامی آدمی رہتا تھا ،جس کے پاس بے حد خوبصورت گھوڑا تھا۔اس کا رنگ اس قدردودھیا تھا کہ رحمت نے اس کا نام بادل رکھ دیا۔بادل کے بال بھی لمبے اور سفید تھے۔رحمت کے گھوڑے کی دھوم دور ،دور تک پھیلی ہوئی تھی۔لوگ دوسرے گائوں سے بادل کو دیکھنے آتے اور رحمت سے بھاری رقم کے بدلے بیچنے کی پیشکش کرتے،لیکن رحمت کو اپنے گھوڑے سے بے حد پیار تھا۔وہ کسی قیمت پر بادل کو بیچنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
بادل بھی اپنے مالک کا وفادار گھوڑا تھا۔رحمت جہاں کہیں بھی جاتا بادل ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا۔قریب کے گائوں میں ایک نمبر دار رہتا تھا۔اس کے بیٹے کوبھی گھوڑے پالنے کا بے حد شوق تھا۔دنیا بھر کے بیش قیمت اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے اس کے اصطبل میں موجود تھے،جن کی خاص دیکھ بھال کی جاتی تھی۔نمبر دار کے بیٹے کو معلوم پڑا کہ پاس کے گائوں میں رحمت نامی آدمی کے پاس انتہائی حسین گھوڑا موجود ہے تو نمبر دار کے آدمی نے اسے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔
اگلے ہی روز وہ اپنے چند ملازمین کے ساتھ رحمت کے پاس پہنچا۔اس نے رحمت کو اپنے آنے کا مقصد بتایا اور بادل کود یکھنے کی خواہش ظاہر کی۔رحمت مہمان نواز تھا،اس نے نمبر دار کے بیٹے اور اس کے ملازمین کی خوب آئو بھگت کی اور کھانے ،پینے کے بعد بادل کو پاس لے آیا۔جونہی نمبردار کے بیٹے کی بادل پر نظر پڑی اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔اس نے فوراًرحمت کے سامنے بھاری رقم رکھی اور اس سے کہا کہ وہ بادل کو خریدنا چاہتا ہے۔رحمت مُسکراتے ہوئے کہنے لگا’’جناب!آپ میرے مہمان اور قابلِ عزت ہیں،لیکن بادل میرے لیے صرف ایک گھوڑا نہیں بلکہ مجھے اپنی اولاد کی طرح پیارا ہے۔ایسے میں بھلا اپنی اولاد کی قیمت میں کیسے لگا سکتا ہوں‘‘۔نمبر دار کے بیٹے نے باتوں ،باتوں میں اسے کافی سمجھانے کی کوشش کی اور یہ بھی کہا کہ بادل کی نگرانی اس کے اصطبل میں زیادہ بہتر انداز میں ہو سکے گی۔اس کے علاوہ وہ جب چاہے بادل کو ملنے ان کے پاس آ سکتا ہے،لیکن رحمت کسی صورت راضی نہ ہوا۔اب نمبر دار کے بیٹے کو غصہ آنے لگا تھا،لیکن وہ جانتا تھا کہ اس وقت غصہ کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔اس نے اپنے ذہن میں کچھ سوچا اور ملازمین کے ساتھ چُپ چاپ وہاں سے واپس اپنے گھر کو چل دیا۔
اگلے چند روز یونہی گزر گئے،ایک روز رحمت سو کر اُٹھا تو حسبِ معمول سب سے پہلے بادل کو دیکھنے گیا،لیکن اصطبل میں بادل کو نہ پا کر رحمت کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔اس نے ہر جگہ دیکھ لیا لیکن بادل کہیں بھی موجود نہیں تھا۔رحمت اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا ،وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے خوبصورت گھوڑے کو کسی نے چُرا لیا ہے اور اس کا پہلا شک بھی نمبر دار کے بیٹے پر جا رہا تھا،لیکن وہ بے بس اور لاچار تھا ۔اسے نہ نمبر دار کے گائوں اور گھر کا پتہ معلوم تھا اور نہ ہی اس میں ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت تھی۔وہ بے حد اُداس ہو کر بادل کے واپس ملنے کی دُعا کرنے لگا۔دوسری طرف نمبر دار کا بیٹا جس نے بادل کو چُرا لیا تھا اپنے ملازموں کو حُکم دے رہا تھا کہ چند روز کے لیے بادل کے اوپر کالا رنگ کر دیا جائے تا کہ کوئی اسے ڈھونڈنے بھی آئے تو نہ پہچان سکے۔
کئی روز یونہی گزر گئے۔رحمت اب بھی روزانہ بادل کے ملنے کی دُعا کرتا اور اسے ہر وقت یاد کرتا رہتا۔ایک روز وہ کسی کام سے شہر کی جانب روانہ ہوا۔اتفاق سے اسی راستے سے نمبر دار کا بیٹا بادل کو لیے گزر رہا تھا۔نمبر دار کا بیٹا اپنے ملازمین کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔یہ لوگ سستانے کے لیے ایک نہر کنارے رُکے اور اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔رحمت کا وہاں سے گزر ہوا تو اس نے دور درختوں کے نیچے چند لوگوں کو آرام کرتے دیکھا،لیکن اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا اچانک بادل کی نظر اپنے مالک پر پڑی اور وہ بھاگتا ہوا ا س کے قریب آ گیا۔رنگ کالا ہونے کی وجہ سے رحمت، بادل کو پہچان نہ پایا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر آگے بڑھنے لگا۔بادل سمجھ گیا کہ مالک اسے نہیں پہچان رہا۔وہ بھاگتا ہوا نہر کی جانب گیا اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔بادل کی اس حرکت کو رحمت حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔پانی میں خود کو اچھی طرح دھو کر بادل باہر نکلا تو اس کا سارا رنگ اُتر چُکا تھا۔خوشی کے مارے رحمت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن اس نے کوئی آواز نہ نکالی۔وہ نمبر دار کے بیٹے تک کوئی بھی آواز پہنچنے سے پہلے بادل کو لے کر وہاں سے نکلنا چاہتا تھا،اور پھر اگلے ہی لمحے بادل اور رحمت اس علاقے سے نکل رہے تھے۔یوں بادل ایک بار پھر اپنے اصلی مالک کے پاس جا پہنچا اور گناہ کمانے کے باوجود نمبر دار کا بیٹا خالی ہاتھ رہ گیا۔
کسی گائوں میں رحمت نامی آدمی رہتا تھا ،جس کے پاس بے حد خوبصورت گھوڑا تھا۔اس کا رنگ اس قدردودھیا تھا کہ رحمت نے اس کا نام بادل رکھ دیا۔بادل کے بال بھی لمبے اور سفید تھے۔رحمت کے گھوڑے کی دھوم دور ،دور تک پھیلی ہوئی تھی۔لوگ دوسرے گائوں سے بادل کو دیکھنے آتے اور رحمت سے بھاری رقم کے بدلے بیچنے کی پیشکش کرتے،لیکن رحمت کو اپنے گھوڑے سے بے حد پیار تھا۔وہ کسی قیمت پر بادل کو بیچنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
بادل بھی اپنے مالک کا وفادار گھوڑا تھا۔رحمت جہاں کہیں بھی جاتا بادل ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا۔قریب کے گائوں میں ایک نمبر دار رہتا تھا۔اس کے بیٹے کوبھی گھوڑے پالنے کا بے حد شوق تھا۔دنیا بھر کے بیش قیمت اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے اس کے اصطبل میں موجود تھے،جن کی خاص دیکھ بھال کی جاتی تھی۔نمبر دار کے بیٹے کو معلوم پڑا کہ پاس کے گائوں میں رحمت نامی آدمی کے پاس انتہائی حسین گھوڑا موجود ہے تو نمبر دار کے آدمی نے اسے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔
اگلے ہی روز وہ اپنے چند ملازمین کے ساتھ رحمت کے پاس پہنچا۔اس نے رحمت کو اپنے آنے کا مقصد بتایا اور بادل کود یکھنے کی خواہش ظاہر کی۔رحمت مہمان نواز تھا،اس نے نمبر دار کے بیٹے اور اس کے ملازمین کی خوب آئو بھگت کی اور کھانے ،پینے کے بعد بادل کو پاس لے آیا۔جونہی نمبردار کے بیٹے کی بادل پر نظر پڑی اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔اس نے فوراًرحمت کے سامنے بھاری رقم رکھی اور اس سے کہا کہ وہ بادل کو خریدنا چاہتا ہے۔رحمت مُسکراتے ہوئے کہنے لگا’’جناب!آپ میرے مہمان اور قابلِ عزت ہیں،لیکن بادل میرے لیے صرف ایک گھوڑا نہیں بلکہ مجھے اپنی اولاد کی طرح پیارا ہے۔ایسے میں بھلا اپنی اولاد کی قیمت میں کیسے لگا سکتا ہوں‘‘۔نمبر دار کے بیٹے نے باتوں ،باتوں میں اسے کافی سمجھانے کی کوشش کی اور یہ بھی کہا کہ بادل کی نگرانی اس کے اصطبل میں زیادہ بہتر انداز میں ہو سکے گی۔اس کے علاوہ وہ جب چاہے بادل کو ملنے ان کے پاس آ سکتا ہے،لیکن رحمت کسی صورت راضی نہ ہوا۔اب نمبر دار کے بیٹے کو غصہ آنے لگا تھا،لیکن وہ جانتا تھا کہ اس وقت غصہ کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔اس نے اپنے ذہن میں کچھ سوچا اور ملازمین کے ساتھ چُپ چاپ وہاں سے واپس اپنے گھر کو چل دیا۔
اگلے چند روز یونہی گزر گئے،ایک روز رحمت سو کر اُٹھا تو حسبِ معمول سب سے پہلے بادل کو دیکھنے گیا،لیکن اصطبل میں بادل کو نہ پا کر رحمت کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔اس نے ہر جگہ دیکھ لیا لیکن بادل کہیں بھی موجود نہیں تھا۔رحمت اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا ،وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے خوبصورت گھوڑے کو کسی نے چُرا لیا ہے اور اس کا پہلا شک بھی نمبر دار کے بیٹے پر جا رہا تھا،لیکن وہ بے بس اور لاچار تھا ۔اسے نہ نمبر دار کے گائوں اور گھر کا پتہ معلوم تھا اور نہ ہی اس میں ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت تھی۔وہ بے حد اُداس ہو کر بادل کے واپس ملنے کی دُعا کرنے لگا۔دوسری طرف نمبر دار کا بیٹا جس نے بادل کو چُرا لیا تھا اپنے ملازموں کو حُکم دے رہا تھا کہ چند روز کے لیے بادل کے اوپر کالا رنگ کر دیا جائے تا کہ کوئی اسے ڈھونڈنے بھی آئے تو نہ پہچان سکے۔
کئی روز یونہی گزر گئے۔رحمت اب بھی روزانہ بادل کے ملنے کی دُعا کرتا اور اسے ہر وقت یاد کرتا رہتا۔ایک روز وہ کسی کام سے شہر کی جانب روانہ ہوا۔اتفاق سے اسی راستے سے نمبر دار کا بیٹا بادل کو لیے گزر رہا تھا۔نمبر دار کا بیٹا اپنے ملازمین کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔یہ لوگ سستانے کے لیے ایک نہر کنارے رُکے اور اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔رحمت کا وہاں سے گزر ہوا تو اس نے دور درختوں کے نیچے چند لوگوں کو آرام کرتے دیکھا،لیکن اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا اچانک بادل کی نظر اپنے مالک پر پڑی اور وہ بھاگتا ہوا ا س کے قریب آ گیا۔رنگ کالا ہونے کی وجہ سے رحمت، بادل کو پہچان نہ پایا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر آگے بڑھنے لگا۔بادل سمجھ گیا کہ مالک اسے نہیں پہچان رہا۔وہ بھاگتا ہوا نہر کی جانب گیا اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔بادل کی اس حرکت کو رحمت حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔پانی میں خود کو اچھی طرح دھو کر بادل باہر نکلا تو اس کا سارا رنگ اُتر چُکا تھا۔خوشی کے مارے رحمت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن اس نے کوئی آواز نہ نکالی۔وہ نمبر دار کے بیٹے تک کوئی بھی آواز پہنچنے سے پہلے بادل کو لے کر وہاں سے نکلنا چاہتا تھا،اور پھر اگلے ہی لمحے بادل اور رحمت اس علاقے سے نکل رہے تھے۔یوں بادل ایک بار پھر اپنے اصلی مالک کے پاس جا پہنچا اور گناہ کمانے کے باوجود نمبر دار کا بیٹا خالی ہاتھ رہ گیا۔