I
intelligent086
Guest
رزق کی قدر ۔۔۔۔۔ نعمان خان
سب کھانے کی میز پر موجود تھے اور زویا اپنی پلیٹ میں کھانا نکال رہی تھی۔اس کی امی کی نظریں زویا کی پلیٹ پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔ہمیشہ کی طرح آج بھی اس نے اپنی پلیٹ چاولو ں سے بھر لی تھی۔یہ دیکھ کر زویا کی امی سمجھانے کے انداز میں بولیں’’بیٹا!جتنی بھوک ہے اتنا ہی کھانا ڈالو‘‘۔
جواب میں زویا بولی’’امی!بہت سخت بھوک لگی ہے آج سارا کھانا ختم کر لوں گی‘‘۔دراصل زویا کی عادت تھی کہ وہ کھانے کے دوران بہت سا کھانا اپنی پلیٹ میں ڈال لیتی اور کبھی پورا ختم نہ کر پاتی۔اس کی امی نے کئی بار زویا کو سمجھایا تھا کہ ایسا کرنا بُری عادت ہے۔یہ حرکت رزق کی بے قدری میں شما ر ہوتی ہے۔پہلی بار میں ہمیشہ کم کھانا ڈالنا چاہیے اور بھوک محسوس ہو تو دوبارہ لے لینا چاہیے،لیکن کھانا پلیٹ میں کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔
زویا اپنی امی کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی،یا جواب میں کہتی ’’امی!جو کھانا بچ جائے وہ باہر جانور کھا لیتے ہیں نہ‘‘۔تب اس کی امی بولتیں کہ ’’جانوروں او ر پرندوں کو بھی بچے ہوئے کھانے کی بجائے صاف کھانا ڈالنا چاہیے‘‘۔روزانہ سمجھانے کے باوجود زویا پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔وہ کھانا ضائع کرنے کو معمولی سی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیتی تھی او ر سوچتی کہ بھلا تھوڑا سا کھانا بچ جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔زویا کے کان میں جب کبھی اپنی امی کی بات گونجتی کہ ’’رزق کی بے قدری کرنے سے یہ ناراض ہو جاتا ہے‘‘تو جواب میں وہ ہنس کر بولتی’’کیا کھانا مجھ سے روٹھ کر پلیٹ سے باہر بھاگ جائے گا‘‘۔وہ اپنی امی کی اس بات کا مطلب کبھی نہیں سمجھ پائی تھی۔
وقت یونہی گزرتا گیا اور زویا قدرے بڑی ہو گئی۔ایک روز اسے پیٹ میں شدید تکلیف محسوس ہوئی تو اس کے والدین زویا کو چیک کروانے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے۔معائنہ کرنے کے بعد پتا چلا کہ زویا کے پیٹ میں پتھری ہے جسے فوراً آپریشن سے ختم کرنا پڑے گا۔اگلے روز زویا کا آپریشن تھا اور ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق اسے آپریشن سے 24گھنٹے پہلے تک بالکل بھوکے رہنا تھا۔زویا کو اجازت تھی تو صرف جوس اور پانی پینے کی۔بڑی مشکل سے جوں توں کر کے اس نے یہ گھنٹے گزارے۔وہ سوچ رہی تھی کہ آپریشن کے بعد فوراً وہ اپنے من پسند کھانے جی بھر کے کھائے گی،لیکن وہ شاید نہیں جانتی تھی کہ رزق کی بے قدری اس کے سامنے امتحان بن کر کھڑی ہو گئی تھی۔آپریشن کامیاب رہا اور جب اسے ہوش آیا تو پتا چلا کہ ڈاکٹروں نے اگلے تین سے چار روز تک کسی بھی قسم کی سخت غذا لینے سے منع کیا ہے۔یہ سن کر زویا اپنے امی،ابو سے بحث کرنے لگی کہ اسے شدید بھوک لگی ہے اور وہ ہر صورت کچھ لذیذ کھانا چاہتی ہے،لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق زویا کو اگلے چند روز صرف نرم غذا یا پینے والی چیزیں دی گئیں۔پہلے پہل تو اس نے احتجاج بھی کیا اور روئی بھی لیکن جب احساس ہوا کہ اس کی ایک نہیں چلنے والی تو خاموش ہو رہی اور ہسپتال کے بستر پر لیٹے کچھ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔زویا کو احساس ہو رہا تھا کہ مشکل کی یہ گھڑی کیوں اس پر آئی ہے۔وہ سمجھ گئی تھی کہ بیماری کے روپ میں دراصل اسے رزق کی قدر کرنا سکھایا جا رہا ہے۔جس بچے ہوئے کھانے کو وہ فالتو سمجھ کر پلیٹ میں چھوڑ دیتی تھی آج وہی کسی نعمت سے کم معلوم نہیں ہو رہا تھا۔اس رات زویا نے صدقِ دل سے دعا کی اور خدا سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کبھی چاول کے ایک دانے کی بھی بے قدری نہیں کرے گی۔
سب کھانے کی میز پر موجود تھے اور زویا اپنی پلیٹ میں کھانا نکال رہی تھی۔اس کی امی کی نظریں زویا کی پلیٹ پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔ہمیشہ کی طرح آج بھی اس نے اپنی پلیٹ چاولو ں سے بھر لی تھی۔یہ دیکھ کر زویا کی امی سمجھانے کے انداز میں بولیں’’بیٹا!جتنی بھوک ہے اتنا ہی کھانا ڈالو‘‘۔
جواب میں زویا بولی’’امی!بہت سخت بھوک لگی ہے آج سارا کھانا ختم کر لوں گی‘‘۔دراصل زویا کی عادت تھی کہ وہ کھانے کے دوران بہت سا کھانا اپنی پلیٹ میں ڈال لیتی اور کبھی پورا ختم نہ کر پاتی۔اس کی امی نے کئی بار زویا کو سمجھایا تھا کہ ایسا کرنا بُری عادت ہے۔یہ حرکت رزق کی بے قدری میں شما ر ہوتی ہے۔پہلی بار میں ہمیشہ کم کھانا ڈالنا چاہیے اور بھوک محسوس ہو تو دوبارہ لے لینا چاہیے،لیکن کھانا پلیٹ میں کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔
زویا اپنی امی کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی،یا جواب میں کہتی ’’امی!جو کھانا بچ جائے وہ باہر جانور کھا لیتے ہیں نہ‘‘۔تب اس کی امی بولتیں کہ ’’جانوروں او ر پرندوں کو بھی بچے ہوئے کھانے کی بجائے صاف کھانا ڈالنا چاہیے‘‘۔روزانہ سمجھانے کے باوجود زویا پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔وہ کھانا ضائع کرنے کو معمولی سی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیتی تھی او ر سوچتی کہ بھلا تھوڑا سا کھانا بچ جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔زویا کے کان میں جب کبھی اپنی امی کی بات گونجتی کہ ’’رزق کی بے قدری کرنے سے یہ ناراض ہو جاتا ہے‘‘تو جواب میں وہ ہنس کر بولتی’’کیا کھانا مجھ سے روٹھ کر پلیٹ سے باہر بھاگ جائے گا‘‘۔وہ اپنی امی کی اس بات کا مطلب کبھی نہیں سمجھ پائی تھی۔
وقت یونہی گزرتا گیا اور زویا قدرے بڑی ہو گئی۔ایک روز اسے پیٹ میں شدید تکلیف محسوس ہوئی تو اس کے والدین زویا کو چیک کروانے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے۔معائنہ کرنے کے بعد پتا چلا کہ زویا کے پیٹ میں پتھری ہے جسے فوراً آپریشن سے ختم کرنا پڑے گا۔اگلے روز زویا کا آپریشن تھا اور ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق اسے آپریشن سے 24گھنٹے پہلے تک بالکل بھوکے رہنا تھا۔زویا کو اجازت تھی تو صرف جوس اور پانی پینے کی۔بڑی مشکل سے جوں توں کر کے اس نے یہ گھنٹے گزارے۔وہ سوچ رہی تھی کہ آپریشن کے بعد فوراً وہ اپنے من پسند کھانے جی بھر کے کھائے گی،لیکن وہ شاید نہیں جانتی تھی کہ رزق کی بے قدری اس کے سامنے امتحان بن کر کھڑی ہو گئی تھی۔آپریشن کامیاب رہا اور جب اسے ہوش آیا تو پتا چلا کہ ڈاکٹروں نے اگلے تین سے چار روز تک کسی بھی قسم کی سخت غذا لینے سے منع کیا ہے۔یہ سن کر زویا اپنے امی،ابو سے بحث کرنے لگی کہ اسے شدید بھوک لگی ہے اور وہ ہر صورت کچھ لذیذ کھانا چاہتی ہے،لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق زویا کو اگلے چند روز صرف نرم غذا یا پینے والی چیزیں دی گئیں۔پہلے پہل تو اس نے احتجاج بھی کیا اور روئی بھی لیکن جب احساس ہوا کہ اس کی ایک نہیں چلنے والی تو خاموش ہو رہی اور ہسپتال کے بستر پر لیٹے کچھ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔زویا کو احساس ہو رہا تھا کہ مشکل کی یہ گھڑی کیوں اس پر آئی ہے۔وہ سمجھ گئی تھی کہ بیماری کے روپ میں دراصل اسے رزق کی قدر کرنا سکھایا جا رہا ہے۔جس بچے ہوئے کھانے کو وہ فالتو سمجھ کر پلیٹ میں چھوڑ دیتی تھی آج وہی کسی نعمت سے کم معلوم نہیں ہو رہا تھا۔اس رات زویا نے صدقِ دل سے دعا کی اور خدا سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کبھی چاول کے ایک دانے کی بھی بے قدری نہیں کرے گی۔