I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔ روشن ضمیر وزیر
ایک بادشاہ کا وزیر بہت لائق، روشن ضمیر اور دور رس نگاہ رکھتا تھا۔ اللہ کا فرماں بردار ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کا بھی تابع دار تھا۔ ظالم حاکموں کی طرح نہ تھا کہ لوگوں پر بے جا ٹیکس لگا کر خزانہ بھرتا ہو اور خدا کا نافرمان ہو۔ ایک شخص صبح سویرے بادشاہ کے پاس گیا اور دعا دے کر عرض کرنے لگاکہ آپ مانیں نہ مانیں یہ وزیر آپ کا خفیہ دشمن ہے کیونکہ اس نے بہت سارے لوگوں کو اپنا مقروض بنا لیا ہے اور شرط یہ لگائی ہے کہ بادشاہ کے مرنے پر قرض واپس لوں گا۔ گویا یہ آپ کی جلد موت کا خواہاں ہے۔ بادشاہ نے ناراض ہو کر وزیر کی طرف دیکھاکہ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ وزیر نے آداب بجا لاتے ہوئے عرض کیا! اب جب کہ بات کھل ہی گئی ہے تو میں عرض کردیتا ہوں۔ مقروض تو لوگوں کو میں نے مذکورہ شرط پر بنایا ہے لیکن میرے حاسد نے نتیجہ غلط نکالا ہے۔ میںیہ نہیں چاہتا کہ آپ کو موت جلد ہو بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ سارے مقروض آپ کی درازی عمر کے لیے دعا گو رہیں کیونکہ آپ کی عمر جتنی لمبی ہو گی اتنی ہی ان کو قرض کی ادائیگی میں مہلت مل جائے گی۔ تو کیا آپ نہیں چاہتے کہ لوگ آپ کی درازی عمر کی دعا کریں؟ عقل مند لوگ تو دعا کو غنیمت جانتے ہیں کیونکہ دعا ہی سے مصائب کے تیر روکے جا سکتے ہیں۔ بادشاہ کو بات سمجھ آ گئی اور اس کا چہرہ پھول کی طرح کھل اٹھا اور وزیر کا مرتبہ پہلے سے بھی بڑھا دیا۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ چغل خور بدنصیب ہے جو بدگوئی کے ذریعے دو دوستوں کی لڑائی کراتا ہے گویا دو افراد میں آگ جلاکر خود ہی اس آگ میں جل مرتا ہے۔ سعدیؒ فرماتے ہیں! جو خلوت کا مزہ چکھ لیتا ہے پھر لوگوں کی برائی سے زبان روک لیتا ہے۔ نفع والی بات کر! اگرچہ کسی کو پسند نہ آئے کیونکہ حق بات نہ کہنے والا قیامت کے دن شرمندہ ہو گا اور افسوس کرتے ہوئے چیخیں مارے گا۔