Sehra Mein Pani By Nauman Khan

I

intelligent086

Guest
صحرا میں پانی ۔۔۔۔۔ نعمان خان

sehra-mein-pani-jpg.jpg

پُرانے وقتوں کی بات ہے ،صحرا کے پار دور دراز ایک چھوٹے سے گائوں میں نعیم اور کریم نامی دو بھائی رہا کرتے تھے۔یہ مٹی اور لکڑی کے خوبصورت نمونے تیار کر کے لوگوں کو بیچا کرتے تھے۔
خدا نے دونوں کو ایسا ہنر دیا تھا کہ ان کا تیار کیا گیا ہر نمونہ بے مثال ہوتا۔جو بھی ان کے پاس خریداری کرنے آتا تعریف کیے بنا نہ رہ پاتا۔یہ گائوں چونکہ شہر سے بے حد دور اور صحرا کے قریب تھا اس لیے یہاں زیادہ امیر لوگ نہیں رہتے تھے۔لوگ چھوٹا موٹا کام کر کے کھانے،پینے کا ہی بندو بست کر پاتے تھے۔اس لیے نعیم اور کریم بھی اپنی محنت کے مطابق معاوضہ وصول نہیں کر پاتے تھے،بلکہ انہوں نے بیچنے کے لیے رکھے ہوئے نمونو ں کی قیمتیں نہایت کم رکھی ہوئی تھیں تا کہ لوگ با آسانی خرید پائیں اور ان کا بھی گزارا ہوتا رہے۔

یوں تو دونوں بھائی ہی محنتی اور ہنر مند تھے لیکن نعیم کی ایک عادت کریم سے مختلف تھی۔کریم کے کام کرنے کا طریقہ کچھ یوں تھا کہ وہ ایک وقت میں ایک ہی نمونے کو پوری توجہ اور محنت سے تیار کرتا،جبکہ نعیم کی کوشش ہوتی کہ وہ کم وقت میں زیادہ نمونے تیار کر لے ۔ اس طرح وہ نہ صرف بے حد تھک جاتا بلکہ ایک چیز کو پوری توجہ بھی نہ دے پاتا اور ہمیشہ جلدی میں رہتا ۔کریم نے اپنے بھائی کو اکثر سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر وہ پوری لگن سے ایک وقت میں ایک چیز تیار کرے گا تو ذہنی طور پر پُر سکون بھی رہے گا اور چیز بھی شاندار بنے گی،لیکن نعیم کا ایک ہی جواب ہوتا کہ وہ اب زیادہ پیسہ کمانا چاہتا ہے تا کہ اگلی زندگی آرام سے گزار سکے۔بھائی کی بات سن کر کریم چُپ ہو رہتا۔

ایک بار شہر کے چند لوگوں کا صحرا کے اس پار آنا ہوا ۔وہ بازار میں خریدو فروخت کے لیے نکلے تو ان کا گزر دونوں بھائیوں کی دکان کے سامنے سے ہوا۔ان کے تیار کیے ہوئے خوبصورت نمو نے دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔انہوں نے لکڑی سے تیار کیا گیاایک خوبصورت ہاتھی خریدنا چاہا تو اس کی قیمت سن کر انہیں مزید حیرت ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ اس قدر شاندار کام کی وہ اتنی کم قیمت کیوں وصو ل کر رہے ہیں تو جواباً کریم نے بتایا کہ اس علاقے کے لوگ زیادہ مہنگی چیز نہیں خرید سکتے۔تب شہریوں نے دونوں بھائیوں کو مشورہ دیا کہ وہ ان کے ساتھ صحرا کے پار شہر چلیں ،وہاں نہ صرف انہیں اپنی محنت کے مطابق اچھی رقم ملے گی بلکہ ان کے کام کو بھی بے حد پسند کیا جائے گا۔آپس میں مشورہ کرنے کے بعد دونوں بھائی شہر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔اگلے روز انہوں نے اپنی ضرورت کا تمام سامان اونٹ گاڑی پر لادا اور سفر کے لیے روانہ ہو گئے۔انہیں شہر پہنچنے میں 5سے 6 دن لگ سکتے تھے۔

پہلے 3 د ن تو چلتے اور آرام کرتے گزر گئے لیکن چوتھے دن قہر کی گرمی پڑنے لگی۔دھوپ کی تپش اس قدر تیز تھی کہ گھڑوں میں موجود پانی سوکھنے لگا۔قافلے کے تمام لوگ پریشان تھے کہ اس صورتحال میں کیا ،کیا جائے۔اگر چوتھے روز ہی پانی ختم ہو گیا تو اگلے2 دن وہ پیاس سے ہی مر جائیں گے۔اب آگے بڑھنا تب ہی ممکن تھا جب گھڑوں میں اگلے2 دن کے لیے پانی نہ بھر لیا جاتا۔کریم نے سب کو مشورہ دیا کہ اگر وہ مل کر صحرا میں گڑھا کھودیں تو نیچے سے پانی ضرور نکل سکتا ہے۔سب نے کریم کی بات سے اتفاق کیا اور زمین میں گڑھا کھودنے لگے۔وقت گزرتا گیا لیکن پانی کی ایک بوند تک نہ حاصل ہوئی۔تمام مسافروں میں نعیم سب سے زیادہ طاقتور اور مضبوط اعصاب کا مالک تھا،کچھ دیر بعد سبھی تھک ہار کر آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گئے لیکن نعیم جلد از جلد کام ختم کرنا چاہتا تھا۔کریم کا بھی تھکاوٹ سے بُرا حال تھا ۔وہ آرام کرنے لگا تو اس نے نعیم کو بھی ساتھ چلنے کو کہا،لیکن اس نے انکار کر دیا اور کام جاری رکھا۔

یونہی کافی وقت گزر گیا اور پانی کا کوئی نشان نظر نہ آیا تو نعیم نے سوچا کیوں نہ اس کی بجائے کسی دوسری جگہ گڑھا کھودا جائے،شاید وہاں سے پانی حاصل ہو جائے،اور پھر فوراً ہی فیصلہ کر کے پہلی جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ گڑھا کھودنے لگا۔باقی ساتھیوں کے اٹھنے تک نعیم نے لمحہ بھر بھی آرام نہیں کیا اور مختلف جگہوں پر 3,2 گڑھے کھود لیے،لیکن پانی کی بوند اب تک حاصل نہ ہوئی تھی۔کریم کی آنکھ کھلی تو وہ جلدی سے اٹھ کر گڑھے کے قریب پہنچا اور سامنے کا منظر دیکھ کر پریشان ہو گیا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے بھائی نے جلد بازی میں کام نمٹانے کے لیے نہ صرف بے جا محنت کی ہے بلکہ اپنی توانائی بھی ضائع کی ہے۔وہ نعیم کو سمجھاتے ہوئے بولا ’’میرے بھائی اگر مختلف گڑھے کھودنے کی بجائے تم ایک ہی جگہ محنت کرتے تو اس وقت تک کامیاب ہو چکے ہوتے۔اپنی طبیعت میں تحمل پیدا کرو تو تمہیں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔بھائی کی بات سن کر نعیم خاموش ہو رہا،تب کریم پھر بولا’’آئو سب مل کر اب پہلے والے گڑھے کو ہی مزید کھودیں‘‘۔سب نے دوبارہ کوشش کی تو کچھ ہی دیر بعد زمین سے پانی نکلنے لگا۔سب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا،اور اپنے برتنوں کو پانی سے بھر کر منزل کی جانب بڑھ گئے۔اس سفر سے نعیم نے وہ سبق سیکھ لیا تھا جس کے بعد کامیابی یقینا اس کا مقدر تھی۔

 
Top