I
intelligent086
Guest
شرارت کی سزا ...... عرفان وقاص
محلے کے شرارتی گروپ کا سربراہ اکرم اپنے دیگر ساتھیوں امجد، اشرف، عامر کو لیے سکول کے گرائونڈ میں بیٹھا تھا،کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اکرم، امجد کی بات کاٹتے ہوئے بولا! یار میں نے تم لوگوں کو ان فضول باتوں کے لیے اکٹھا نہیں کیا بلکہ ایک انتہائی اہم کام کے لیے جمع کیا ہے۔ ابھی اکرم اپنا مقصد بیان کرنے ہی لگا تھا کہ امجد فوراً بول اٹھا’’مقصد تو ہم سب کو معلوم ہے کہ کوئی بہترین سی شرارت آپ ہم کو بتائیں اور پھر سب مل کر وہ شرارت کریں تاکہ خوب لطف اٹھایا جا سکے‘‘۔
’’ اسی کام کے لیے تو ہم روزانہ یہاں جمع ہوتے ہیں‘‘۔ عامر نے بڑی دھیمی آواز میں تینوں کو اپنی پلاننگ بتائی جس کو سب نے سراہا۔ اگلی صبح منصوبے کے تحت یہ اکٹھے سکول کے لیے نکلے۔
اتنے میں ان کی نظر اندھے فقیر پر پڑی اور وہ مسکرانے لگے۔چاروں کا شرارتی ٹولہ اندھے فقیر کے پاس پہنچا تو عامر، اکرم، امجد سڑک عبور کرکے دوسرے کنارے پر ہوگئے اور اشرف فقیر کے پاس گیا اور اس سے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہنے لگا’’ بابا جی !روزانہ سکول جاتے ہوئے آپ کو یہاں بھیک مانگتے ہوئے دیکھتا ہوں لیکن آپ کا کشکول اکثر خالی رہتا ہے کیونکہ جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں یہاں سے بہت کم لوگوں کا گزر ہے۔ آیئے میں آپ کو سڑک کے دوسرے کنارے پر لے چلتا ہوں آپ وہاں بیٹھ کر بھیک مانگیں تو زیادہ پیسے ملیں گے‘‘۔ چنانچہ اس نے جلدی سے فقیر کا ہاتھ پکڑا اور اس کو سڑک عبور کروانے لگا لیکن جب سڑک کے درمیان میں پہنچا تو فقیر کا ہاتھ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ بے چارہ اندھا فقیر سڑک کے درمیان میں کھڑا بچائو بچائو کی آوازیں لگا رہا تھا۔ فقیر کی وجہ سے سڑک کے دونوں اطراف کی ٹریفک جام ہو گئی۔
اکرم، عامر، امجد نے جب ٹریفک کو جام ہوتے ہوئے دیکھا تو گھبرا کر سکول کی طرف بھاگنا شروع کر دیاعامر، امجد، اکرم تینوں تیز بھاگتے ہوئے آگے نکل گئے، اشرف بھی مسلسل بھاگ رہا تھا کہ اچانک ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور پیچھے سے آتی ہوئی تیز رفتار موٹرسائیکل یکدم بریک نہ لگنے کی وجہ سے اس کی ٹانگ پر سے گزر گئی جس کی وجہ سے اشرف بری طرح زخمی ہو گیا۔
سر حفیظ نے جب اتر کر اشرف کو دیکھا تواسے اٹھا کر موٹرسائیکل پر بٹھا کر فوراً ہسپتال پہنچا دیا اور اس کے گھر فون کر دیا کہ وہ ہسپتال پہنچ جائیں، اور ساتھ ساتھ تسلی بھی دی کہ ڈاکٹروں نے بتایا ہے ٹانگ بچ ہے گئی ورنہ جس طرح موٹرسائیکل ٹانگ پر چڑھ گئی تھی شاید ہڈی ٹوٹ جاتی۔ اشرف کے ابو نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان کے لخت جگر کی ٹانگ تو بچ گئی اور اس کے ساتھ سر حفیظ کا بھی شکریہ ادا کیا جن کی وجہ سے ان کے لاڈلے بیٹے کی جان خطرے سے باہر تھی۔
اگلے روز بھی اشرف کو ہوش نہ آیا کیونکہ چوٹیں کافی گہری تھیں شام کو جب اشرف کو ہوش آیا تو اس نے ادھر ادھر دیکھا تو اس کے سب گھر والے اس کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے جب اس نے اپنے دائیں جانب سر حفیظ کو بیٹھے دیکھا تو بہت شرمندہ ہوا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ انہیں اس کی شرارت کے متعلق علم ہے۔ سر حفیظ نے آگے بڑھ کر اشرف کو گلے لگا لیا اور پیار کرتے ہوئے کہا’’ بیٹا !میں نے تم سب کی شرارت دیکھ لی تھی اور موٹرسائیکل اس لئے تیز دوڑائی تھی تاکہ تمہیں روکوں اور سمجھائوں لیکن تمہارے اچانک گرنے سے موٹر سائیکل آپ کی ٹانگ پر سے گزر گیا میں آپ سے معذرت کرتا ہوں‘‘۔ سر حفیظ نے دیکھا تو اشرف اور پاس کھڑے اس کے دوستوں کی آنکھوں میں آنسوتھے۔ وہ سمجھ گئے کہ وہ سب اپنے کیے پر نادم ہیں لہٰذا انہوں نے مزید نصیحتیں کرتے ہوئے کہا۔ بچو! آئندہ سے توبہ کر لو کہ ایسی شرارت نہیں کرو گے کہ جس سے دوسروں کو اور اپنے آپ کو نقصان پہنچے۔ان سب پر سر حفیظ کی باتوں کا کافی گہرا اثر ہوا اور انہوں نے سر حفیظ سے اور اپنے والدین سے معافی مانگی کہ وہ آئندہ کبھی بھی ایسی شرارت نہیں کریں گے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچے۔
محلے کے شرارتی گروپ کا سربراہ اکرم اپنے دیگر ساتھیوں امجد، اشرف، عامر کو لیے سکول کے گرائونڈ میں بیٹھا تھا،کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اکرم، امجد کی بات کاٹتے ہوئے بولا! یار میں نے تم لوگوں کو ان فضول باتوں کے لیے اکٹھا نہیں کیا بلکہ ایک انتہائی اہم کام کے لیے جمع کیا ہے۔ ابھی اکرم اپنا مقصد بیان کرنے ہی لگا تھا کہ امجد فوراً بول اٹھا’’مقصد تو ہم سب کو معلوم ہے کہ کوئی بہترین سی شرارت آپ ہم کو بتائیں اور پھر سب مل کر وہ شرارت کریں تاکہ خوب لطف اٹھایا جا سکے‘‘۔
’’ اسی کام کے لیے تو ہم روزانہ یہاں جمع ہوتے ہیں‘‘۔ عامر نے بڑی دھیمی آواز میں تینوں کو اپنی پلاننگ بتائی جس کو سب نے سراہا۔ اگلی صبح منصوبے کے تحت یہ اکٹھے سکول کے لیے نکلے۔
اتنے میں ان کی نظر اندھے فقیر پر پڑی اور وہ مسکرانے لگے۔چاروں کا شرارتی ٹولہ اندھے فقیر کے پاس پہنچا تو عامر، اکرم، امجد سڑک عبور کرکے دوسرے کنارے پر ہوگئے اور اشرف فقیر کے پاس گیا اور اس سے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہنے لگا’’ بابا جی !روزانہ سکول جاتے ہوئے آپ کو یہاں بھیک مانگتے ہوئے دیکھتا ہوں لیکن آپ کا کشکول اکثر خالی رہتا ہے کیونکہ جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں یہاں سے بہت کم لوگوں کا گزر ہے۔ آیئے میں آپ کو سڑک کے دوسرے کنارے پر لے چلتا ہوں آپ وہاں بیٹھ کر بھیک مانگیں تو زیادہ پیسے ملیں گے‘‘۔ چنانچہ اس نے جلدی سے فقیر کا ہاتھ پکڑا اور اس کو سڑک عبور کروانے لگا لیکن جب سڑک کے درمیان میں پہنچا تو فقیر کا ہاتھ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ بے چارہ اندھا فقیر سڑک کے درمیان میں کھڑا بچائو بچائو کی آوازیں لگا رہا تھا۔ فقیر کی وجہ سے سڑک کے دونوں اطراف کی ٹریفک جام ہو گئی۔
اکرم، عامر، امجد نے جب ٹریفک کو جام ہوتے ہوئے دیکھا تو گھبرا کر سکول کی طرف بھاگنا شروع کر دیاعامر، امجد، اکرم تینوں تیز بھاگتے ہوئے آگے نکل گئے، اشرف بھی مسلسل بھاگ رہا تھا کہ اچانک ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور پیچھے سے آتی ہوئی تیز رفتار موٹرسائیکل یکدم بریک نہ لگنے کی وجہ سے اس کی ٹانگ پر سے گزر گئی جس کی وجہ سے اشرف بری طرح زخمی ہو گیا۔
سر حفیظ نے جب اتر کر اشرف کو دیکھا تواسے اٹھا کر موٹرسائیکل پر بٹھا کر فوراً ہسپتال پہنچا دیا اور اس کے گھر فون کر دیا کہ وہ ہسپتال پہنچ جائیں، اور ساتھ ساتھ تسلی بھی دی کہ ڈاکٹروں نے بتایا ہے ٹانگ بچ ہے گئی ورنہ جس طرح موٹرسائیکل ٹانگ پر چڑھ گئی تھی شاید ہڈی ٹوٹ جاتی۔ اشرف کے ابو نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان کے لخت جگر کی ٹانگ تو بچ گئی اور اس کے ساتھ سر حفیظ کا بھی شکریہ ادا کیا جن کی وجہ سے ان کے لاڈلے بیٹے کی جان خطرے سے باہر تھی۔
اگلے روز بھی اشرف کو ہوش نہ آیا کیونکہ چوٹیں کافی گہری تھیں شام کو جب اشرف کو ہوش آیا تو اس نے ادھر ادھر دیکھا تو اس کے سب گھر والے اس کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے جب اس نے اپنے دائیں جانب سر حفیظ کو بیٹھے دیکھا تو بہت شرمندہ ہوا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ انہیں اس کی شرارت کے متعلق علم ہے۔ سر حفیظ نے آگے بڑھ کر اشرف کو گلے لگا لیا اور پیار کرتے ہوئے کہا’’ بیٹا !میں نے تم سب کی شرارت دیکھ لی تھی اور موٹرسائیکل اس لئے تیز دوڑائی تھی تاکہ تمہیں روکوں اور سمجھائوں لیکن تمہارے اچانک گرنے سے موٹر سائیکل آپ کی ٹانگ پر سے گزر گیا میں آپ سے معذرت کرتا ہوں‘‘۔ سر حفیظ نے دیکھا تو اشرف اور پاس کھڑے اس کے دوستوں کی آنکھوں میں آنسوتھے۔ وہ سمجھ گئے کہ وہ سب اپنے کیے پر نادم ہیں لہٰذا انہوں نے مزید نصیحتیں کرتے ہوئے کہا۔ بچو! آئندہ سے توبہ کر لو کہ ایسی شرارت نہیں کرو گے کہ جس سے دوسروں کو اور اپنے آپ کو نقصان پہنچے۔ان سب پر سر حفیظ کی باتوں کا کافی گہرا اثر ہوا اور انہوں نے سر حفیظ سے اور اپنے والدین سے معافی مانگی کہ وہ آئندہ کبھی بھی ایسی شرارت نہیں کریں گے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچے۔