I
intelligent086
Guest
شکایت سے ذرا پہلے ۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
پرانے وقتوں کی بات ہے ایک شخص نے دنیا داری چھوڑ کر ہر وقت اللہ کی عبادت کرنا شروع کر دی۔وہ عبادات میں اتنا مصروف ہو گیا کہ دنیا کو بالکل بھول گیا۔ خدا کی تلاش میں دن رات ایک کرنے لگا۔اب اس پر ایسا وقت آیا کہ اس کے گھر میں موجود اناج اور دولت سب ختم ہونے لگی بالآخر وہ وقت آیا کہ فاقے شروع ہو گئے۔ اس نے دن کو روزہ رکھنا اور رات کو عبادت کرنا اپنا مشغلہ بنا لیا۔اب آہستہ آہستہ اخراجات پورے کرنے کے لیے گھر سے اشیاء بھی فروخت ہونے لگیں اور تو اور اس کا گھر بھی فروخت ہو گیا وہ شخص مسجد کی چوکھٹ پر وقت گزارنے لگا اور اس خیال میں رہنے لگا اب شاید میرے پاس ایک ہی منزل بچی ہے وہ ہے موت۔ جب موت آئے گی تو اس خدا کی بارگاہ میں چلا جائوں گا جس کی عبادت میں دن رات ایک کیا ہے لیکن جب تک موت نہیں آتی خدا کو بھی تو چاہیے مجھے سنبھالے میں نے اس کی اتنی عبادت کی ہے وہ بھی میرا خیال رکھے۔ نئے نئے نیک بننے کے ایام تھے جوش ٹھنڈا ہو رہا تھا اور ایسی شکایات و خیالات دل اور دماغ پر حاوی ہو رہے تھے۔ ایک دن وہ شخص سڑک کنارے لگے درخت کی چھائوں میں بیٹھا تھا کہ اس کے قریب سے ایک لمبی قطار میں گھوڑے گزر رہے ہیں اور ان کی خاصیت یہ کہ ان پر بیٹھنے والی سیٹیں سونے اور چاندی سے بنی تھیں اور ان پر سوار نوجوانوں نے سونے کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ان سب کے سروں پر سونے کی ٹوپیاں تھیں۔انہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ سب کے سب کسی شاہی خاندان کے معزز افراد ہیں اس شخص نے کسی سے اس بارے میںپوچھا تو پتہ چلا کہ یہ تو ساتھ والے گاؤں کے ایک رئیس کے غلام ہیں اور بادشاہ کے دربار میں جا رہے ہیں۔وہ شخص کچھ دیر حیران ہوا کہ یہ حالت غلاموں کی ہے تو رئیس کی کیا شان و شوکت ہو گی ؟ اس نے آسمان کی طرف چہرہ کیا اور ہاتھ اٹھا کر کہا اے میرے بادشاہ! میرے مالک ! میرے اللہ ...! تُو تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے یہ دنیاوی رئیس کے غلام ہیں اور اِتنے بہتر ...؟ اتنی بات کہہ کر وہ شخص چل دیا کچھ دن گزرے تو ایک بزرگ آئے اور اس کا بازو پکڑ کر اسے ایک جگہ لے گئے جہاں وہی غلام وہی گھوڑے تھے ۔ ۔ ۔ اب وہ دیکھتا کیا ہے کہ کسی گھوڑے کی ٹانگ کٹی ہوئی ہے کسی غلام کا دھڑ گھوڑے کی پشت پر پڑا ہے کسی غلام کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں کسی کے سر سے خون نکل رہا ہے ۔ وہ شخص حیران ہوا اور بزرگ سے پوچھا ، آپ کون ہیں اور یہ سب کیا ماجرا ہے ؟
اس بزرگ نے کہا کہ یہ وہی غلام ہیں جو اس دن سونے میں لپٹے ہوئے تھے یہ ایک جنگ سے واپس آ رہے ہیں اس لیے یہ حالت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے خواب میں بس اتنا کہا گیا ہے کہ ُاسے کہنا بادشاہوں کیلئے قربانیاں دینا بھی ان غلاموں سے سیکھ لے۔
حقیقت میںہمیں قربانی دینا آیاہی نہیں۔۔۔۔۔ آج ہم اپنی حالت پر غور کریںجس دن ہم قربانی دینا سیکھ لیں گے ، توکل کر نا سیکھ لیں گے ، اس دن اللہ رب العزت ہمیں ایسی بادشاہت عطا فرمائے گا جو کبھی نہ ختم ہو گی...ہمیں اپنے حقوق تو یاد ہیں مگر اُس کے حقوق ادا کرنے پر توجہ ہی نہیں۔ تو پہلے بادشاہوں کے بادشاہ کے شایان شان اس کا حق بندگی ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔
پرانے وقتوں کی بات ہے ایک شخص نے دنیا داری چھوڑ کر ہر وقت اللہ کی عبادت کرنا شروع کر دی۔وہ عبادات میں اتنا مصروف ہو گیا کہ دنیا کو بالکل بھول گیا۔ خدا کی تلاش میں دن رات ایک کرنے لگا۔اب اس پر ایسا وقت آیا کہ اس کے گھر میں موجود اناج اور دولت سب ختم ہونے لگی بالآخر وہ وقت آیا کہ فاقے شروع ہو گئے۔ اس نے دن کو روزہ رکھنا اور رات کو عبادت کرنا اپنا مشغلہ بنا لیا۔اب آہستہ آہستہ اخراجات پورے کرنے کے لیے گھر سے اشیاء بھی فروخت ہونے لگیں اور تو اور اس کا گھر بھی فروخت ہو گیا وہ شخص مسجد کی چوکھٹ پر وقت گزارنے لگا اور اس خیال میں رہنے لگا اب شاید میرے پاس ایک ہی منزل بچی ہے وہ ہے موت۔ جب موت آئے گی تو اس خدا کی بارگاہ میں چلا جائوں گا جس کی عبادت میں دن رات ایک کیا ہے لیکن جب تک موت نہیں آتی خدا کو بھی تو چاہیے مجھے سنبھالے میں نے اس کی اتنی عبادت کی ہے وہ بھی میرا خیال رکھے۔ نئے نئے نیک بننے کے ایام تھے جوش ٹھنڈا ہو رہا تھا اور ایسی شکایات و خیالات دل اور دماغ پر حاوی ہو رہے تھے۔ ایک دن وہ شخص سڑک کنارے لگے درخت کی چھائوں میں بیٹھا تھا کہ اس کے قریب سے ایک لمبی قطار میں گھوڑے گزر رہے ہیں اور ان کی خاصیت یہ کہ ان پر بیٹھنے والی سیٹیں سونے اور چاندی سے بنی تھیں اور ان پر سوار نوجوانوں نے سونے کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ان سب کے سروں پر سونے کی ٹوپیاں تھیں۔انہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ سب کے سب کسی شاہی خاندان کے معزز افراد ہیں اس شخص نے کسی سے اس بارے میںپوچھا تو پتہ چلا کہ یہ تو ساتھ والے گاؤں کے ایک رئیس کے غلام ہیں اور بادشاہ کے دربار میں جا رہے ہیں۔وہ شخص کچھ دیر حیران ہوا کہ یہ حالت غلاموں کی ہے تو رئیس کی کیا شان و شوکت ہو گی ؟ اس نے آسمان کی طرف چہرہ کیا اور ہاتھ اٹھا کر کہا اے میرے بادشاہ! میرے مالک ! میرے اللہ ...! تُو تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے یہ دنیاوی رئیس کے غلام ہیں اور اِتنے بہتر ...؟ اتنی بات کہہ کر وہ شخص چل دیا کچھ دن گزرے تو ایک بزرگ آئے اور اس کا بازو پکڑ کر اسے ایک جگہ لے گئے جہاں وہی غلام وہی گھوڑے تھے ۔ ۔ ۔ اب وہ دیکھتا کیا ہے کہ کسی گھوڑے کی ٹانگ کٹی ہوئی ہے کسی غلام کا دھڑ گھوڑے کی پشت پر پڑا ہے کسی غلام کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں کسی کے سر سے خون نکل رہا ہے ۔ وہ شخص حیران ہوا اور بزرگ سے پوچھا ، آپ کون ہیں اور یہ سب کیا ماجرا ہے ؟
اس بزرگ نے کہا کہ یہ وہی غلام ہیں جو اس دن سونے میں لپٹے ہوئے تھے یہ ایک جنگ سے واپس آ رہے ہیں اس لیے یہ حالت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے خواب میں بس اتنا کہا گیا ہے کہ ُاسے کہنا بادشاہوں کیلئے قربانیاں دینا بھی ان غلاموں سے سیکھ لے۔
حقیقت میںہمیں قربانی دینا آیاہی نہیں۔۔۔۔۔ آج ہم اپنی حالت پر غور کریںجس دن ہم قربانی دینا سیکھ لیں گے ، توکل کر نا سیکھ لیں گے ، اس دن اللہ رب العزت ہمیں ایسی بادشاہت عطا فرمائے گا جو کبھی نہ ختم ہو گی...ہمیں اپنے حقوق تو یاد ہیں مگر اُس کے حقوق ادا کرنے پر توجہ ہی نہیں۔ تو پہلے بادشاہوں کے بادشاہ کے شایان شان اس کا حق بندگی ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔