I
intelligent086
Guest
شکر گزار شہزادہ (پہلی قسط - دوم) ۔۔۔۔۔۔ تحریر : ثوبیہ سلیم
بادشاہ جنگل میں پریشان یہاں،وہاں گھوم رہا تھا۔وہ شکار کرنے کی غرض سے جنگل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا تھا،لیکن ان سے جدا ہو کر راستہ بھٹک گیا تھا اور اب اسے واپس جانے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔
جنگل بے حد گھنا تھا اور کچھ ہی دیر میں رات ہونے والی تھی۔بادشاہ پریشان تھا کہ آخر وہ کیا کرے۔اتنے میں اسے سامنے سے ہاتھ میں لاٹھی تھامے ایک بوڑھا آتا ہوا دکھائی دیا۔اس بوڑھے کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک تھی لیکن بادشاہ خوفزدہ ہوئے بغیر دم سادھے کھڑا رہا۔بوڑھا ،بادشاہ کے قریب آیا اور غصیلے لہجے میں پوچھنے لگا’’تم کون ہو اور میرے جنگل میں کیا کر رہے ہو‘‘؟بادشاہ نے اسے تمام ماجرا کہہ سنایا کہ کس طرح وہ اپنے ساتھیوں سے الگ ہوا اور اب اسے واپس جانے کا راستہ نہیں مل رہا۔بادشاہ کی بات سن کر بوڑھا ہنسنے لگا اور بولا’’اس جنگل میں آنے کا راستہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن یہاں سے کوئی میری مدد کے بغیر واپس نہیں جا سکتا۔‘‘
بادشاہ بولا’’کیا آپ یہاں سے نکلنے میں میری کوئی مدد کر سکتے ہیں؟اس کے بدلے آپ جو بھی مانگیں گے میں دینے کو تیار ہوں‘‘۔
بوڑھا شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا’’یقینا میں تمہیں واپس محل جانے کا راستہ بتا سکتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے‘‘۔
بادشاہ جلدی سے بولا’’میں آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ہوں‘‘۔دراصل بادشاہ اندر سے خوفزدہ تھا کہ اگر وہ اس جنگل میں لا پتہ ہو گیا تو جلد ہی اسے خونخوار جانور اپنی خوراک بنا لیں گے۔اس لیے وہ اپنی آخری امید بوڑھے کو سمجھ رہا تھا اور جلد از جلد واپس محل پہنچنا چاہتا تھا جہاں اس کی ملکہ اور چھوٹا سا بیٹا اس کی راہ تک رہے تھے۔
بادشاہ کی بات سن کر بوڑھا بولا’’میں تمہاری جنگل سے نکلنے میں مدد کروں گا،لیکن واپس پہنچ کر محل کے دروازے سے جو پہلی چیز اپنے قدموں پر چلے بغیر باہرآئے گی وہ تمہیں مجھے دینا ہو گی‘‘۔بوڑھے کی بات سن کر بادشاہ نے منظور کر لیا اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔بوڑھا بادشاہ کو ستانے کی خاطر دشوار راستوں سے ہوتا ہوا جنگل پار کر رہا تھا۔ اگلے روز تھکن سے نڈھال بادشاہ کو جب اپنا محل نظر آیا تو اس کے اندر پھر سے جوش بھر گیا۔وہ تیزی سے چلتا ہوا محل کے قریب پہنچا اور اس سے پہلے کہ محل کے گیٹ تک جاتا پیچھے سے آواز آئی’’بادشاہ !اپنا وعدہ یاد رکھنا میں کل اسی وقت آئوں گا‘‘۔
بوڑھے کی بات سن کر بادشاہ محل کی جانب بڑھنے لگا۔پہریداروں نے بادشاہ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے اندر ملکہ کو اطلاع دینے گئے ۔ آس پاس کے سبھی لوگ جو بادشاہ کے جنگل میں کھوجانے کی خبر سے پریشان تھے ،خوش ہوتے ہوئے محل کی جانب بڑھنے لگے،لیکن اس سے پہلے کہ بادشاہ محل کا گیٹ پار کرتا ملکہ اپنے چھوٹے سے بیٹے کو اٹھائے دوڑتی ہوئی بادشاہ کی جانب لپکی۔بادشاہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے رُکنے کو کہا ،لیکن وہ شاید بادشاہ کاا شارہ سمجھ نہ پائی اور تیزی سے گیٹ پار کر کے شہزاد ے کو بادشاہ کی گود میں دے دیا۔یہ دیکھ کر بادشاہ کے اوسان خطا ہو گئے ۔ ملکہ نے شہزادے کو گود میں اٹھائے گیٹ پار کیا تھا۔اس کا مطلب شہزادہ وہ پہلی چیز تھا جو اپنے قدموں پر چلے بغیر محل کی دہلیز سے باہر آئی تھی،اور وعدے کے مطابق بادشاہ کو کل شہزادہ بوڑھے شیطان کے سپر د کرنا پڑتا۔یہ سوچ کر بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،ملکہ پریشان ہو کر بادشاہ کو دیکھنے لگی اور اس سے رونے کا سبب پوچھا جس پر بادشا ہ نے ملکہ کو اندر چلنے کا اشارہ کیا ۔ وہ محل میں پہنچے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ملکہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بادشاہ بولا ’’ملکہ!آپ یقینا سوچ رہی ہوں گی کہ اس قدر خوشی کے موقعے پر میرے رونے کا سبب کیا ہے؟تو میں آپ کو وہ پورا قصہ سناتا ہوں جو جنگل میں مجھ پر بیتا‘‘۔اس کے بعد بادشاہ نے ساری بات ملکہ کو سنائی تو بوڑھے سے کیا جانے والا وعدہ سن کر ملکہ کے بھی پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ان دونوں کو اپنا شہزادہ جان سے بھی زیادہ عزیز تھا اور وہ کسی قیمت پر بھی اپنا بیٹا بوڑھے شیطان کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے۔رات بھر دونوں سوچتے رہے کہ آخر وعدہ پورا کرنے کے لیے بوڑھے کو کس طرح مطمئن کیا جائے،اور پھر آخر بادشاہ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی جو اس نے ملکہ کو بھی بتائی تو وہ بھی کچھ سوچنے لگی۔
(جاری ہے)
بادشاہ جنگل میں پریشان یہاں،وہاں گھوم رہا تھا۔وہ شکار کرنے کی غرض سے جنگل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا تھا،لیکن ان سے جدا ہو کر راستہ بھٹک گیا تھا اور اب اسے واپس جانے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔
جنگل بے حد گھنا تھا اور کچھ ہی دیر میں رات ہونے والی تھی۔بادشاہ پریشان تھا کہ آخر وہ کیا کرے۔اتنے میں اسے سامنے سے ہاتھ میں لاٹھی تھامے ایک بوڑھا آتا ہوا دکھائی دیا۔اس بوڑھے کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک تھی لیکن بادشاہ خوفزدہ ہوئے بغیر دم سادھے کھڑا رہا۔بوڑھا ،بادشاہ کے قریب آیا اور غصیلے لہجے میں پوچھنے لگا’’تم کون ہو اور میرے جنگل میں کیا کر رہے ہو‘‘؟بادشاہ نے اسے تمام ماجرا کہہ سنایا کہ کس طرح وہ اپنے ساتھیوں سے الگ ہوا اور اب اسے واپس جانے کا راستہ نہیں مل رہا۔بادشاہ کی بات سن کر بوڑھا ہنسنے لگا اور بولا’’اس جنگل میں آنے کا راستہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن یہاں سے کوئی میری مدد کے بغیر واپس نہیں جا سکتا۔‘‘
بادشاہ بولا’’کیا آپ یہاں سے نکلنے میں میری کوئی مدد کر سکتے ہیں؟اس کے بدلے آپ جو بھی مانگیں گے میں دینے کو تیار ہوں‘‘۔
بوڑھا شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا’’یقینا میں تمہیں واپس محل جانے کا راستہ بتا سکتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے‘‘۔
بادشاہ جلدی سے بولا’’میں آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ہوں‘‘۔دراصل بادشاہ اندر سے خوفزدہ تھا کہ اگر وہ اس جنگل میں لا پتہ ہو گیا تو جلد ہی اسے خونخوار جانور اپنی خوراک بنا لیں گے۔اس لیے وہ اپنی آخری امید بوڑھے کو سمجھ رہا تھا اور جلد از جلد واپس محل پہنچنا چاہتا تھا جہاں اس کی ملکہ اور چھوٹا سا بیٹا اس کی راہ تک رہے تھے۔
بادشاہ کی بات سن کر بوڑھا بولا’’میں تمہاری جنگل سے نکلنے میں مدد کروں گا،لیکن واپس پہنچ کر محل کے دروازے سے جو پہلی چیز اپنے قدموں پر چلے بغیر باہرآئے گی وہ تمہیں مجھے دینا ہو گی‘‘۔بوڑھے کی بات سن کر بادشاہ نے منظور کر لیا اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔بوڑھا بادشاہ کو ستانے کی خاطر دشوار راستوں سے ہوتا ہوا جنگل پار کر رہا تھا۔ اگلے روز تھکن سے نڈھال بادشاہ کو جب اپنا محل نظر آیا تو اس کے اندر پھر سے جوش بھر گیا۔وہ تیزی سے چلتا ہوا محل کے قریب پہنچا اور اس سے پہلے کہ محل کے گیٹ تک جاتا پیچھے سے آواز آئی’’بادشاہ !اپنا وعدہ یاد رکھنا میں کل اسی وقت آئوں گا‘‘۔
بوڑھے کی بات سن کر بادشاہ محل کی جانب بڑھنے لگا۔پہریداروں نے بادشاہ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے اندر ملکہ کو اطلاع دینے گئے ۔ آس پاس کے سبھی لوگ جو بادشاہ کے جنگل میں کھوجانے کی خبر سے پریشان تھے ،خوش ہوتے ہوئے محل کی جانب بڑھنے لگے،لیکن اس سے پہلے کہ بادشاہ محل کا گیٹ پار کرتا ملکہ اپنے چھوٹے سے بیٹے کو اٹھائے دوڑتی ہوئی بادشاہ کی جانب لپکی۔بادشاہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے رُکنے کو کہا ،لیکن وہ شاید بادشاہ کاا شارہ سمجھ نہ پائی اور تیزی سے گیٹ پار کر کے شہزاد ے کو بادشاہ کی گود میں دے دیا۔یہ دیکھ کر بادشاہ کے اوسان خطا ہو گئے ۔ ملکہ نے شہزادے کو گود میں اٹھائے گیٹ پار کیا تھا۔اس کا مطلب شہزادہ وہ پہلی چیز تھا جو اپنے قدموں پر چلے بغیر محل کی دہلیز سے باہر آئی تھی،اور وعدے کے مطابق بادشاہ کو کل شہزادہ بوڑھے شیطان کے سپر د کرنا پڑتا۔یہ سوچ کر بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،ملکہ پریشان ہو کر بادشاہ کو دیکھنے لگی اور اس سے رونے کا سبب پوچھا جس پر بادشا ہ نے ملکہ کو اندر چلنے کا اشارہ کیا ۔ وہ محل میں پہنچے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ملکہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بادشاہ بولا ’’ملکہ!آپ یقینا سوچ رہی ہوں گی کہ اس قدر خوشی کے موقعے پر میرے رونے کا سبب کیا ہے؟تو میں آپ کو وہ پورا قصہ سناتا ہوں جو جنگل میں مجھ پر بیتا‘‘۔اس کے بعد بادشاہ نے ساری بات ملکہ کو سنائی تو بوڑھے سے کیا جانے والا وعدہ سن کر ملکہ کے بھی پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ان دونوں کو اپنا شہزادہ جان سے بھی زیادہ عزیز تھا اور وہ کسی قیمت پر بھی اپنا بیٹا بوڑھے شیطان کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے۔رات بھر دونوں سوچتے رہے کہ آخر وعدہ پورا کرنے کے لیے بوڑھے کو کس طرح مطمئن کیا جائے،اور پھر آخر بادشاہ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی جو اس نے ملکہ کو بھی بتائی تو وہ بھی کچھ سوچنے لگی۔
(جاری ہے)