I
intelligent086
Guest
سوچ کر مانگنا ...... تحریر : نعمان خان
بچو!ہم سب کے دل میں بے شمار خواہشات ہوتی ہیں جنہیں ہم پلک جھپکنے سے پہلے پورا کرنا چاہتے ہیں،لیکن بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ بار بار مانگنے کے باوجود بھی ہماری کئی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں اور پھر ہم اللہ پاک سے شکوہ کرنے لگتے ہیں کہ وہ ہماری عرض نہیں سُنتا۔
بچو!ہم سب کے دل میں بے شمار خواہشات ہوتی ہیں جنہیں ہم پلک جھپکنے سے پہلے پورا کرنا چاہتے ہیں،لیکن بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ بار بار مانگنے کے باوجود بھی ہماری کئی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں اور پھر ہم اللہ پاک سے شکوہ کرنے لگتے ہیں کہ وہ ہماری عرض نہیں سُنتا۔اکثر ہماری خواہشات پوری کیوں نہیں ہوپاتیں اور ان کے پیچھے کیا مصلحت ہوتی ہے بچوں اسی سے متعلق آپ کو ایک کہانی سُناتے ہیں۔
کسی گائوں میں فضل نامی ایک لکڑہارا رہتا تھاجو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچتا اور یوں اس کا گزارہ ہو رہا تھا۔فضل کے ساتھ گھر میں اس کی بیوی اور ایک بیٹی رہتی تھی۔اس کی بیٹی پنکی ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھی۔دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد فضل جب شام کو گھر لوٹتا تو بیٹی بھاگ کر باپ سے لپٹ جاتی او ر بیٹی کوسینے سے لگا کر فضل کی ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی۔یوں تو فضل اپنی زندگی میں بے حد خوش تھا لیکن وہ اپنی بیٹی اور بیوی کو دُنیا کی ہر آسائش دینا چاہتا تھا۔وہ چونکہ پڑھا لکھا نہیں تھا اس لیے کوئی اچھی نوکری تو نہیں کر سکتا تھا اور لکڑیاں بیچ کر حاصل ہونے والی محدود آمدنی میں و ہ صرف اچھا کھانا ہی کھا پاتے تھے۔فضل کی بیوی نے اسے کئی بار سمجھایا کہ وہ اتنی آمد ن میں بھی خوش ہیں لیکن فضل ہمیشہ مزید کچھ کرنے کی ترکیب سوچتا رہتا۔
روزانہ کی طرح ایک دن فضل جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہاتھا کہ اچانک اسے ''بچائو،بچائو‘‘کی آوازیں سُنائی دیں۔اب جو اس نے دیکھا تو درخت پر ایک پری لٹکی ہوئی نظر آئی جس کے پر درخت کی شاخوں میں اُلجھ گئے تھے اور جادوئی چھڑی نیچے گر جانے کے باعث وہ خود کو چھُڑوا نہیں پا رہی تھی۔فضل درخت کے پاس آیا تو پری نے اس سے مدد کی درخواست کی۔فضل جلدی سے درخت پر چڑھا اور اس نے پری کو شاخوں سے آزاد کروا دیا۔پری،فضل کی بے حد شکر گزار ہوئی اور اپنی چھڑی اُٹھاتے ہوئے بولی ''تم نے میری بڑی مدد کی ہے،اس کے بدلے تم جو انعام مجھ سے لینا چاہو لے لو‘‘۔فضل نے سوچا کہ یہی اچھا موقع ہے۔اس نے کہا''میں چاہتا ہوں کہ میرے ہاتھ جس چیز کو چھوئیں وہ سونے کی بن جائے اور یوں میں بہت امیر ہو جائوں‘‘۔فضل کی بات سُن کر پری بولی ''کیا تمہیں یقین ہے کہ تم اپنے لیے یہی چاہتے ہو‘‘؟ فضل نے بغیر سوچے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔پری نے آنکھیں بند کیں اور ایک منتر پڑھ کرفضل کی خواہش پوری کر دی۔اب جو فضل نے قریب موجود درخت کو ہاتھ لگایا تو وہ اسی وقت سونے کا بن گیا۔یہ دیکھ کر فضل خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا گھر کی جانب چل پڑا اور راستے میں کئی چیزوں کو ہاتھ لگا کر سونے کا بنتے دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔گھر کے باہر اس کی بیٹی پنکی باپ کے انتظار میں بیٹھی تھی جونہی اس نے فضل کوآتے دیکھا وہ بھاگ کر باپ سے لپٹ گئی اور فضل نے بھی بے دھیانی میں اسے دونوں ہاتھوں سے بھینچ لیا ،لیکن جونہی فضل کے ہاتھ پنکی کو لگے وہ سونے کی مورتی بن گئی۔
یہ دیکھ کر فضل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور پھر پنکی کو اُٹھا کر جنگل کی جانب دوڑا۔سامنے پری بڑے پتھر پر بیٹھی مُسکرا رہی تھی۔فضل اس سے درخواست کرتے ہوئے بولا کہ ''طاقت واپس لے،لے کیونکہ بیٹی سے بڑی دولت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔‘‘پری نے مُسکرا کر فضل کو جادوئی طاقت سے آزاد کر دیا اور اسی لمحے پنکی بھی اپنی اصلی حالت میں لوٹ آئی۔
بچو!اسی طرح بہت سے چیزیں جو مانگنے کے باوجود ہمیں نہ ملیں ان میں خُدا کی کوئی مصلحت ہوتی ہے۔
بچو!ہم سب کے دل میں بے شمار خواہشات ہوتی ہیں جنہیں ہم پلک جھپکنے سے پہلے پورا کرنا چاہتے ہیں،لیکن بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ بار بار مانگنے کے باوجود بھی ہماری کئی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں اور پھر ہم اللہ پاک سے شکوہ کرنے لگتے ہیں کہ وہ ہماری عرض نہیں سُنتا۔
بچو!ہم سب کے دل میں بے شمار خواہشات ہوتی ہیں جنہیں ہم پلک جھپکنے سے پہلے پورا کرنا چاہتے ہیں،لیکن بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ بار بار مانگنے کے باوجود بھی ہماری کئی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں اور پھر ہم اللہ پاک سے شکوہ کرنے لگتے ہیں کہ وہ ہماری عرض نہیں سُنتا۔اکثر ہماری خواہشات پوری کیوں نہیں ہوپاتیں اور ان کے پیچھے کیا مصلحت ہوتی ہے بچوں اسی سے متعلق آپ کو ایک کہانی سُناتے ہیں۔
کسی گائوں میں فضل نامی ایک لکڑہارا رہتا تھاجو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچتا اور یوں اس کا گزارہ ہو رہا تھا۔فضل کے ساتھ گھر میں اس کی بیوی اور ایک بیٹی رہتی تھی۔اس کی بیٹی پنکی ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھی۔دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد فضل جب شام کو گھر لوٹتا تو بیٹی بھاگ کر باپ سے لپٹ جاتی او ر بیٹی کوسینے سے لگا کر فضل کی ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی۔یوں تو فضل اپنی زندگی میں بے حد خوش تھا لیکن وہ اپنی بیٹی اور بیوی کو دُنیا کی ہر آسائش دینا چاہتا تھا۔وہ چونکہ پڑھا لکھا نہیں تھا اس لیے کوئی اچھی نوکری تو نہیں کر سکتا تھا اور لکڑیاں بیچ کر حاصل ہونے والی محدود آمدنی میں و ہ صرف اچھا کھانا ہی کھا پاتے تھے۔فضل کی بیوی نے اسے کئی بار سمجھایا کہ وہ اتنی آمد ن میں بھی خوش ہیں لیکن فضل ہمیشہ مزید کچھ کرنے کی ترکیب سوچتا رہتا۔
روزانہ کی طرح ایک دن فضل جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہاتھا کہ اچانک اسے ''بچائو،بچائو‘‘کی آوازیں سُنائی دیں۔اب جو اس نے دیکھا تو درخت پر ایک پری لٹکی ہوئی نظر آئی جس کے پر درخت کی شاخوں میں اُلجھ گئے تھے اور جادوئی چھڑی نیچے گر جانے کے باعث وہ خود کو چھُڑوا نہیں پا رہی تھی۔فضل درخت کے پاس آیا تو پری نے اس سے مدد کی درخواست کی۔فضل جلدی سے درخت پر چڑھا اور اس نے پری کو شاخوں سے آزاد کروا دیا۔پری،فضل کی بے حد شکر گزار ہوئی اور اپنی چھڑی اُٹھاتے ہوئے بولی ''تم نے میری بڑی مدد کی ہے،اس کے بدلے تم جو انعام مجھ سے لینا چاہو لے لو‘‘۔فضل نے سوچا کہ یہی اچھا موقع ہے۔اس نے کہا''میں چاہتا ہوں کہ میرے ہاتھ جس چیز کو چھوئیں وہ سونے کی بن جائے اور یوں میں بہت امیر ہو جائوں‘‘۔فضل کی بات سُن کر پری بولی ''کیا تمہیں یقین ہے کہ تم اپنے لیے یہی چاہتے ہو‘‘؟ فضل نے بغیر سوچے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔پری نے آنکھیں بند کیں اور ایک منتر پڑھ کرفضل کی خواہش پوری کر دی۔اب جو فضل نے قریب موجود درخت کو ہاتھ لگایا تو وہ اسی وقت سونے کا بن گیا۔یہ دیکھ کر فضل خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا گھر کی جانب چل پڑا اور راستے میں کئی چیزوں کو ہاتھ لگا کر سونے کا بنتے دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔گھر کے باہر اس کی بیٹی پنکی باپ کے انتظار میں بیٹھی تھی جونہی اس نے فضل کوآتے دیکھا وہ بھاگ کر باپ سے لپٹ گئی اور فضل نے بھی بے دھیانی میں اسے دونوں ہاتھوں سے بھینچ لیا ،لیکن جونہی فضل کے ہاتھ پنکی کو لگے وہ سونے کی مورتی بن گئی۔
یہ دیکھ کر فضل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور پھر پنکی کو اُٹھا کر جنگل کی جانب دوڑا۔سامنے پری بڑے پتھر پر بیٹھی مُسکرا رہی تھی۔فضل اس سے درخواست کرتے ہوئے بولا کہ ''طاقت واپس لے،لے کیونکہ بیٹی سے بڑی دولت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔‘‘پری نے مُسکرا کر فضل کو جادوئی طاقت سے آزاد کر دیا اور اسی لمحے پنکی بھی اپنی اصلی حالت میں لوٹ آئی۔
بچو!اسی طرح بہت سے چیزیں جو مانگنے کے باوجود ہمیں نہ ملیں ان میں خُدا کی کوئی مصلحت ہوتی ہے۔