I
intelligent086
Guest
سونے کے دانتوں والا ہاتھی ....... تحریر : عمارہ سلمان
پیارے بچو!کہتے ہیں کہ کسی گائوں میں نمرہ نامی ایک بیوہ عورت رہتی تھی۔اس کی 2 بیٹیاں تھیں جو ابھی کم سِن تھیں کہ نمرہ کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔شوہر کی وفات کے بعد نمرہ نے بچیوں کا پیٹ پالنے اور انہیں پڑھانے لکھانے کے لیے شوہر کی زمین پر خود کھیتی باڑی شروع کر دی۔گنے کی فصل کاشت ہونے کا موسم تھا اور نمرہ کی زمین پر بھی فصل کٹنے کو تیار تھی۔اس بار فصل اُمید سے زیادہ اچھی ہوئی تھی اس لیے نمرہ بے حد خوش تھی کہ فصل سے حاصل ہونے والے پیسوں سے وہ اپنے اور بچیوں کے لیے خوب خریداری کرے گی۔
بچو !نمرہ میں ایک بُری عادت یہ تھی کہ وہ اپنی چادر دیکھ کر پائوں نہیں پھیلاتی تھی۔شوہر کی زندگی میں بھی اس نے کبھی پیسے بچانے کی کوشش نہیں کی تھی جو مشکل وقت میں کام آسکتے۔جتنے پیسے اس کا شوہر لا کر دیتا وہ سب چند ہی دنوں میں خرچ کر ڈالتی شوہر کی وفات کے بعد بھی اس کی عاد ت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
فصل کاشت کرنے سے ایک دن پہلے نمرہ زمین پر نظر ڈالنے کے لیے گئی تو یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے کہ قریب کے جنگل سے آیا ہوا ہاتھی گنے کی آدھی فصل کھا چُکا تھا۔اب جو نمرہ نے اپنی سال بھر کی محنت کو یوں برباد ہوتے دیکھا تو وہیں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ہاتھی چونکہ بے حد نرم دل تھا،لہٰذا اس نے جو زمین پر افسردہ بیٹھی عورت کو دیکھا تو اس کے قریب آ کر رونے کا سبب پوچھنے لگا۔ جس پر نمرہ نے غمزدہ آواز میں ہاتھی کو بتایاکہ''جو فصل اس نے ابھی کھا ئی ہے یہ اس کی سال بھر کی محنت تھی اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے ہی اسے اپنا اور بچیوں کا پیٹ پالنا تھا‘‘۔ہاتھی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ معافی مانگتے ہوئے بولا''مجھے شدید بھوک محسوس ہو رہی تھی اور گنے نہایت میٹھے لگ رہے تھے،اس لیے میں نے ان سے اپنی بھوک مٹا لی،لیکن چونکہ غلطی میری ہے اور میں نے تمہارا نقصان کیا ہے اس لیے میں اس کا مداوا بھی کروں گا‘‘۔نمرہ آنسو بھری آنکھوں سے ہاتھی کو دیکھنے لگی کہ بھلا یہ میرے لیے کیا کر سکتا ہے۔اتنے میں ہاتھی نے اپنے دانت کا ایک چھوٹا ٹکڑاتوڑ کر نمرہ کے آگے کیا اور بولا''یہ سونے کا دانت ہے،اسے بیچ کر تم آسانی سے اتنے پیسے حاصل کر لو گی کہ تمہاری سال بھر کی ضروریات پوری ہو جائیں‘‘۔ہاتھی کی بات سُن کر نمرہ خوشی سے بے حال ہو گئی۔اس نے اگلے ہی دن بازار میں وہ دانت کا ٹکڑا بیچا جس کے بدلے اسے اُمید سے کہیں زیادہ پیسے مل گئے۔اب بجائے اس کے کہ نمرہ ضرورت کے مطابق ان پیسوں کو خرچ کرتی اور کچھ مشکل وقت کے لیے سنبھال کر رکھتی۔اس نے تمام پیسے چند ہی مہینوں میں خوب خریداری کرکے ضائع کر دئیے۔اس دوران وہ اتنی بے فکر ہو گئی کہ اس نے زمین پر کھیتی باڑی بھی نہ کی۔اب جو پیسے ختم ہونے کے قریب آئے تو نمرہ کو فکر ستانے لگی کہ باقی کے دن کیسے گزارے گی۔سوچتے سوچتے اسکے ذہن میں ایک خیال آیا اور وہ بے فکر ہو کے سوگئی۔
اگلے دن نمرہ اپنی زمین پر گئی اور کافی سارے گنے توڑ کر ہاتھی کا انتظار کرنے لگی۔اب ہاتھی کا معمول تھا کہ وہ شام کے وقت روزانہ گائوں کا چکر ضرور لگاتا تھا۔وہاں کے لوگ اس سے مانوس ہو چکے تھے اس لیے اُسے کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ دے دیتے۔شام کے قریب ہاتھی گائوں پہنچا تو نمرہ کو گنے لیے بیٹھے دیکھ کر اس کی طرف آ گیا۔وہ نمرہ کے ارادوں سے بے خبر تھا ،اس لیے قریب آ کر اس سے حال احوال دریافت کیا تو نمرہ بولی ''دیکھو بھیا ہاتھی میں نے تمہارے لیے کس قدر رس بھرے موٹے گنے اکٹھے کر کے رکھے ہیں‘‘۔ہاتھی مسکراتے ہوئے اپنی سونڈ سے گنے اُٹھا کر کھانے لگا اور جب ہاتھی مصرو ف ہو گیا تو نمرہ نے اپنے پیچھے موجودکلہاڑی اُٹھائی اور چپکے سے وار کر کے ہاتھی کا پورا دانت توڑنا ہی چاہتی تھی۔کہ اسی دوران ہاتھی مُڑا اور اس کی بھاری سونڈ نمرہ کو لگی ۔جونہی ہاتھی کی سونڈ نمرہ سے ٹکرائی وہ چکرا کر دور جا گری اور کلہاڑی بھی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔یہ منظر جو ہاتھی نے دیکھا تو وہ نمرہ کے ارادے سمجھ گیا۔وہ افسوس سے نمرہ کی جانب دیکھتے ہوئے بولا''میں نے تو تمہارے ساتھ مشکل وقت میں ہمدردی کی اورتم اس کا یہ بدلہ دینے جا رہی تھی کہ کلہاڑی کا وار کر کے میرے دونوں دانت حاصل کرنا چاہتی تھی۔اس میں شاید میری جان بھی چلی جاتی لیکن تم نے اپنی آنکھوں پر لالچ اور کاہلی کی پٹی باند ھ لی تھی۔ایک بار نقصا ن ہونے کے بعد اگر تم اپنی زمین پر دوبارہ محنت کرتی تو آج تمہیں یہ کام کرنے کی ضرورت نہ پڑتی لیکن تمہاری خالی زمین بتا رہی ہے کہ تم بغیر محنت کے پیسہ حاصل کرنا چاہتی تھی‘‘'۔اتنا کہہ کر ہاتھی واپس جنگل کی جانب چلا گیا اور نمرہ نہ صرف خالی ہاتھ رہ گئی بلکہ اس نے ایک ہمدرد دوست بھی کھو دیا۔
پیارے بچو!کہتے ہیں کہ کسی گائوں میں نمرہ نامی ایک بیوہ عورت رہتی تھی۔اس کی 2 بیٹیاں تھیں جو ابھی کم سِن تھیں کہ نمرہ کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔شوہر کی وفات کے بعد نمرہ نے بچیوں کا پیٹ پالنے اور انہیں پڑھانے لکھانے کے لیے شوہر کی زمین پر خود کھیتی باڑی شروع کر دی۔گنے کی فصل کاشت ہونے کا موسم تھا اور نمرہ کی زمین پر بھی فصل کٹنے کو تیار تھی۔اس بار فصل اُمید سے زیادہ اچھی ہوئی تھی اس لیے نمرہ بے حد خوش تھی کہ فصل سے حاصل ہونے والے پیسوں سے وہ اپنے اور بچیوں کے لیے خوب خریداری کرے گی۔
بچو !نمرہ میں ایک بُری عادت یہ تھی کہ وہ اپنی چادر دیکھ کر پائوں نہیں پھیلاتی تھی۔شوہر کی زندگی میں بھی اس نے کبھی پیسے بچانے کی کوشش نہیں کی تھی جو مشکل وقت میں کام آسکتے۔جتنے پیسے اس کا شوہر لا کر دیتا وہ سب چند ہی دنوں میں خرچ کر ڈالتی شوہر کی وفات کے بعد بھی اس کی عاد ت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
فصل کاشت کرنے سے ایک دن پہلے نمرہ زمین پر نظر ڈالنے کے لیے گئی تو یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے کہ قریب کے جنگل سے آیا ہوا ہاتھی گنے کی آدھی فصل کھا چُکا تھا۔اب جو نمرہ نے اپنی سال بھر کی محنت کو یوں برباد ہوتے دیکھا تو وہیں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ہاتھی چونکہ بے حد نرم دل تھا،لہٰذا اس نے جو زمین پر افسردہ بیٹھی عورت کو دیکھا تو اس کے قریب آ کر رونے کا سبب پوچھنے لگا۔ جس پر نمرہ نے غمزدہ آواز میں ہاتھی کو بتایاکہ''جو فصل اس نے ابھی کھا ئی ہے یہ اس کی سال بھر کی محنت تھی اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے ہی اسے اپنا اور بچیوں کا پیٹ پالنا تھا‘‘۔ہاتھی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ معافی مانگتے ہوئے بولا''مجھے شدید بھوک محسوس ہو رہی تھی اور گنے نہایت میٹھے لگ رہے تھے،اس لیے میں نے ان سے اپنی بھوک مٹا لی،لیکن چونکہ غلطی میری ہے اور میں نے تمہارا نقصان کیا ہے اس لیے میں اس کا مداوا بھی کروں گا‘‘۔نمرہ آنسو بھری آنکھوں سے ہاتھی کو دیکھنے لگی کہ بھلا یہ میرے لیے کیا کر سکتا ہے۔اتنے میں ہاتھی نے اپنے دانت کا ایک چھوٹا ٹکڑاتوڑ کر نمرہ کے آگے کیا اور بولا''یہ سونے کا دانت ہے،اسے بیچ کر تم آسانی سے اتنے پیسے حاصل کر لو گی کہ تمہاری سال بھر کی ضروریات پوری ہو جائیں‘‘۔ہاتھی کی بات سُن کر نمرہ خوشی سے بے حال ہو گئی۔اس نے اگلے ہی دن بازار میں وہ دانت کا ٹکڑا بیچا جس کے بدلے اسے اُمید سے کہیں زیادہ پیسے مل گئے۔اب بجائے اس کے کہ نمرہ ضرورت کے مطابق ان پیسوں کو خرچ کرتی اور کچھ مشکل وقت کے لیے سنبھال کر رکھتی۔اس نے تمام پیسے چند ہی مہینوں میں خوب خریداری کرکے ضائع کر دئیے۔اس دوران وہ اتنی بے فکر ہو گئی کہ اس نے زمین پر کھیتی باڑی بھی نہ کی۔اب جو پیسے ختم ہونے کے قریب آئے تو نمرہ کو فکر ستانے لگی کہ باقی کے دن کیسے گزارے گی۔سوچتے سوچتے اسکے ذہن میں ایک خیال آیا اور وہ بے فکر ہو کے سوگئی۔
اگلے دن نمرہ اپنی زمین پر گئی اور کافی سارے گنے توڑ کر ہاتھی کا انتظار کرنے لگی۔اب ہاتھی کا معمول تھا کہ وہ شام کے وقت روزانہ گائوں کا چکر ضرور لگاتا تھا۔وہاں کے لوگ اس سے مانوس ہو چکے تھے اس لیے اُسے کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ دے دیتے۔شام کے قریب ہاتھی گائوں پہنچا تو نمرہ کو گنے لیے بیٹھے دیکھ کر اس کی طرف آ گیا۔وہ نمرہ کے ارادوں سے بے خبر تھا ،اس لیے قریب آ کر اس سے حال احوال دریافت کیا تو نمرہ بولی ''دیکھو بھیا ہاتھی میں نے تمہارے لیے کس قدر رس بھرے موٹے گنے اکٹھے کر کے رکھے ہیں‘‘۔ہاتھی مسکراتے ہوئے اپنی سونڈ سے گنے اُٹھا کر کھانے لگا اور جب ہاتھی مصرو ف ہو گیا تو نمرہ نے اپنے پیچھے موجودکلہاڑی اُٹھائی اور چپکے سے وار کر کے ہاتھی کا پورا دانت توڑنا ہی چاہتی تھی۔کہ اسی دوران ہاتھی مُڑا اور اس کی بھاری سونڈ نمرہ کو لگی ۔جونہی ہاتھی کی سونڈ نمرہ سے ٹکرائی وہ چکرا کر دور جا گری اور کلہاڑی بھی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔یہ منظر جو ہاتھی نے دیکھا تو وہ نمرہ کے ارادے سمجھ گیا۔وہ افسوس سے نمرہ کی جانب دیکھتے ہوئے بولا''میں نے تو تمہارے ساتھ مشکل وقت میں ہمدردی کی اورتم اس کا یہ بدلہ دینے جا رہی تھی کہ کلہاڑی کا وار کر کے میرے دونوں دانت حاصل کرنا چاہتی تھی۔اس میں شاید میری جان بھی چلی جاتی لیکن تم نے اپنی آنکھوں پر لالچ اور کاہلی کی پٹی باند ھ لی تھی۔ایک بار نقصا ن ہونے کے بعد اگر تم اپنی زمین پر دوبارہ محنت کرتی تو آج تمہیں یہ کام کرنے کی ضرورت نہ پڑتی لیکن تمہاری خالی زمین بتا رہی ہے کہ تم بغیر محنت کے پیسہ حاصل کرنا چاہتی تھی‘‘'۔اتنا کہہ کر ہاتھی واپس جنگل کی جانب چلا گیا اور نمرہ نہ صرف خالی ہاتھ رہ گئی بلکہ اس نے ایک ہمدرد دوست بھی کھو دیا۔