I
intelligent086
Guest
تالاب کا پانی ۔۔۔۔ نعمان خان
کہتے ہیں دور دراز کسی جنگل میں ایک گہرا تالاب تھا،جو ہر موسم میں پانی سے بھرا رہتا تھا۔یوں تو اس میں بہت سی مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور رہتے تھے لیکن دو مچھلیاں ایسی تھیں جوپورے تالاب پر حکمرانی کیا کرتی تھیں۔جانے ان میں ایسی کیا بات تھی کہ پانی کے سب جانور ان کی بات ضرور مانا کرتے تھے۔یہ دونوں یہاں برسوں سے رہ رہی تھیں نئے آنے والے جانوروں کو یہ اصول سمجھا دیا جاتا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ان دو مچھلیوں سے جھگڑا نہیں کرناورنہ تالاب سے نکلنا پڑے گا۔اس تالاب میں ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس کا پانی بے حد میٹھا بھی تھا۔دور،دور سے لوگ اس میں سے پانی بھرنے آیا کرتے تھے۔
ایک بار گرمیوں کے موسم میں شدید گرمی پڑی۔انسان و حیوان سبھی سورج کی تپش سے گھبرائے نظر آ رہے تھے۔ایسے میں بہت سے تالاب اور جھیلیں سوکھنے لگیں۔ایسے وقت میں بھی اس جھیل کا پانی کم نہیں ہوا تھا۔آس،پاس کی جھیلو ں کے جانور اپنی جان بچانے کی خاطر اس طرف آنے لگے تو ان دونوں مچھلیوں کو فکر ہونے لگی کہ اگر یہی حال رہا اور سب جانوروں نے ہماری جھیل کی ہی راہ تک لی تو جلد ہی اس کا پانی بھی ختم ہونے لگے گا اور باقی جانوروں کے ساتھ،ساتھ ہمیں بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔یہ سوچ کر انہوں نے جھیل کے دوسرے جانوروں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے سب جانوروں کو ان کی بات سے اتفاق کرنا پڑا،اور وہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہنے لگے کہ انہیں یقینا کوئی ایسی ترکیب لڑانی چاہیے جس کے ذریعے مزید جانوروں کو اپنی جھیل میں آنے سے روکاجا سکے۔
مچھلیوں نے کافی سوچ و بچار کرنے کے بعد ایک پلان ترتیب دیا اور تمام آبی جانوروں کو سمجھاتے ہوئے بولیں’’اپنی جھیل کی حفاظت کے لیے ہمیں پہرہ دینا ہو گا۔تم سب جھیل کے کناروں پر باری باری پہرہ دو گے،اور جو کوئی نیا جانور اس طرف آتے دیکھو اسے اندر آنے سے روکو گے۔اگر پھر بھی وہ زبردستی اندر آنے کی کوشش کرے تو اپنے ساتھ بڑے جانوروں کو شامل کر کے اس کا مقابلہ کرنا‘‘۔
ایک مچھلی جو رحمدل تھی اور طاقتور مچھلیوں کے سامنے بات کرنے کی جرأت بھی رکھتی تھی بولی’’میرے خیال میں کوئی بھی چیز جو بانٹی جائے اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔اگر اس مشکل وقت میں ہم اپنی جھیل کا پانی دوسروں سے بانٹیں گے تو اللہ کے حُکم سے اس میں کبھی کمی نہیں آئے گی۔ایسا میرا یقین ہے‘‘۔
اس مچھلی کی بات سن کر طاقتو ر مچھلیاں ناگواری سے گویا ہوئیں’’جس قدر گرمی پڑ رہی ہے اس میں اگر ہم پانی بانٹنے لگ گئے تو ہم سب کے ساتھ تم بھی چند دن ہی زندہ رہ پائو گی ایسے میں جو کہا جا رہا ہے اس پر خاموشی سے عمل کرو ورنہ چاہوتو ہمدردی نبھانے کے لیے تم بھی جھیل چھوڑکر جا سکتی ہو‘‘۔
مچھلی بے چاری سوائے بولنے کے اور کر بھی کیا سکتی تھی اس لیے خاموش ہو رہی۔تمام آبی جانور جھیل کے کنارے دن،رات پہرہ دینے لگے ۔ جو نیا جانور بھی جھیل میں گھسنے کی کوشش کرتا یہ اسے ڈرا دھمکا کر یا بڑے جانوروں سے پٹائی کروا کے واپس بھگا دیتے۔یہاں تک کہ انہوں نے انسانوں کو بھی جھیل سے پانی نہ بھرنے دیا۔
سبھی اس صورتحال سے پریشان تھے کہ اس جھیل کے علاوہ باقی سب میں پانی سوکھ چکا ہے ایسے میں اور کہاں سے پانی حاصل کیا جائے۔کچھ جانور دوسری جھیلوں کی تلاش میں نکل گئے ۔لوگ پانی بھرنے دور،دراز علاقوں میں جانے لگے ۔ چند روز یہی حالات رہے اورپھر خدا کے کرم سے جنگل سے دور علاقے میں تیز بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اس طرف کی جھیلیں پانی سے بھر گئیں اور پانی کی کمی سے مرتے جانوروں نے سُکھ کا سانس لیا،لیکن دوسری جانب میٹھے پانی کی جھیل والے علاقے میں کوئی بارش نہ ہوئی ۔ یہاں کے جانور چند روز تو سکون سے جھیل میں رہتے رہے لیکن کافی عرصے بعد بھی جب بارش نہ ہوئی اور گرمی جوں کی توں رہی تو اس کا پانی آہستہ آہستہ سوکھنے لگا۔اس جھیل کے جانور بے خبر تھے کہ دوسرے علاقے کی جھیل بارش سے بھر چکی ہے۔یہ اپنی ہی جھیل کا پانی کم ہوتے دیکھ کر خُدا سے بارشوں کی دعا کرتے رہے،لیکن اپنے بُرے اعمال کے نتیجے میں شاید انہیں سزا ملی اور دعائوں کے باوجود بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسا ۔ آہستہ،آہستہ جھیل کا پانی سوکھ گیا اور بے بسی کی تصویر بنی طاقتور مچھلیاں دوسرے جانوروں کے ساتھ سوچتی رہ گئیں کہ واقعی جب تک لوگ ان کی جھیل سے پانی بھرتے رہے اس میں کبھی کمی نہ آئی لیکن دوسروں پر پانی بند کرنے کے بعد آج و ہ خودسوکھتے پانی میں مرنے جا رہی تھیں۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ مل جل کر رہنے میں برکت ہے۔
کہتے ہیں دور دراز کسی جنگل میں ایک گہرا تالاب تھا،جو ہر موسم میں پانی سے بھرا رہتا تھا۔یوں تو اس میں بہت سی مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور رہتے تھے لیکن دو مچھلیاں ایسی تھیں جوپورے تالاب پر حکمرانی کیا کرتی تھیں۔جانے ان میں ایسی کیا بات تھی کہ پانی کے سب جانور ان کی بات ضرور مانا کرتے تھے۔یہ دونوں یہاں برسوں سے رہ رہی تھیں نئے آنے والے جانوروں کو یہ اصول سمجھا دیا جاتا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ان دو مچھلیوں سے جھگڑا نہیں کرناورنہ تالاب سے نکلنا پڑے گا۔اس تالاب میں ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس کا پانی بے حد میٹھا بھی تھا۔دور،دور سے لوگ اس میں سے پانی بھرنے آیا کرتے تھے۔
ایک بار گرمیوں کے موسم میں شدید گرمی پڑی۔انسان و حیوان سبھی سورج کی تپش سے گھبرائے نظر آ رہے تھے۔ایسے میں بہت سے تالاب اور جھیلیں سوکھنے لگیں۔ایسے وقت میں بھی اس جھیل کا پانی کم نہیں ہوا تھا۔آس،پاس کی جھیلو ں کے جانور اپنی جان بچانے کی خاطر اس طرف آنے لگے تو ان دونوں مچھلیوں کو فکر ہونے لگی کہ اگر یہی حال رہا اور سب جانوروں نے ہماری جھیل کی ہی راہ تک لی تو جلد ہی اس کا پانی بھی ختم ہونے لگے گا اور باقی جانوروں کے ساتھ،ساتھ ہمیں بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔یہ سوچ کر انہوں نے جھیل کے دوسرے جانوروں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے سب جانوروں کو ان کی بات سے اتفاق کرنا پڑا،اور وہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہنے لگے کہ انہیں یقینا کوئی ایسی ترکیب لڑانی چاہیے جس کے ذریعے مزید جانوروں کو اپنی جھیل میں آنے سے روکاجا سکے۔
مچھلیوں نے کافی سوچ و بچار کرنے کے بعد ایک پلان ترتیب دیا اور تمام آبی جانوروں کو سمجھاتے ہوئے بولیں’’اپنی جھیل کی حفاظت کے لیے ہمیں پہرہ دینا ہو گا۔تم سب جھیل کے کناروں پر باری باری پہرہ دو گے،اور جو کوئی نیا جانور اس طرف آتے دیکھو اسے اندر آنے سے روکو گے۔اگر پھر بھی وہ زبردستی اندر آنے کی کوشش کرے تو اپنے ساتھ بڑے جانوروں کو شامل کر کے اس کا مقابلہ کرنا‘‘۔
ایک مچھلی جو رحمدل تھی اور طاقتور مچھلیوں کے سامنے بات کرنے کی جرأت بھی رکھتی تھی بولی’’میرے خیال میں کوئی بھی چیز جو بانٹی جائے اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔اگر اس مشکل وقت میں ہم اپنی جھیل کا پانی دوسروں سے بانٹیں گے تو اللہ کے حُکم سے اس میں کبھی کمی نہیں آئے گی۔ایسا میرا یقین ہے‘‘۔
اس مچھلی کی بات سن کر طاقتو ر مچھلیاں ناگواری سے گویا ہوئیں’’جس قدر گرمی پڑ رہی ہے اس میں اگر ہم پانی بانٹنے لگ گئے تو ہم سب کے ساتھ تم بھی چند دن ہی زندہ رہ پائو گی ایسے میں جو کہا جا رہا ہے اس پر خاموشی سے عمل کرو ورنہ چاہوتو ہمدردی نبھانے کے لیے تم بھی جھیل چھوڑکر جا سکتی ہو‘‘۔
مچھلی بے چاری سوائے بولنے کے اور کر بھی کیا سکتی تھی اس لیے خاموش ہو رہی۔تمام آبی جانور جھیل کے کنارے دن،رات پہرہ دینے لگے ۔ جو نیا جانور بھی جھیل میں گھسنے کی کوشش کرتا یہ اسے ڈرا دھمکا کر یا بڑے جانوروں سے پٹائی کروا کے واپس بھگا دیتے۔یہاں تک کہ انہوں نے انسانوں کو بھی جھیل سے پانی نہ بھرنے دیا۔
سبھی اس صورتحال سے پریشان تھے کہ اس جھیل کے علاوہ باقی سب میں پانی سوکھ چکا ہے ایسے میں اور کہاں سے پانی حاصل کیا جائے۔کچھ جانور دوسری جھیلوں کی تلاش میں نکل گئے ۔لوگ پانی بھرنے دور،دراز علاقوں میں جانے لگے ۔ چند روز یہی حالات رہے اورپھر خدا کے کرم سے جنگل سے دور علاقے میں تیز بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اس طرف کی جھیلیں پانی سے بھر گئیں اور پانی کی کمی سے مرتے جانوروں نے سُکھ کا سانس لیا،لیکن دوسری جانب میٹھے پانی کی جھیل والے علاقے میں کوئی بارش نہ ہوئی ۔ یہاں کے جانور چند روز تو سکون سے جھیل میں رہتے رہے لیکن کافی عرصے بعد بھی جب بارش نہ ہوئی اور گرمی جوں کی توں رہی تو اس کا پانی آہستہ آہستہ سوکھنے لگا۔اس جھیل کے جانور بے خبر تھے کہ دوسرے علاقے کی جھیل بارش سے بھر چکی ہے۔یہ اپنی ہی جھیل کا پانی کم ہوتے دیکھ کر خُدا سے بارشوں کی دعا کرتے رہے،لیکن اپنے بُرے اعمال کے نتیجے میں شاید انہیں سزا ملی اور دعائوں کے باوجود بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسا ۔ آہستہ،آہستہ جھیل کا پانی سوکھ گیا اور بے بسی کی تصویر بنی طاقتور مچھلیاں دوسرے جانوروں کے ساتھ سوچتی رہ گئیں کہ واقعی جب تک لوگ ان کی جھیل سے پانی بھرتے رہے اس میں کبھی کمی نہ آئی لیکن دوسروں پر پانی بند کرنے کے بعد آج و ہ خودسوکھتے پانی میں مرنے جا رہی تھیں۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ مل جل کر رہنے میں برکت ہے۔